کیا خودکشی ہی ہمارے مسائل کا حل ہے؟
سفیہ یوسف
(طالبہ جامعتہ البنات)
یہ زندگی اللہ تعالیٰ کا ایک ایسا عظیم ترین تحفہ ہے جس کا شکر ہم جتنی بار ادا کرے گے کم ہوگا۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو پیدا کیا پھر اس دنیا فانی میں لایا۔ ہر انسان کو بے شمار نعمتوں سے نوازا۔ اب کسی کو کم دولت دی تو کسی کو ذیادہ ، کسی کو ذیادہ خوبصورتی بجشی تو کسی کو اسے کم لیکن ہر چیز کو اسکی خوبیاں اور خامیاں بخشی۔ کسی میں ایک خوبی رکھی تو کسی میں دوسری۔ اب اس زندگی کی حفاظت کرنا اسکو صحیح طریقے سے گزارنا ہمارا فرض ہیں اور اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے زیادہ پیارا وہی ہے جو اس کے طریقے پر چلے اور اس کی آزمائشوں پر صبر سے کام لے۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں سے بہت محبت کرتے ہے اسی لیے انکو اتنی ہی آزمائشوں سے گزارتا ہیں۔ آزمائشوں کا سلسلہ آدم علیہ السلام اور حضرت حوّا علیہ السلام سے چلا آ رہا ہے۔ انکو جنت دی گئی تو وہ بھی انکے لئے ایک آزمائش تھی۔ جس طرح حضرت آدم علیہ السلام اور حضرت حوّا علیہ وسلم کو جنت کے ذریعے آزمایا گیا اسی طرح ہر ایک پیغمبر کو آزمائشوں سے گزرنا پڑا۔ اور انہی آزمائشوں پر صبر کرکے وہ اللہ تعالیٰ کے محبوب بندے بن گے۔ اسی طرح ہمارے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی کتنی آزمائشوں سے گزرنا پڑا، کتنے ہی تکالیف کا سامنا کرنا پڑا اس بات کا پتہ ہمیں سیرتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کا مطالعہ کرنے سے پتہ چلتا ہے۔
غرض ہر انسان کی زندگی میں آزمائشیں آتی رہتی ہیں کبھی مال کی صورت میں، کبھی صحت تو کبھی کچھ اور۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو آزماتے رہتے ہیں اسلیے نہیں کہ وہ کمزور ہوکر زندگی کو چھوڑ کر موت کو گلے لگاے بلکہ اس لیے تاکہ انکا ایمان اور زیادہ مضبوط ہو اور وہ اور زیادہ اللہ تعالیٰ کے محبوب بندے بن جاہیں۔ جو لوگ ان آزمائشوں میں صبر اور شکر کرتے ہیں وہی لوگ ہیں جو دونوں جہانوں میں کامیاب ہوتے ہیں اور جو لوگ بے صبری اور ناشکری کرتے ہیں وہی لوگ ہیں جو دونوں جہانوں میں ناکام رہتے ہیں۔
مشکلات، تکالیف، دکھ، درد یہ سب زندگی کا ایک حصہ ہے نہ کہ پوری زندگی۔ یہ سب چیزیں صرف وقتی ہیں ابدی نہیں۔ آج اگر مشکل ہے تو کل آسانی بھی ہوگی۔ جس طرح ہر رات کے بعد دن ہوتا ہے اسی طرح اللہ تعالیٰ مشکلات کے بعد آسانی بھی پیدا کرتے ہے۔ وہ اللہ تعالیٰ رحمٰن و رحیم ہے وہ اپنے بندوں سے ستر ماؤں سے زیادہ محبت کرتے ہے اور اللہ تعالیٰ ایک بندے کو سب کچھ اسکی وسعت کے مطابق دیتا ہے چاہے وہ خوشی ہو یا غم۔ ہر چیز کا ایک وقت ہوتا ہے اور وہ وقت کے ساتھ ساتھ بدلتی ہے۔ جس طرح آسمان میں ہمیشہ بادل نہیں رہتے اسی طرح زندگی میں بھی ہمیشہ مشکلات نہیں رہتی۔
جس طرح ہر سوال کا جواب ڈھونڈنے سے ملتا ہے اسی طرح ہمارے ذہنوں میں پیدا شدہ سوالات کا جواب بھی ہمیں تلاش کرنے چاہئیں۔ اگر ہمیں کسی سوال کا جواب نہ ملے اسکا مطلب یہ نہیں ہے کہ سوال کو ہی مٹا دیا جائے سوال کو مٹانا سوال کا حل نہیں بلکہ اس کا جواب تلاش کرنا ہی اسکا حل ہیں۔ اسی طرح زندگی میں آنے والی پریشانیوں کا حل تلاش کرنا چاہیے نا کہ خودکشی کر کے زندگی کو ہی ختم کرنا چاہیے خودکشی کرنا ہمارے مسائل کا ہرگز حل نہیں۔
اگر ہم دیکھیں گے تو آج کل کے دور میں ہر کوئی اپنے مستقبل کو لے کر فکر مند ہیں۔ خاص کر ہمارے نوجوان جو اپنے مستقبل کو لے کر اتنے فکر مند ہیں کہ اب وہ ذہنی مریض بن چکے ہیں۔ لیکن کیا ہم نے کبھی اس بات پر غور کیا ہے کہ مستقبل کس کے ہاتھ میں ہے، مستقبل کا مالک کون ہے تو جو چیز ہمارے بس میں نہیں اسکے بارے میں پریشان ہونے سے کیا ملے گا۔ ہمارے مستقبل میں جو کچھ بھی ہے نہ ہم اسکو وقت سے پہلے دیکھ سکتے ہیں اور نہ ہی اس کو بدلنے کی طاقت ہم میں ہے۔ اسکا مالک اللہ تعالیٰ ہے اور وہ بہترین فیصلہ کرنے والا ہے بس ایک انسان کو کوشش کرنی ہے اور اپنے ایمان کو مضبوط کرنا ہے۔ کتنے ہی لوگوں نے صرف مستقبل کے بارے میں پریشان ہو کر زندگی کو چھوڑ کر موت کو گلے لگا لیا تو کیا اسے انکا مستقبل سنور گیا نہیں بلکہ اس سے وہ ہمیشہ کے لیے اندھیرے میں چلے گئے۔ ہو سکتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے انکے مستقبل میں کچھ ایسا لکھا ہوتا جس سے انکی پوری زندگی سنور جاتی۔ اگر ہم یہ سوچھ کر محنت کرے کہ مستقبل اللہ تعالیٰ کے ہاتھوں میں ہے وہ جو کریں گے بہترین کریں گے تو ہم کبھی زندگی سے ناامید نہیں ہونگے۔
ہمیں یہ بات سمجھنی چاہیے کہ یہ زندگی اللہ تعالیٰ کی امانت ہے اور اس پر صرف اسی کا حق ہے۔ خودکشی کر کرنے والا شرک کرتا ہے اور مشرک کا ٹھکانہ جہنم ہے۔ اگر خودکشی کرنے والا ایک بار یہ بات ذہن میں لاے کہ اس دنیا کی اذیتوں سے کہی گناہ زیادہ اذیت ناک اس دنیا کا عذاب ہوگا اگر وہ ایک بار عذاب قبر کو یاد کرے گا، جہنم کے عذاب کو یاد کرے گا تو وہ کبھی مرنا نہیں چاہیے گا۔ آج کل کے سماج میں خودکشی ایک کھیل سا بن گیا ہے ہر کوئی مرنا چاہتا ہے لیکن موت کے بعد اسکے ساتھ کیا ہوگا اس بات سے ہر کوئی انجان بننے کی کوشش کر رہا ہے۔ جو انسان اس دنیا کی ذرہ سی تکلیف برداشت نہیں کر سکا وہ آخر قبر کی ہولناکیوں کو کیسے برداشت کر سکے گا، جہنم کی ان چنگاریوں کو کیسے برداشت کر پاے گا۔ وہاں تو موت کا سہارا بھی نہیں ہوگا نہ کوئی بچنے کا طریقہ ہوگا تو کیسے بچے گا وہاں۔
یہ بات بھی ہمیں یاد رکھنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں اشرف المخلوقات بنایا ہمیں دماغ دیا سوچنے سمجھنے کے لئے اور ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں سکھایا کہ ہمیں ایک دوسرے کی مدد کرنی چاہیے اگر ہمارا کوئی بھائی کسی پریشانی میں مبتلا ہے تو اس کی مدد کرنی چاہیے نا کہ اسکی پریشانی کی وجہ بنے۔ آج انسان ہی انسان کا سب سے بڑا دشمن بن گیا ہے اگر کسی انسان کی وجہ سے کوئی انسان اپنی زندگی ختم کرتاہے تو دوسرا بھی اسکے گناہ میں برابر کا حصہ دار ہے۔ ہمیں کوشش کرنی چاہئے کہ ہماری وجہ سے دوسروں کی زندگی سنور جائے ناکہ ہم انکی موت کی وجہ بن جائے۔ ہم آے دن دیکھتے ہیں کہ ہر روز دو چار خودکشیاں ہوتی رہتی ہے اور وہ خودکشی کرنے والے کوہی انپڑ جاہل لوگ نہیں بلکہ پڑھے لکھے لوگ کرتے ہیں آخر کیوں کس چیز کی کمی ہے ہمارے سماج میں؟ کمی ہے تو اخلاقی تعلیم کی، کمی ہے تو قرآن مجید اور سنتوں کو سمجھنے کی جن کو ہم نے پس پشت ڈال دیا ہیں۔ والدین کو چاہیے کہ اپنے بچوں کی اخلاقی تربیت میں کوئی کمی نہ رکھے تاکہ انکا ایمان اللہ تعالیٰ پر مضبوط ہو اور انکو خودکشی جیسے سنگین گناہ کا سہارا نہ لینا پڑے۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کی مشکلیں آسان فرمائے اور ہمارے ایمان کو بلندی بخشے اور ایمان والی عزت والی موت دیں۔ آمین
تبصرے بند ہیں۔