کوئی بد بخت ہوگا جس کو گھر اچھا نہیں لگتا
مقصود اعظم فاضلی
کوئی بد بخت ہوگا جس کو گھر اچھا نہیں لگتا
سفر کرنا ہے مجبوری ، سفر اچھا نہیں لگتا
…
رہے محدود گھر تک نور ، نامنظور ہے مجھ کو
ہواؤں کو چراغِ رہ گزر اچھا نہیں لگتا
…
وہ یہ کہتے ہوئے دامن جھٹک کر چل دیئے میرا
کسی کے ساتھ رہنا عمر بھر اچھا نہیں لگتا
…
سبھی رشتوں میں خود غرضی کے کیڑے رینگ جاتے ہیں
سبب یہ ہے کہ مجھ کو مال و زر اچھا نہیں لگتا
…
جسے سونپی گئی اقوامِ عالم کی نگہبانی
اسی کا خود سے رہنا بے خبر اچھا نہیں لگتا
…
ہوئے جب پتھر آنا بند تو ایسا لگا اعظم
کہ لوگوں کو درختِ بے ثمر اچھا نہیں لگتا
تبصرے بند ہیں۔