کیا لڑکی ہونا گناہ ہے؟

ریاض فردوسی

اور اپنی اولاد کو مُفلسی کے ڈر سے قتل نہ کرو ہم انہیں بھی رزق دیتے ہیں اور تمہیں بھی، یقیناً اُن  کا قتل ہمیشہ سے بہت بڑا گناہ ہے(سورہ بنی اسرائیل۔ آیت۔ 31)بخاری و مسلم میں ہے کہ حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) نے پوچھا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کے نزدیک سب سے بڑا گناہ کیا ہے؟ آپ نے فرمایا یہ تو کسی کو اللہ کا شریک ٹھیرائے حالانکہ اسی اکیلے نے تجھے پیدا کیا ہے۔ میں نے پوچھا اس کے بعد ؟ فرمایا یہ کہ تو اپنی اولاد کو اس خوف سے مار ڈالے کہ وہ تیرے ساتھ کھائیں گے۔ میں نے کہا اس کے بعد ؟ فرمایا یہ کہ تو اپنی پڑوسن سے زنا کاری کرے۔

مفلسی کے ڈر سے اولاد کو قتل کرنا دراصل اللہ تعالیٰ کی صفت رزاقیت پر عدم توکل یا براہ راست حملہ کی دلیل ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کا جواب یہ دیا کہ تمہیں بھی تو ہم رزق دے ہی رہے ہیں اور جیسے تمہیں دے رہے ہیں ویسے تمہاری اولاد کو بھی ضرور دیں گے اور اگر تمہیں مفلسی کا اتنا ہی ڈر ہے تو پہلے تمہیں خود مرجانا چاہیے۔ اولاد کو کیوں مارتے ہو ؟ تاکہ تمہاری یہ فکر ہی ختم ہوجائے اور آخر میں یہ فرما دیا کہ تمہارا یہ کام بہت بڑا گناہ کا کام ہے۔ – عرب میں تو قتل اولاد کا سلسلہ انفرادی طور پر ہوتا تھا مگر آج کل ایسے ہی کام اجتماعی طور پر اور حکومتوں کی طرف سے ہو رہے ہیں اور حکومت کے ان محکموں کے لیے بڑے اچھے اچھے نام تجویز کیے جاتے ہیں جیسے محکمہ خاندانی منصوبہ بندی یا محکمہ بہبود آبادی۔ اور اس کام کا جذبہ محرکہ وہی مفلسی کا ڈر ہے۔

دولت مند لڑکیوں کو مار ڈالتے تھے کہ کوئی ہمارا داماد نہ بنے اور ہم ذلت و عار نہ اٹھائیں  جبکہ، غریب و مُفلس اپنی غربت کی وجہ سے کہ انہیں کہاں سے کھلائیں گے(خازن، الاسراء، تحت الآیۃ:31، 3 / 173، نور العرفان، بنی اسرائیل، تحت الآیۃ:32، ص۔ 454)

دونوں  گروہوں کا فعل ہی حرام تھا اور قرآن و حدیث میں  دونوں  کی مذمت بیان کی گئی ہے البتہ یہاں  بطورِ خاص غریبوں  کو اس حرکت سے منع کیا گیا ہے۔ ایک بات یہ بھی ہے کہ دور جاہلیت میں مشرکینِ عرب بعض اوقات لڑکیوں کو اس لئے زِندہ دفن کردیتے تھے کہ اپنے گھر میں لڑکی کے وجود ہی کو وہ باعث شرم سمجھتے تھے۔ اس کے علاوہ بعض مرتبہ اولاد کو اس لئے قتل کردیتے تھے کہ اُن کو کھلانے سے مفلس ہوجانے کا احتمال تھا۔ اللہ تعالی صاف صاف لفظوں میں بندوں کو آگاہ کرتا ہےکہ اپنی اولاد کو افلاس کے اندیشے سے قتل نہ کرو ہم انہیں بھی رزق دیں گے اور تمہیں بھی در حقیقت اُن کا قتل ایک بڑی خطا ہے۔

سورۃ الا نعام، آیت 151کے درمیان میں اس طرح سے ہے کہ(اور اپنی اولاد کو مفلسی کے ڈر سے قتل نہ کرو، ہم تمہیں بھی رزق دیتے ہیں اور ان کو بھی دیں گے)

عرب کے مشرکین کے درمیان کچھ بے بنیاد رسم رائج تھے۔ مشرکوں نے کسی معقول اور علمی بنیاد کے بغیر مختلف کاموں کو من گھڑت اسباب کی بنیاد پر حلال یا حرام قرار دے رکھا تھا۔ مثلا خود اپنی اولاد کو انتہائی سنگ دلی سے قتل کردیتے تھے۔ اگر لڑکی پیدا ہوئی تو اسے اپنے لئے بڑی شرم کی بات سمجھ کر اسے زندہ زمین میں دفن کردیتے تھے، بعض لوگ اس وجہ سے بھی لڑکیوں کو دفن کردیتے تھے کہ ان کا عقیدہ یہ تھا کہ فرشتے اللہ کی بیٹیاں ہیں اس لئے انسانوں کے لئے مناسب نہیں ہے کہ وہ لڑکیاں رکھیں۔ لڑکوں کو بعض اس وجہ سے قتل کر ڈالتے تھے کہ ان کو کہاں سے کھلائیں گے۔ اور کچھ لوگ ایسے بھی تھے جو یہ نذر مان لیتے تھے کہ ہمارا جو دسواں لڑکا ہوگا اسے اللہ یا بتوں کے نام پر ذبح کردیں گے۔

حدیث میں آتا ہے کہ نبی ﷺ نے شرک کے بعد جس گناہ کو سب سے بڑا قرار دیا وہ یہی ہے کہ ان تقتل ولدک خشیۃ ان یطعم معک۔ (صحیح بخاری) ‘ کہ تو اپنی اولاد اس ڈر سے قتل کردے کہ وہ تیرے ساتھ کھائے گی ‘ آجکل قتل اولاد کا گناہ عظیم طریقے سے خاندانی ترقی کے حسین اور مکروہ عنوان سے پوری دنیا میں ہو رہا ہے اور مرد حضرات ‘ بہتر تعلیم و تربیت ‘ کے نام پر اور خواتین اپنے ‘ حسن ‘ کو برقرار رکھنے کے لئے اس جرم کا عام ارتکاب کر رہی ہیں۔

حضرت عبداللّٰہ بن عباس رضی اللہ سے روایت ہے، نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا ’’جس کی لڑکی ہو اور وہ اسے زندہ درگور نہ کرے اور اس کی توہین نہ کرے اور اپنے بیٹوں  کو اس پر ترجیح نہ دے تو اللّٰہ تعالیٰ اسے جنت میں  داخل فرمائے گا(ابوداؤد، کتاب الادب، باب فی فضل من  عال، یتیماً، 435/4، الحدیث:5146)

آخر میں !

میں بلیا سے پٹنہ کی طرف آرہا تھا، راستے میں ایک ہندو شادی شدہ عورت سے ملاقات ہوئ۔ وہ اپنے شوہر اور دو لڑکوں کے ساتھ تھی۔ میں نے اس عورت کی ٹرین پر سوار ہونے کے لۓ ذرا سی مدد کر دی۔ چند منٹ بعد ہی وہ میری منھ بولی بہن ہو گئ۔ باتوں باتوں میں میں نے اس سے کہا بہن آپ کو لڑکی نہیں ہے کیا؟وہ ہندو عورت اتنا سنتے ہی غمزدہ ہوگئ۔ میں اپنے سوال کے لۓ اس سے معافی مانگا۔ اس نے کہا نہیں بھیا ایسی بات نہیں ہے، آپ معافی نہ مانگے۔ ٹرین جب پٹنہ پہچنے والی تھی تو میری منھ بولی بہن نے مجھ سے کہا کہ بھیا مجھے بھگوان کی کرپا سے 3 لڑکی ہوتی، لیکن جب جب میں پیٹ سے ہو، میرے شوہر رشوت دے کر جانچ کرا کر میری بچیوں کو پیٹ کے اندر ہی ختم کروا دیتے تھے، اور میرے بیٹوں کو رہنے دیا۔ اتنا کہتے ہی وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی اور اس کے دونوں بیٹے بھی رونے لگے۔ میں بھاری من سے اترنے کی تیاری کرنے لگا اور اس کا شوہر بھی بیت الخلاء سے آگیا تھا۔

اور جب زندہ دفن کی جانے والی لڑکی سے سوال کیا جائے گا، کہ کس گناہ کے بدلے میں وہ قتل کی گئی؟(سورہ التکویر۔ آیت۔ 8۔ 9)

مؤنث لانے سے ظاہر یہی ہے کہ زندہ درگور لڑکی ہی ہوتی تھی، لیکن اگر اسے ” نفس موء ودہ “ کہا جائے تو پھر لڑکا لڑکی دونوں مراد ہوسکتے ہیں، کیونکہ ” نفس “ کا لفظ زبان عرب میں مؤنث ہے، سو معنی ہوگا : ” اور جب زندہ درگور کی ہوئی جان سے سوال کیا جائے گا۔ “ اور اگرچہ عام طور پر بیان کیا جاتا ہے کہ وہ لڑکی کو غیرت کی وجہ سے قتل کرتے تھے، مگر اللہ تعالی نے مطلق اولاد لڑکے لڑکی دونوں کا ذکر فرمایا ہے اور قتل کا سبب موجودہ فقر یا آئندہ فقر کا خوف بیان فرمایا ہے، ہاں یہ درست ہے کہ اولاد کو قتل کا باعث فقر کے علاوہ بےجا غیرت بھی تھا۔ جاہلیت کے زمانے میں ایک انتہائی وحشیانہ رسم یہ تھی کہ لوگ عورتوں کو منحوس سمجھتے تھے، اور بعض قبیلے ایسے تھے کہ اگر اُن میں سے کسی کے یہاں بچی پیدا ہوجاتی تو وہ شرم کے مارے اُس بچی کو زندہ زمین میں دفن کردیتا تھا۔

ان کی شادی نہ کرنی پڑے؟ان کی دیکھ بھال کیسے ہو؟زمانہ بہت خراب ہے۔

ہمارا معاشرہ بھی اس کا بہت حد تک ذمے دار ہے۔ مردہ ہو چکے اس سماج کے چند بھوکے اور ہوس کے گندے نالی کے کیڑے لڑکیوں کو کتنی خراب اور ذلیل نظروں سے دیکھتے ہیں جیسے وہ کسی عورت سے پیدا ہی نہیں ہوۓ ہو۔ اپنی نگاہوں سے عورتوں کے جسم کا پردہ چاک کرتے ہیں۔ ناپاک اور غلیظ نگاہوں سے زنا کرتے ہیں۔ عوتوں کا باہر نکلنا بھاری کردیتے ہیں۔ راستے میں چھیڑ چھاڑ کرتے ہیں۔ ناجانے کتنی بہنوں کی عصمتوں سے روز کھیلا جاتاہے۔ ان کی مجبوریوں کافائدہ اٹھایاجاتاہے۔

قیامت میں ان تمام عورتوں کو لاکر پوچھا جائے گا، جو کسی نہ کسی طریقے سے ماری گئ ہیں اور ماری جارہی ہیں، ظلم کا شکار ہوئ ہیں، اور ہو رہی ہیں۔

اللہ قھار و جبار تخت عدل پر جلوہ افروز ہوگا، جلال بھری آواز گونجے گی! تم سب کو کس جرم میں موت کے گھاٹ اُتارا گیا تھا؟کیوں تمہاری عزتوں کو لوٹا گیا تھا؟ تمہاری کیسی کیسی مجبوریاں تھی اور اس کا فائدہ یہ انسانی درندے کس کس طرح سے اٹھاتے تھے؟

آج تم کہو، سننے والا میں ہوں، اے لڑکیوں اپنا غم بیان کرو، تمہارے ایک ایک ظلم کا حساب لوں گا۔ آنسوؤں کے ہر قطرے کا حساب کروں گا۔ ہر آہ ہر سسکیوں کابدلہ ملےگا۔ ہر بے بسی ہر بےچینی پر گرفت ہوگی۔

 اس سوال سے ظالموں کو سزا دینا مقصود ہوگا جنہوں نے لڑکیوں کے ساتھ کسی نہ کسی طرح درندگی کا معاملہ کیاہو۔

تبصرے بند ہیں۔