الوداع ماہِ رمضان!

محمد ریاض علیمی

مہینوں کا سردار ماہِ رمضان المبارک سایہ فگن ہونے کے بعد اب ہم سے رخصت ہونے کو آیاہے ۔ یہ مبارک مہینہ چند دنوں بعد ہم سے روپوش ہوجائے گا۔ ، سحری کے پر نور لمحات اور افطاری کی بابر کت ساعات اب ہمیں الوداع کہہ رہی ہیں۔ تراویح جیسی عظیم عبادت ہم سے جدا ہونے کو ہے۔ ایسا مبارک مہینہ ہم سے پردہ میں چھپنے والا ہے جس میں روزانہ کئی گناہگاروں کو بخش دیا جاتا تھا۔ جن مسلمانوں نے اس کی عظیم المرتبت قدر کو پہچانا، وہ اپنے دامن میں کثیر رحمتیں اور برکتیں سمیٹنے میں کامیا ب ہوگئے اور اپنے لیے بخشش کا پروانہ لکھوا لیا۔ انہوں نے اپنی روح کو آلودگی سے پاک کرلیا۔ لیکن جو اس کی قدر و منزلت کو نہیں پہچان سکے اور اس مہینے کو عام مہینوں کی طرح گزارا وہ خیر کثیر سے محروم رہے۔ حالانکہ رمضان المبارک کا مہینہ ہمارے دلوں کوکدورتوں سے پاک کرنے آیا تھا، نفسانی خواہشات کی نجاست سے پاک کرنے آیا تھا۔ ہماری آلودہ روح کو شفاف کرنے آیا تھا۔ یہ مبارک مہینہ ہمارے گناہوں کو نیکیوں میں بدلنے آیا تھا۔ یہ مہینہ ہمیں عبادت کی لذت دینے آیا تھا، ایمان کی حلاوت سے سرفراز کرنے آیا تھا، جسمانی نظام درست کرنے آیاتھا، ہمارے ذہنی انتشار کو یکسوئی دینے آیا تھا۔ ہمارے خیالات کی پراگندگی کو صاف کرنے آیاتھا، تقویٰ کے نور سے منور کرنے آیا تھا۔ پرہیز گاری کی دولت سے مالا مال کرنے آیا تھا، روحانی انقلاب برپا کرنے آیا تھا، مجاہدانہ زندگی کا خوگر بنانے آیا تھا۔ لیکن ہماری لاپروائی نے ہمیں اس بابرکت مہینے کے فضائل و برکات سے محروم رکھا۔ ہم اس مہینہ کے حقوق نہیں ادا کرسکے۔زمانۂ رسالت صلی اللہ علیہ وسلم میں جوں جوں ماہِ رمضان کے ایام گزرتے جاتے ، صحابہ کرام کاعبادات میں ذوق و شوق بڑھتا جاتا۔ جیسے ہی ماہِ رمضان کی آخری راتیںآتیں تو صحابہ کرام رب کی بارگاہ میں آنسو بہا بہا کر گڑ گڑا تے ہوئے ان مبارک راتوں کو گزارتے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم بھی یہی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل مبارک بھی یہی تھا ۔ چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ جب ماہِ رمضان کا آخری عشرہ آتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عبادت میں اضافہ ہوجاتا۔ آپ خود بھی ان راتوں میں جاگتے اور اہل و عیال کو بھی جگاتے۔ لیکن بد قسمتی سے ہمارا معاشرہ رمضان المبارک کے آخری ایام رجوع الی اللہ میں مصروف رہنے کے بجائے شاہراہوں اور بازاروں میں گزاردیتا ہے۔ لوگ نوافل تو کجا فرائض کی پابندی بھی نہیں کرتے۔ گویا ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ماہِ رمضان المبارک عبادت کا مہینہ نہیں بلکہ شاپنگ اور خرید و فروخت کامہینہ ہے۔ ہمارے معاشرے نے رمضان المبارک کے پُرنور لمحات کو خوشی و مسرت اور عید و تہوار کا سیزن بنا دیا ہے۔ درحقیقت یہ وہ مہینہ ہے جس کی آخری ساعتوں میں آسمانوں کے فرشتے رونے لگ جاتے ہیں۔ چنانچہ حضرت جابر رضی اللہ عنہ کی روایت کا مفہوم ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب رمضان المبارک کی آخری رات ہوتی ہے تو آسمانوں کے فرشتے روتے ہیں یہاں تک کہ زمین و آسمان بھی اس مہینہ کے فراق میں آنسو بہاتے ہیں۔یہ سن کر اصحابِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے عرض کی : ہمارے ماں باپ آپ پر قربان ہوں ‘ آسمانوں کے فرشتے کیوں روتے ہیں اور زمین و آسمان کیوں آنسو بہاتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:  ان کا رونا ایسے ماہ کی رخصت کی وجہ سے ہوتا ہے جس میں ہر ایک کی دعا قبول ہوتی ہے۔ ان کا آنسو بہانا ایسے بر کت والے مہینے کے چلے جانے کی وجہ سے ہوتا ہے جس میں ایک نیکی کا ثواب دس نیکیوں کے برابر نہیں بلکہ لاکھوں نیکیوں کے برابر لکھا جاتا ہے۔ ان کی رقت ایسے نجات والے مہینے کی وجہ سے ہوتی ہے جس میں مسلمانوں کو جہنم سے نجات دی جاتی ہے۔ان کی گریہ و زاری ایسے رحمت والے مہینہ کے جدا ہونے پر ہوتی ہے جس میں  ہر روز شام کے وقت اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو نظر رحمت سے دیکھتا ہے۔ ان کی آہ و فغاں ایسے کرم والے مہینے کے اختتام کی وجہ سے ہوتی جس میںعصر کے بعد سے روزہ کھولنے تک کراماً کاتبین کو یہ حکم تھا کہ روزہ داروں کی نیکیاں ہی نیکیاں لکھو گناہ نہ لکھو۔ (او کما قال علیہ السلام)

حضرت سیدنا شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:رمضان کا مہینہ قلبی صفائی کا مہینہ ہے، ذاکرین، صادقین اور صابرین کا مہینہ ہے۔ اگر یہ مہینہ تمہارے دل کی اصلاح کرنے اور تمہیں اللہ تعالیٰ کی نافرمانی سے نکالنے اور جرائم پیشہ لوگوں سے علیحدہ ہونے میں مؤثر نہیں ہوا تو کون سی چیز تمہارے دل پر اثر انداز ہوگی ، سو تم سے کس نیکی کی امید کی جاسکتی ہے۔ تمہارے اندر کیا باقی رہ گیا ہے۔ تمہارے لیے کس نجات کا انتظار کیا جاسکتا ہے۔ ۔۔۔۔نیند اور غفلت سے بیدار ہوکر باقی مہینہ تو بہ اور اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کے ساتھ گزارو اس میں استغفار اور عبادت کے ساتھ نفع حاصل کرنا ممکن نہیں ہے تو ان لوگوں میں سے ہوجاؤ جن کو اللہ تعالیٰ کی رحمت اور مہربانی حاصل ہوتی ہے۔ آنسوؤں کے دریا بہاکر اپنے منحوس نفس پر اونچی آواز سے اور آہ وزاری کرتے ہوئے اس مہینے کو الوداع کہو کیونکہ کتنے ہی روزے دار ایسے ہیں جو آئندہ سال روزے نہیں رکھ سکیں گے۔ اور کتنے ہی عبادت گزار ایسے ہیں جو آئندہ عبادت نہیں کرسکیں گے۔ اور مزدور جب کام سے فارغ ہوتا ہے تو اس کو مزدوری دی جاتی ہے اب ہم بھی اس عمل سے فارغ ہوچکے ہیں۔ مگر کاش کہ ہم بھی جان سکتے کہ ہمارے روزے اور قیام مقبول ہوئے ہیں یا نہیں ، کاش ہم جان سکتے کہ ہم میں سے کون مقبول ہے ۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ بہت سے روزہ داروں کو بھوک اور پیاس کے علاوہ کچھ حاصل نہیں ہوتا اور راتوں کو قیام کرنے میں ان کو صرف بے خوابی ہی حاصل ہوتی ہے۔ اے رمضان کے مہینے تجھ پر سلام۔ اے بخشش کے مہینے تجھ پر سلام۔ اے ایمان کے مہینے تجھ پر سلام۔ (اے ماہِ رمضان)تو گنہگاروں کے لیے قید اور پرہیز گاروں کے لیے انس کا مہینہ تھا۔ اے اللہ ہمیں ان لوگوں میں کردے جن کے روزوں اور نمازوں کو تونے قبول کیا ، ان کی برائیوں کو نیکیوں میں بدلا، انہیں اپنی رحمت کے ساتھ جنت میں داخل فرمایا اور ان کے درجات بلند کیے۔ آمین۔ (غنیۃ الطالبین۔۔۔ملخصا)

حدیث مبارکہ میں اس شخص کے لیے وعید ہے جو رمضان کا مہینہ پانے کے باجود اپنی بخشش اور مغفرت نہ کرواسکے ۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دفعہ منبر شریف پر چڑھتے ہوئے ارشاد فرمایا:آمین! آمین ! آمین! پھر ارشاد فرمایا:میرے پاس جبریل علیہ السلام آئے اور عرض کی:یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! جس نے اپنے والدین میں سے کسی کو پایا پھر ان دونوں کے ساتھ حسنِ سلوک سے پیش نہ آیا اور مر کر جہنم میں داخل ہو گیاتواللہ تعالیٰ اسے اپنی رحمت سے دورفرمائے، آپ آمین فرمائیے۔تو میں نے کہا:آمین۔ پھر کہا:اے محمدصلی اللہ علیہ وسلم ! جس نے رمضان کا مہینہ پایا اور مر گیا اور اس کی مغفرت نہ ہوئی اور اسے جہنم میں داخل کر دیا گیا تواللہ تعالیٰ اسے بھی اپنی رحمت سے دور فرمائے، آپ آمین فرمائیے۔تو میں نے کہا:آمین۔ پھر کہا:اے محمدصلی اللہ علیہ وسلم ! جس کے پاس آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر ہوا اور اس نے آپ پر درودِ پاک نہ پڑھا اورمر کر جہنم میں داخل ہو گیا تواللہ تعالیٰ اسے بھی اپنی رحمت سے دور فرمائے، آپ آمین فرمائیے۔ پس میں نے کہا:آمین۔ (معجم الکبیر: ۲۰۲۲)

اس مہینے کے آخری لمحات خواب غفلت سے بیدار ہوکر کو رجوع الی اللہ میں گزارنے کا وقت ہے۔ نہ جا نے آئندہ سال کون اس مہینے کو پاسکے گا اور کون اس کے سایہ فگن ہونے سے پہلے ہی منوں مٹی تلے دبا دیاجائے گا۔ ا اللہ تعالی ہم سب کو رمضان المبارک کی قدر کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور اس ماہ کو ہمارے لیے رحمت، مغفرت اور دوزخ سے رہائی کا مہینہ بنادے، ہمارے دلوں کو تقویٰ کے نور سے منور فرمادے۔ آمین ۔

تبصرے بند ہیں۔