شُکر کر اے ناداں

شیخ فاطمہ بشیر

تین چار روز قبل مدرسے کی چودہ سالہ بچی اِرم کی عیادت کے غرض سے والدہ کے ہمراہ سائن اسپتال جانے کا اتفاق ہوا۔ جسے خراب طبیعت کے باعث عید سے دو دن پہلے ہی وہاں ایڈمٹ کروایا گیا تھا۔ مختلف ٹیسٹ کے بعد برین ٹیومر کا خطرہ بتایا گیا۔ دو مرتبہ سر کا آپریشن ہوا۔ اور نکالی گئی گانٹھ تشخیص کے لیے ٹاٹا اسپتال بھیجی گئی ہے جس کی حتمی رپورٹ مزید جانچ کے بعد 5 ستمبر تک حاصل ہوگی۔ ابھی وہ معصوم بچی ICU میں بےحس و حرکت زندگی کے پل جی رہی ہے۔ والدین اس دنیا میں نہیں، نانی کے رحم و کرم پر ہے۔ اسی سے متصل بیڈ پر ہمیں ایک چار سالہ بچہ بھی پٹیوں میں جکڑا نظر آیا۔ دریافت کرنے پر پتہ چلا کہ دماغ میں خون جم جانے کی صورت میں اس چھوٹی سی جان کو آپریشن کے پیچیدہ مراحل سے گزرنا پڑا ہے لیکن یہ بات بھی وثوق سے نہیں کہی جاسکتی کہ کس حد تک مرض میں افاقہ ہوگا۔

یہ تو ICU کے حالات ہیں۔ وہاں سے باہر نکلے تو ہر وارڈ میں مریضوں کا جمِ غفیر نظر آیا۔ مختلف بیماریوں میں گرفتار، الگ الگ آلات میں جکڑے ہوئے، اُن کی صحت یابی کے لیے دوڑ دھوپ کرتے خاندان کے افراد، غیر ہوتی حالتیں، چہرے پر چھائی بےبسی و لاچاری اور امید و ناامیدی کی ملی جلی کیفیات، کسی درد انگیز ماحول کی درد بھری داستان بیان کررہے تھے۔ ایسے تکلیف دہ حالات میں بھی اِرم کی نانی کے مسکراتے ہوئے چہرے کے ساتھ کہے وہ الفاظ کہ، ‘ اللہ کی مرضی تھی، جتنی کوشش کرسکے کریں گے، انشاء اللہ۔ آپ دعاؤں میں یاد رکھیں۔’ ابھی بھی ذہن میں گونج رہے ہیں۔

ہم صرف ایک دن یا کچھ وقت کے لئے سوچے کہ کن کن نعمتوں سے ہمیں سرفراز کیا گیا؟ اپنی ذات اور اطراف نظر دوڑائے تو احساس جاگے گا کہ اللہ نے کتنی بیش بہا اور قیمتی نعمتوں سے ہمیں نوازا ہیں۔ ہمیں نعمتِ ایمان، نعمتِ قرآن، خاندان، دوست و احباب، ذاتی مکان اور مال و دولت عطا کیا۔ صحت مند اور تندرست و توانا جسم، مختلف اعضاء سلامت دیے۔ دولت، بیماری اور علاج میں ضائع ہونے سے محفوظ کردی۔ وقت اسپتال کے چکر کاٹنے سے بچ گیا۔ دن میں کم از کم تین وقت پیٹ بھر کھانا مہیّا کیا۔ اہلِ خانہ، والدین اور آل و اولاد کے ہمراہ گھر کا آرام دہ پُرسکون ماحول عطا کیا۔ اگر ہماری آنکھوں کے پپوٹے ایک دن حرکت کرنا بند کردے یا ایک دن ہمارا کھانا چھین لیا جائے یا ہمارا کوئی قریبی بندہ ایک دن کے لئے اسپتال پہنچ جائے تو پوری دنیا بیچ کر بھی یہ نعمتیں خریدی نہیں جاسکتی۔ ہم بندوں پر یہ نعمتِ خداوندی، کرمِ الہٰی اور رحمتوں کا نزول نہیں تو اور کیا ہے؟ جس کے باعث ہر پل ہمارے لبوں اور چہروں پر خوشیوں کی رمق تازہ ہوتی ہیں۔ وافر مقدار میں ہر طرح کی نعمتیں ہمیں میسر ہیں لیکن شکر کے جذبات ناپید ہیں۔

کبھی اپنی مصروف مشینی زندگی سے وقت نکال کر اولڈ ایج ہوم اور خصوصاً کسی سرکاری اسپتال کا دورہ کریں تو دل میں شکر کا وہ احساس تازہ ہوتا ہے کہ اللہ رب العزت نے ہمیں ہمارے اہل و عیال، والدین، دوست و احباب اور رشتے داروں کو صحت جیسی انمول نعمت دی ہے۔ لیکن ہر نعمتوں سے مالا مال ہونے کے باوجود ایک ادنیٰ سی مصیبت پر واویلہ مچانا ہمارا وطیرہ بن چکا ہے۔ تھوڑی تکلیف پر شکوہ کرتے ہیں۔ زبان سے کفریہ کلمات کہنے لگ جاتے ہیں۔ شکایتوں کا پٹارا کھول دیتے ہیں۔ آہ وزاریاں کرتے ہیں۔ لیکن پچھلی تمام خوشیوں، مسرتوں اور سکون و راحت کو بھول جاتے ہیں، جو شمار کے لحاظ سے کئی گنا زیادہ ہیں۔

الحمدللہ سے شروع ہونے والی کتاب پر ایمان لانے والا اس قدر ناشکرا اور نااُمید کیوں ہیں؟ جبکہ پہلی نعمت کا شکر آئندہ ملنے والی نعمت کا ذریعہ ہے۔ مشکلوں کے وقت بھی ناشکری نہ کرنا، اور صبر کا مظاہرہ کرنا اللہ سے ہمارے تعلق کو مضبوط اور اُسکی برستی رحمتوں اور نعمتوں کا حقدار بننے میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔ دراصل غمگین اور مصیبت زدہ لوگوں کو دیکھ کر دل کی اتھاہ گہرائیوں سے نکلنے والے شکر کے جذبات حقیقتاً ہر وقت اور ہر پل اللہ ربّ العزت کو مطلوب ہیں۔ قدم قدم پر تشکّر کا اظہار ضروری ہے۔یوں بھی خوشحالی کا واحد ضابطہ ہے کہ جو نعمتیں ملی ہیں اُسکی قدر کی جائے، اُسکا شکر ادا کیا جائے، اُسکی نافرمانی نہ کی جائے اور اگر وہ چھین جائے تو صبر کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑے۔ الحمدللہ علیٰ کلّ حال۔

تبصرے بند ہیں۔