ہندوستان فاشزم کی راہ پر
مدثر احمد
حالیہ انتخانی نتائج کے بعد ملک بھر میں ایک طرح سے افراتفری کا ماحول دیکھا جارہاہے، مسلمان الیکشن سے پہلے بھی پریشان تھے الیکشن کے نتائج کے بعد بھی پریشان دکھائی دے رہے ہیں، حالانکہ عام مسلمان پریشان نہیں ہیں لیکن انہیں پریشان کیا جارہاہے۔ حالانکہ انتخابی نتائج صرف مسلمانوں کے لئے پریشان کن نہیں ہیں بلکہ اس ملک کے تمام امن پسند لوگوں کے لئے پریشانی کا باعث بنے ہوئے ہیں۔ انتخابات میں سیکولر پارٹیوں کی شکست کے بعد عام لوگوں کے علاوہ سوشیل میڈیامیں جس طرح سے تشویش ظاہر کی جارہی ہے اور الیکشن کے طریقہ کار اور ای وی یم مشینوں پرسوالات اٹھارہے ہیں وہ بھی قابل غور بات ہے۔ جہاں تک ہماری سوچ ہے وہ صرف الیکشن کمیشن کی تائید اور ای وی یم مشین ہی ان انتخابات میں سیکولر پارٹیوں کی شکست کے اسباب نہیں ہیں بلکہ اس ملک میں جو راشٹر واد کے نام پر ہندوتوا کا کارڈ کھیلا جارہاہے وہ بھی سب سے اہم سبب ہے۔ مجلس اتحاد المسلمین کے سربراہ بیرسٹر اسدالدین اویسی نے انتخابات کے فوری بعد کہا تھا کہ اس دفعہ ای وی یم سے چھیڑ چھاڑ نہیں ہوئی ہے بلکہ ہندئووں کے دماغوں کے ساتھ چھیڑ چھاڑ ہوئی ہے اسی کا نتیجہ ہے کہ بی جے پی سب سے زیادہ سیٹیں لینے میں کامیاب ہوئی ہے۔ تاریخ میں ایسا پہلی بار نہیں ہواہے کہ کوئی سیاسی جماعت اقتدار پر سنگل لارجسٹ پارٹی بن کر ابھر ی ہو۔ ہندوستان کے علاوہ اور بھی کئی ممالک ہمارے سامنے مثال کے طورپر ہیں۔ دوسری جنگ عظیم کے خاتمے سے قبل اٹلی میں مسولیینی نے جو فاشزم یعنی فسطائیت کے نظام کو فروغ دیا تھا وہی حالات اب ہندوستان میں پیدا ہوئے ہیں۔ ہندوستان میں پہلے پنڈت جواہر لال نہرو اور اندراگاندھی کے دور میں بھی کانگریس سنگل لارجسٹ پارٹی کے طور پر ابھری تھی لیکن انکے ہی کرتوتوں کی وجہ سے کانگریس اب اقتدار سے دور ہوتی جارہی ہے۔ فی الوقت ملک میں بی جے پی جوطریقہ کار اپنا رہی ہے وہ پوری طرح سے اٹلی کے مسولینی کی تحریک سے مشابہت رکھتی ہے۔ ہندوستان فاشزم کی جانب گامزن ہوراہے، ملک میں جمہوریت ہوتے ہوئے بھی فاشزم کا بول بالاہورہاہے۔ فاشزم کے نظام میں ایک سیاسی پارٹی اقتدار میں رہتی ہے اور اسکا سربراہ نہ صرف پارٹی کو چلاتاہے بلکہ پورے ملک پر حکومت کرتا ہے اور اسکے سامنے کسی بھی اپوزیشن پارٹی کی اہمیت نہیں ہوتی اور نہ ہی وہ اپوزیشن کی بات سنتاہے۔
اٹلی میں جو فاشزم کا نظام شروع ہوا تھا اس وقت مسولینی اٹلی میں مخلوط حکومت میں وزیر اعظم تھا، اسکے بعد وہ اٹلی کا ڈکٹیٹر بن گیا۔ اسکے دور حکومت دوسر ی جنگ عظیم کے حالات کا فائد ہ اٹھا یا اور قومیت یعنی راشٹر واد کو اتنا بڑھا چڑھا کر پیش کیا کہ عوام اسکے ساتھ ہوگئی۔ جیسے ہی وہ عوام کے دلوں کو جیتنے لگا اس نے اٹلی میں مخلوط حکومت کو گراکر اپنے آپ کو ملک کا ڈکٹیٹر بنادیا۔ اس نے حکومت گرانے کے فوراََ بعد اعلان کردیا تھا کہ اٹلی میں اب انتخابات نہیں ہونگے بلکہ ہماری پارٹی ہی حکومت کریگی۔ عوام نے اس فیصلے کو تسلیم کرلیا اور قومیت یعنی راشٹرواد کے نام پر مسولینی کو اپنا حکمران بنالیا تھا۔ فاشز م کے نظام میں پہلے تو کارپوریٹ سیکٹر کو ابھارا جاتاہے اور انہیں ہر طرح کی چھوٹ دے دی جاتی ہے تاکہ وہ مضبوط ہوجائیں، اسکے بعد مزدور طبقے کو کچلا جاتاہے، مزدوروں کو کمزورکرنے سے فاشزم پر یقین رکھنے والوں کو اس بات کاخوف ختم ہوجاتاہے کہ مزدور انکے خلاف آواز نہیں اٹھائینگے۔ مسولینی نے ایک طرف کارپوریٹ سیکٹر کی مدد کی تو دوسری جانب تعلیمی شعبے اور میڈیا کو بھی اپنی تائید میں لے لیا تھا۔ بالکل اسی طرح سے ہندوستان میں بی جے پی ہندوتو ا کے نام پر فاشزم ملک میں اپنی حکومت قائم کررہی ہے۔ یہاں فرق صرف اتنا ہے کہ مسولینی کی جگہ پر نریندر مودی کو کھڑا کیا گیا ہے۔ باقی جو حالات ہم نے اوپر بیان کئے ہیں وہ بالکل اٹلی کے حالات جیسے ہی ہیں۔ اٹلی میں مسولینی نے قریباََ 20 سالوں تک اپنی گرفت برقرار رکھی، حالانکہ وہ وزیر اعظم کے طور پر کم وقت ہی اقتدار پر رہا لیکن دوسری وزارتوں میں اس نے کافی وقت گزارا تھا۔ آج ہندوستان میں حالات جو ہم دیکھ رہے ہیں وہ ملک کو فاشزم کی جانب جاتے ہوئے ہیں۔
ملک میں ہندوتوا کے نام پر جو سیاست چل رہی ہے اس کا شکار اس ملک کے عوام ہورہے ہیں۔ حالانکہ یہاں امن پسند عوام کی بھی کوئی کمی نہیں ہے لیکن جذبات میں آکر فیصلے لینے والوں کی تعداد زیادہ ہے۔ بی جے پی نے اقتدار میں آنے سے قبل جو مدعے عوام کے سامنے رکھے ان مدعوں کو لے کر ہندوئوں کا بڑا طبقہ انکا مداح ہوگیا یہاں تک دوسری سیکولر پارٹیوں کے اعلیٰ لیڈران اور کارکنان بھی راشٹرواد کے نشے میں مست ہوگئے ہیں۔ ہندوستان کی جملہ آبادی 125 کروڑ ہے ان میں سے 90 کروڑ لوگوں کے ووٹ ہیں، اگر ان 90 کروڑ ووٹروں میں مسلمانوں کے 12 کروڑ ووٹ ہیں جس میں سے 8 کروڑ مسلمانوںنے ووٹ دیا ہے۔ جبکہ 78 کروڑ دوسر ی قوموں کے ووٹ ہیں اور ان میں سے 60 کروڑ لوگوں نے ووٹ دئے ہیں تو جملہ 68 کروڑ ہندوستانیوںنے ووٹ دئے ہونگے۔ اسی 60 کروڑ ہندوستانیوںمیں سے 20 کروڑ ہندوستانیوںنے سیکولرزم کے نام ووٹ کئے ہیں تو مسلمانوں کے 8 کروڑ ووٹ ملا کر 28 کروڑ ووٹ سیکولر پارٹیوں کے کھاتے میں گئے جبکہ 40 کروڑ ہندوستانی فاشزم کا شکار ہوئے ہیں۔ اس طرح سے ہندوستان میں فاشزم کی جڑیں روز بروز مضبوط ہوتی جارہی ہیں جس سے نمٹنے میں سیکولر سیاسی جماعتیں ناکام ہوئی ہیں۔ دیکھا جائے تو آزاد ی کے بعد اس ملک کو سیکولر زم کی بنیادوں پر قائم رکھنے کے لئے کانگریس کے پاس بہت بڑا وقت تھا لیکن اس پارٹی نے ملک کی سالمیت، جمہوریت اور ترقی سے بڑھ کر کنبہ پروری، استحصال اور وعدہ خلافیوں کا دور چلایا ہے جس کا خمیازہ آج پورے ملک کو اٹھانا پڑ رہاہے۔
ایک طرف ہم فاشزم کی راہ پر گامز ن ہیں تو دوسری جانب سیکولر جماعتیں ملک کے سیاسی حالات کو قابو میں لانے میں ناکام رہے ہیں۔ سابقہ انتخابی تشہیرکے مدعوں کو دیکھیں کہ کس طرح سے بی جے پی کی اپوزیشن جماعتیں ملک کے اہم مسائل کو پیش کرنے میں ناکام رہے۔ کانگریس سمیت دیگر سیکولر سیاسی جماعتیں عوامی مدعوں کو پیش کرنے کے بجائے اپنے ذاتی تبصروں پر جواب دینے میں وقت گزاررہے تھے۔ ایک گھنٹے کی تقریر میں 40 منٹ تو اپنے ذاتی الزامات کے دفاع پر بات کررہے تھے باقی دس منٹ امیدواروں کی واہ واہی کرتے ہوئے انہوںنے وقت گزارا۔ پہلے ایک وقت تھا جس میں ملک کی آزادی کے لئے قیادت کرنے والی سیاسی پارٹی کانگریس، گاندھی۔ نہر و کے برانڈ اور کچھ پیسوں کی بنیاد پر کانگریس کو لوگ ووٹ دیتے تھے۔ کئی عشروں تک کانگریس اقتدار پر رہنے کی وجہ سے کانگریس کے لئے جیت کی راہیں آسان تھیں۔ عوام کے پاس کانگریس کے علاوہ اور کوئی متبادل سیاسی پارٹی نہیں تھی، اسکے بعد کانگریس کو گاندھی، نہرو اور اندرا ایک مستقل برانڈ بن چکے تھے۔ حالانکہ بھیم رائو امبیڈ کر کبھی بھی کانگریس کے برانڈ نہیں ہوئے تھے وہ الگ بات تھی۔ کانگریس کے پاس دھن دو لت تھی، اقتدار ہاتھ میں تھا، طاقت تھی، ذات مذہب کے نام پر بٹوارہ کرتے ہوئے کانگریس نے ملک میں حکومتیں چلائیں تھی جس کی وجہ سے کانگریس کو کبھی بھی اس با ت کااحساس نہیں ہواکہ کانگریس کے لئے زمینی سطح پر کام کرنے والے کارکنوں کی ضرورت ہے۔ اندرا گاندھی کے دور میں بھی آج کی طرح ہی اندرا یعنی انڈیا کا نعرہ چل رہا تھا، آگے چل کر یہی اندراگاندھی اُس دور کی ڈکٹیٹر کہلاتی تھیں۔ اب یہی دور نریندر مودی کی شکل میں لوٹ آیا ہے۔ ایک اندرا گاندھی کے دور میں فاشزم کا سکہ چل رہا تھا اب مودی کے دور میں فاشزم کا دور چل رہاہے۔ حالانکہ دنیا میں جتنے بھی ڈکٹیٹر وں نے ممالک پر حکومتیں کی ہیں انکا زوال خطرناک ہی رہا ہے، انکا خاتمہ ناقابل بیان صورتوں میں ہوا ہے۔ اڈالف ہٹلر،بینیٹو مسولینی، صدام حسین، حسنی مبارک، کرنل قدافی جیسے حکمرانوں کا خاتمہ جس طرز پر ہواہے اسی طرح کا خاتمہ ہندوستان میں بھی ہوسکتاہے لیکن اسکے لئے کچھ دن انتظار کرنا پڑیگا۔ جس دن عوام چوراہوں اور سڑکوں پر جمع ہوکر آواز بلند کریگی اسی دن سے ہندوستان میں فاشزم کا چراغ بجھ سکتاہے البتہ اس انقلاب کے لئے کچھ دن انتظار کرنا پڑیگا۔
"باکس : ہندوستان کی جملہ آبادی 125 کروڑ ہے ان میں سے 90 کروڑ لوگوں کے ووٹ ہیں، اگر ان 90 کروڑ ووٹروں میں مسلمانوں کے 12 کروڑ ووٹ ہیں جس میں سے 8 کروڑ مسلمانوںنے ووٹ دیا ہے۔ جبکہ 78 کروڑ دوسر ی قوموں کے ووٹ ہیں اور ان میں سے 60 کروڑ لوگوں نے ووٹ دئے ہیں تو جملہ 68 کروڑ ہندوستانیوںنے ووٹ دئے ہونگے۔ اسی 60 کروڑ ہندوستانیوںمیں سے 20 کروڑ ہندوستانیوںنے سیکولرزم کے نام ووٹ کئے ہیں تو مسلمانوں کے 8 کروڑ ووٹ ملا کر 28 کروڑ ووٹ سیکولر پارٹیوں کے کھاتے میں گئے جبکہ 40 کروڑ ہندوستانی فاشزم کا شکار ہوئے ہیں۔ اس طرح سے ہندوستان میں فاشزم کی جڑیں روز بروز مضبوط ہوتی جارہی ہیں جس سے نمٹنے میں سیکولر سیاسی جماعتیں ناکام ہوئی ہیں "
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
تبصرے بند ہیں۔