کچھ قصہ شعر گوئی کا
نادیہ عنبر لودھی
شاعروں کی ایک بڑ ی تعداد تو وہ ہے جو کہ تاریخ کے پنوں میں جلوہگر ہے غا لب جن کے نمائندہ شاعر مانے جا تے ہیں ان سے زمانہ ہمیشہ فیض حاصل کر تا رہے گا۔
کچھ وہ ہیں جن کو تخلیقی صلاحیت ودیعت کی گئی اور زمانہ سکول میں بیدار ہو گئی یہ ساری زندگی قلم کا پیچھا نہیں چھوڑتے چا ر و ناچار قلم دہائی دینے لگتا ہے اب مجھ کو بخش دو اسکول کے زمانے سے جو یہ شروع ہوتے پھر کبھی بس نہیںکرتے اور اکثر ان کی اپنی بس ہو جاتی ہے۔
لیکن انسان بہت ہی ڈھیٹ مخلوق واقع ہوا ہے سو لگا رہتا ہے آدھا دن تو ان کا فعلتن مفاعلن فاعلن میں گزرتا ہے باقی آدھا خیالوں میں اگر کوئی ان سے پو چھے کیوں لکھتے رہتے ہیں تو جواب ندارد۔ خطا اس میں بھی سوالی کی ہے پیٹ میں درد اٹھتاہے تو لکھنا تو پڑتا ہے ورنہ ہاضمہ خراب ہو نے کا اندیشہ ہے۔
آج کل ا یک نئی قسم بھی شاعروں کی متعارف ہو چکی ہے جو شاعری کی تو الف بے نہیں جانتے لیکن ان کو شاعر کہلوانے کا بے حد جنون ہے نیٹ کی مہر بانی سے یہ ڈھیٹائی کا مظاہرہ کرتے ہو ۓ شاعری کی پیجز سے کلام اکٹھا کر کے مختلفگروپس میں بھیج کر داد پاتے ہیں لیکن نقل کے لئے بھی عقل کی ضرورت ہے اب اوزان اور بحر کا علم نہ ہونے کی وجہ سے وزن سے خارج شاعری لگاتے رہتے ہیں جس پہ کم علم لوگ دادری دیتے ہیں اور یہ خوش ہو جاتے ہیں۔
کچھ تو ان سے بھی دو دو ہاتھ آگے ہیں یہ شاعر وں کو فرینڈ ایڈ کرتے ہیں پھر کلام کی فر مائش کرتے ہیں کہ غزل عنایت کی جاۓ کسی مشاعرے میں پڑھنی ہے۔
دیدہ دلیری تو ملاحظہ ہو ایسے ہی عاقل حیوانوں سے جب ہمارا واسطہ پڑ تا ہے تو ہمیں اپنے اشرف المخلوق ہونے پہ شبہ سا ہو نے لگتا ہے ہم بھی حاتم طائی کی قبر پہ لات مار کر کہتے ہیں آپ ایسا کیجۓ ہمارا سارا کلام لے لیجئے۔ ہم اور لکھ لیںگے لیکن نسوانی جذبات کا اظہار مردانگی میں بدلنا آپ کا کام ہے۔
اس پر شرمندہ ہونے کی بجاۓ آر شاد فرمایا جاتا ہے شعر تو کسی کا نہیں ہو تا جو پڑھے اسکا ہو تا ہے ایسے لو گوں کو ہمارا مفت مشورہ ہے کہدیوان غالب اپنے نام سے چھپوا لیں اور ناموری کمائیں اس طرح سے شاعر کہلانے کا شوق بھی پورا ہو جاۓ گا اور نام بھی کما لیں گے۔
جب ان کو سمجھا یا جاتا ہے جو اللہ نے آپ کو بنایا وہ آپ کے لئے بہتر ہے وہی بنئیے۔ تو ناراض ہو جاتے ہیں۔
ایک طبقہ ان جیسا مزید میدان میں ہے جو کہ تُک بندی کو شاعر ی سمجھتا ہے اوربحر سے خارج الفاظ چھپوا کر یہ شاعرات ایوارڈ بھی لیتی ہیں شاید ایوارڈ دینے والوں کو اپنے شاعر ہو نے میں کوئی شک ہے یا علم عروض سے کوئی پرانی دشمنی ہے
اب مشاعروں کا آحوال بھی سن لیجئےاسٹیج پہ بیٹھے نا مور شعرا نئے شاعروں کی پذیرائی کو اپنی توہین سمجھتے ہیں جتنا بھی اچھا شعر سن لیں یہ داد نہیں دیں گے بس ان کو سانپ ہی سونگھا رہے گا اور اپنی باری پہ چند مشہور اشعار سنا کےگھر کی راہ لیں گے چالیس سال پرانے شعر سامعین کب تک سنتے رہیں گے۔ نہ یہ کرسیاں چھوڑیں نہ نئے آنے والوں کو جگہ دیں گے۔ آج ادب بے ادب لوگوں کا محتاج بن چکا ہے بقول پروفیسر حسن عسکری مرحوم "ادب تو رانڈ کا جوائ ہے جوچاہے اس کی گت بناۓ۔
البتہ شاعرات کے معاملے میں یہ دیدہ ودل فراش کیے رہتے ہیں۔
شاعرہ بننے کے لیے صرف ایک خصوصیت لازمی ہے جو کہ خوبصورتی ہے۔
ماضی میں ایسی ہی خواتین کو صف اوّل کی شاعرہ بنایا گیا۔ اور مشاعروں میں وجود زن سے رنگ پیداکیا گیا۔
لکھئیے۔ پڑھئے۔ کتاب سے محبت کیجئے۔ لیکن ………خدارا اردو ادب کے حال پہ رحم کجئے
آج اردو پڑھنے والے اس زبان سے محبت کرنے والے کم ہوتے جارہے ہیں۔
یہ کشادہ زبان ہے جہاں جہاں سے گزرتی ہے اثرات جذب کرتی چلی جاتی ہے سندھ، دکن، پنجاب،
دہلی سب علاقوں کے رنگ سجے ہیں اس میں۔ آخر میں یہ انگریزی الفاظکے لیے دامن کشادہ کرتی نظر آتی ہے۔
یہ کشادہ دل لوگوں کی زبان ہے اس کے لیے کشادہ دلی کا کچھ تو مظاہرہ کیجئے۔
تبصرے بند ہیں۔