کیا کیا ستم غریب پہ ڈھاتی ہیں روٹیاں
مقصود عالم رفعت
کیا کیا ستم غریب پہ ڈھاتی ہیں روٹیاں
فاقوں میں خون آنسو رلاتی ہیں روٹیاں
…
بھٹّی میں رنج و غم کی جلاتی ہیں روٹیاں
مفلس کے ہاتھ تب کہیں آتی ہیں روٹیاں
…
گھر بار تک چھڑاتی ہیں فکرِ معاش میں
در در کی ٹھوکریں بھی کھلاتی ہیں روٹیاں
…
تن سے لباسِ شرم و حیا کو اتار کر
غیروں کے آگے ناچ نچاتی ہیں روٹیاں
…
کھاتا ہے روٹیوں کو بظاہر ہر آدمی
سچ یہ ہے آدمی ہی کو کھاتی ہیں روٹیاں
…
پانی سے اور تیز بھڑک جاتی بھوک ہے
یہ آگ ہے کہ جس کو بجھاتی ہیں روٹیاں
…
بارش ہو چاہے آندھی ہو یا چلچلاتی دھوپ
رفعت چلو کہ تم کو بلاتی ہیں روٹیاں
تبصرے بند ہیں۔