یادنگاری کا فن اور اقبال متین

احمد علی جوہر

یادنگاری کافن نہ تو پوری طرح سے آپ بیتی کا فن ہے نہ خاکہ نگاری کا۔ ہاں ان دونوں سے ملتا جلتا بلکہ یوں کہئے کہ ان دونوں کے درمیان کا فن ہے۔ یادنگاری اپنے اور دوسری علمی وادبی شخصیتوں اور دوست احباب کے بارے میں کسی ادیب کی یادداشت پر مبنی تاثراتی تحریریں ہیں۔ اس میں یادنگار اپنے اور دوسری ہستیوں کے سوانحی واقعات کو بھی ایجازواختصار کے ساتھ بیان کرتا ہے اور شخصیت کی جھلکیاں بھی پیش کرتا ہے۔ وہ اپنے اور دوسروں کے بارے میں تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے، شخصیت کے اچھے اور بُرے دونوں پہلوئوں پر روشنی ڈالتا ہے۔ یادنگار ادبی شخصیتوں کو یاد کرتے ہوئے چند جملوں میں ان کے فن کی بھی تصویرکشی کرتا ہے۔ وہ طنزومزاح کے عنصر سے کام لے کر اپنی تحریر میں جاذبیت ودلکشی پیدا کرنے کی بھی کوشش کرتا ہے۔ یادنگار اپنی یادوں پر مبنی تحریروں میں اپنی نجی زندگی کی روداد، اپنے دوست، احباب اور ہم عصر ادیبوں سے اپنی ملاقاتوں کے احوال، ان سے اپنے روابط، ان کی شخصیت اور ان کے کارناموں کو اپنے منفرد ودلکش پیرایے میں اس طرح بیان کرتا ہے کہ ان کی، ان کے دوست، احباب اور متعلقہ ہم عصر ادیبوں کی زندگی، شخصیت اور ان کے کارنامے بڑے پُراثر انداز میں سامنے آتے ہیں۔ ان تحریروں میں فکروبصیرت کی لہریں بھی ہوتی ہیں۔ یہ تحریریں قاری کو نئی معلومات بھی فراہم کرتی ہیں اور انھیں ادبی لطف وانبساط بھی عطا کرتی ہیں۔ اس بحث کی روشنی میں جب ہم اقبال متین کی یادنگاری کا جائزہ لیتے ہیں تو ہمیں اس میں فنِ یادنگاری کی بیشتر خوبیاں موجود نظر آتی ہیں۔

اقبال متین کی کتاب ’’باتیں ہماریاں ‘‘ ان کی یادوں کا مجموعہ اور فنِ یادنگاری کا نمونہ ہے۔ اس میں کل سترہ مضامین ہیں۔ ان مضامین میں اقبال متین نے اپنی نجی زندگی کی روداد قلمبند کی ہے اور اپنے ہم عصر ادیبوں، دوستوں اور احباب کو یاد کیا ہے۔ انھوں نے جن شخصیتوں کو یاد کیا ہے، وہ کامریڈ محمود مشیر، لیڈر جواد رضوی، صفی اورنگ آبادی، علی اختر، مولانافخرالدین، مخدوم محی الدین، شاہد حسینی، قاضی عبدالستار، غیاث احمد گدّی، باقرمہدی، مغنی تبسم، ہاشم علی اختر ان کی بیگم وحید بی بی، حسن چشتی اور کشمیری لال ذاکر ہیں۔ ان شخصیتوں پر اپنے تاثرات قلمبند کرتے ہوئے، درمیان میں انھوں نے دیگر دوستوں، عزیزوں اور دوسری ہستیوں کا بھی ذکر کیا ہے۔ یہ وہ شخصیتیں ہیں جن سے ان کے نجی اور علمی وادبی روابط رہے ہیں اور جن سے وہ متاثر ہوئے ہیں۔ ان شخصیتوں کی سیرت وسوانح، ان کے کارناموں، ان کی خوبیوں اور خامیوں پر انھوں نے اس چابکدستی سے روشنی ڈالی ہے کہ یہ تمام شخصیتیں اپنی منفرد خصوصیات کے ساتھ قاری کی نگاہوں کے سامنے آتی ہیں۔

اقبال متین نے ’باتیں ہماریاں ‘ میں اپنی زندگی کے کچھ دلچسپ حالات وواقعات بیان کئے ہیں۔ ایک جگہ انھوں نے اپنے بچپن کی زندگی کو یاد کرتے ہوئے، اس سے متعلق کچھ انوکھے اور منفرد واقعات کو اس دلکش انداز میں بیان کیا ہے کہ ان کے بچپن کا منظر نگاہوں کے سامنے گھوم جاتا ہے۔ یہ اقتباس ملاحظہ ہو:

’’بچپن کیا اور اس کی روزمرّہ زندگی کیا۔ بندھے، ٹکے مسائل، ڈانٹ اور گھرکی سے بچ کے جی لینے کی خواہش۔ تعریف کے دو بول، پھلا کر گول گپھا بنادیں، ایسے میں یہ اعزاز کیا کم ہے کہ خاندان میں کسی نے کہہ دیا: ’’اپنی بگڑی ہوئی اولاد کو راہ راست پر لانا ہے تو اسے منجھلے بھائی کے پاس بھجوادو۔ اُن کی محبت، دلہن شہزادی (میری امی جو خاندان میں زیادہ تر اسی اپنائیت سے پکاری جاتی تھیں ) کی تربیت اور اقبال جیسے لڑکے کی صحبت، جو ہرسال کلاس میں اول آتا ہے۔ وہ بھلا اس کی کتابیں بھلی۔ کہے دیتا ہوں تمہارا لاڈلا سدھر جائے گا۔ ‘‘ (1)

اقبال متین نے ’باتیں ہماریاں ‘ میں حیدرآباد، دکن کے مشہور ومعروف انقلابی شاعر مخدوم محی الدین پر بھی اپنے دلچسپ تاثرات کا اظہار کیا ہے۔ وہ سٹی کالج، حیدرآباد میں اقبال متین کے اردو کے استاد تھے۔ بعد میں استادی کا یہ رشتہ دوستی میں تبدیل ہوگیا۔ یہ بات اکثر لوگوں کو معلوم ہے کہ مخدوم محی الدین ایک اہم انقلابی شاعر اور ترقی پسند تحریک کے فعال کارکن ہونے کے ساتھ ساتھ عوام میں بے حد محبوب ومقبول اور ہردلعزیز شخصیت کے مالک تھے۔ وہ دوستوں کو بے انتہا چاہتے تھے۔ وہ خلوص ومحبت اور انسانیت وشرافت کے پیکر اور منفرد خصوصیات کے مالک تھے۔ ان کی ہردلعزیز اور پہلودار شخصیت کو اقبال متین نے اپنی فنی مہارت سے اس طرح بیان کیا ہے کہ انداز بیان کی دلکشی قاری کو سحر میں مبتلا کردیتی ہے اور شخصیت بھی بڑے حسین اور پُراثر انداز میں سامنے آتی ہے۔

’’’’بعض نعمتیں اللہ میاں شاید انتقاماََ نواز دیتے ہیں۔ میرے حیدرآباد میں ایک شخص تھا۔ کالا رنگ ساتھ ہی بڑے تیکھے نقوش، آواز میں لحنِ دائودی کا رس، احساس کی آنچ کواطراف لپیٹے پھرتا تھا۔ شاید اس حرارت کو خلقتِ خدا نے پیار کی گرمی سمجھ رکھا تھا اور چپکے سے اس کے ساتھ ہوگئی تھی۔ اب جو اس شخص نے دیکھا کہ اللہ سے انکار کرتا ہوں تواللہ کے بندے پیچھا نہیں چھوڑتے اور وہ جو محبتیں ان کے لیے میرے دل میں بس گئی ہیں وہ مجھے بھی بے آرام رکھتی ہیں۔ آدمی ہشیار تھا۔ اللہ سے سمجھوتہ کرلیا۔ چپ کے سے دل ہی دل میں اللہ میاں سے گڑگڑا کر عرض کی: دیکھئے صاحب آپ اپنا عرش وفرش سنبھالئے اور اپنے فرش فلکِ اول کے حدود سے نیچے نہ آئیے۔ آپ کی زمین اور باقی سارے کا سارا ہم سنبھالتے ہیں۔ اللہ میاں نے سوچا آدمی ڈھنگ کا ہے۔ ہمیں بھی تو پسند ہے۔ چلو ایک چھوٹی سی زمین کا ٹکڑا اس کے حوالے کرتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ وہ ہمارے بندوں کے ساتھ کیا سلوک کرتا ہے۔ اللہ میاں کو رضامند پاکر یہ شخص گاتا گنگناتا نکل پڑا۔ جس گھر میں جاتا اس گھر کے چھوٹوں کو، بڑوں کو سب کو اپنا لیتا۔ دوستوں کی محفل میں ایسا گھل مل کر بیٹھتا جیسے گھلاوٹ کا لفظ اسی کی محفلوں سے چلاہو۔ شکر کو آپ نے دودھ میں گھلتے ہوئے دیکھا ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اگر دیکھا ہے تو شکر کو پانی میں گھلتے ہوئے بھی دیکھا ہوگا۔ اب آپ ہی بتائیے کتنا فرق ان دونوں کی گھلاوٹ میں ہے۔ پانی میں شکر گھلنے تک آپ اے اپنا وجود تسلیم کرواتی رہے گی۔ لگے گا۔ یہ کاروبار دل سے نہیں ہورہا ہے آپ جبراََ چکر گھول رہے ہیں اور وہ گھلنے کے لیے تیار نہیں۔ دودھ کا معاملہ الگ ہے۔ آپ نے شکر ڈالی اور وہ بن گئی دودھ کا حصہ۔ یہ کاروبار لگتا ہے عشق ومحبت کے سے کاروبار ہیں۔ بس کچھ اسی ادا سے یہ شخص دوستوں کی محفلوں میں گھلتا گھلاتا رہتا تھا۔ ایک بار مل لیجئے ___  آپ کی شخصیت کی ساری مٹھاس، ساری کڑواہٹیں آپ اس کو دے دیں گے اور جو نہ دیں گے تو وہ خود جھپٹ کر آپ سے چھین لے گا اور اپنے میں انڈیل کر مسکرائے گا۔ جیسے کہہ رہا ہو، جناب ڈھونڈ نکالیے خودکو ___  کہاں ہیں آپ؟ ۔ ۔ ۔ تن کاکالا من کا اجلا مخدوم اندر سے تن کا بھی اُجلا نکلا تو ہم کو حیرت نہ ہوئی۔ ‘‘ (2)

اقبال متین نے اپنی اس کتاب میں جن دوستوں کو یاد کیا ہے ان میں باقر مہدی بھی ہیں۔ ان سے ان کے علمی وادبی روابط تھے۔ ایک دوبار ان سے اقبال متین کی ملاقاتیں بھی ہوئی تھیں۔ ان کی طبیعت نرم بھی تھی اور بے حد گرم بھی۔ وہ متضاد خصوصیتوں کے حامل تھے۔ ان کی شخصیت کا مشاہدہ کرنے کے بعد اقبال متین نے جو محسوس کیا اس کو اپنے منفرد انداز میں اس طرح بیان کیا کہ  پوری شخصیت نگاہوں کے سامنے آکھڑی ہوتی ہے۔

 ’’باقر اندر سے بہت پیارا آدمی ہے۔ نرم، بھیگا ہوا۔ اس قدر ملائم کہ آنسوزدہ لگے لیکن باقر بہت دیر، بہت دیر بعد ہاتھ لگتا ہے۔ اور اس آدمی کے ہاتھ لگنے تک جو باقر چادر اوڑھ کر ساتھ رہتا ہے وہ اس کی روح بھی نہیں ہے۔ ہیولا ہے۔ طاغوتی ہیولا وہ بہت پڑھتا ہے اور اپنے بہت پڑھنے پر اسے اتنا زعم ہے کہ وہ کسی کو خاطر میں نہیں لاتا۔ وہ شاید پڑھتا اسی لئے ہے کہ تعلق خاطر کا لفظ اس کی لغت میں شامل نہ رہے۔ لیکن اس لفظ کو حرفِ غلط کی طرح مٹا دینے میں وہ کامیاب نہ ہوسکا۔ وہ اپنے پر تنقید تو بہت دور کی بات ہے اپنے خلاف ایک جملہ بھی برداشت نہیں کرسکتا۔ ‘‘ (3)

  اس کتاب میں اقبال متین نے علی گڑھ یونیورسٹی کے وائس چانسلر سید ہاشم علی اختر کو بڑی عقیدت ومحبت سے یاد کیا ہے۔ وہ ان کے قریبی رشتہ دار تھے۔ وہ غیرمعمولی شخصیت کے مالک تھے۔ اقبال متین نے ان کے بلند صفات، علمی کمالات، ان کی خدادادانتظامی صلاحیتوں، ان کی منصف مزاجی، ایمانداری ودیانت داری پر روشنی ڈالتے ہوئے ان کی چہیتی شخصیت کو اس چابکدستی سے بیان کیا ہے ان کا بلند کردار قاری کے دل کو موہ لیتا ہے۔ ایک جگہ اقبال متین ان کی ہمہ گیر شخصیت کو اپنے لفظوں میں یوں بیان کرتے ہیں :

’’ہاشم علی اختر کسی شخص کا نام نہیں ہے۔ ایک ایسی شخصیت کا نام ہے جس نے بلندیوں کے سر کرنے کو اتنی اہمیت نہیں دی جتنی وسعتوں کی پہنائیاں ناپنے کو۔ طالبِ علمی کے زمانے میں کلاس کی مانیٹری سے لے کر ہندوستان کی دو اہم ترین جامعات کی وائس چانسلری تک علم وعمل کی پہنائیاں ناپنے والی شخصیت نے بہ حیثیت پولیٹکل سکریٹری سیاسی نظم ونسق کی پہنائیاں ناپ کر رکھ دیں جب کہ کسی بھی مسلمان افسرِاعلیٰ کے لیے اس ساعت داروگیر میں سانس لینا بھی ممکن نہ تھا۔ ایسے ذہین، بے خوف اور باعمل آدمی کے لیے جو اپنے اخلاص کو دوسروں کی ملکیت سمجھتا رہا ہو اور جس کے بے شمار دوستوں نے اسے ٹوٹ کر چاہا ہو اور جس کے چاہنے والوں میں طالبِ علمی کے زمانے سے آج تک اتنے لوگ نکل آئیں جن کا احاطہ کرنا مشکل ہو۔ وحید بی بی کا اس کی زندگی میں اس طرح سرایت کرجانا صرف ازدواجی بندھن کی بات نہیں تھی۔ ہاشم بھائی کی شخصیت وہ تھی جس کو ان کے چاہنے والوں نے مل کر چاہا ہے، سن کر چاہا ہے، پڑھ کر چاہا ہے۔ ان میں نام ور ہستیاں بھی ہیں، بے نام ونمود گوشہ نشیں بھی۔ ‘‘ (4)

اقبال متین نے ہاشم بھائی کے ساتھ ان کی بیگم وحید بی بی کی بھی صفات وکمالات کا احاطہ کرتے ہوئے ان کے بلند کردار کو اُجاگر کیا ہے۔ ویسے تو اس کتاب میں اقبال متین نے ایک درجن سے زیادہ ہستیوں پر اظہارِ خیال کیا ہے مگر اس کتاب کی سب سے اہم خوبی یہ ہے کہ اس میں سچائی اور دیانت داری سے کام لیا گیا ہے اور حقیقی اور دلکش انداز میں شخصیتوں کی تصویرکشی کی گئی ہے۔ مشہور خاکہ نگار یوسف ناظم ’باتیں ہماریاں ‘ کا مطالعہ کرتے ہوئے رقم طراز ہیں :

’’باتیں ہماریاں ‘‘ کی دو خوبیاں روزروشن کی طرح نمایاں ہیں۔ ایک تو کتاب کا نام بالکل صحیح النسب ہے۔ دوسرے اس میں سچ ہی سچ ہے جب کہ اس نوع کی کتابوں میں زیب داستاں باتوں کی کھلی اور غلوٹی کی جو دروغ گوئی کی حدوں کو چھوتا ہو، مخفی اجازت ہے۔ کتاب میں گھریلو اور نجی محفلوں کی دل چسپ اور دل گداز رودادیں بھی شامل ہیں جن میں محبت، یگانگت اور خلوص کی بہتات، افراط اور نشاط انگیز خوشبو میں رواں دواں ہیں۔ وہیں کہیں کہیں آنسوئوں اور دبی دبی سسکیوں کی بھی آمیزش ہے۔ ان رودادوں کو قلم بند کرتے ہوئے پتہ نہیں مصنف کے دل پر کیا گزری ہوگی لیکن ان کے سچ اور 24 قیراطی سونے سے ملتا جلتا عن ومن پیش کرنے کے سلیقے نے اقبال متین کی تحریر کو چندے آفتاب چندے ماہتاب بنادیا۔ قلم کہیں لڑکھڑایا نہیں۔ اقبال متین کتنے خوش قسمت ہیں کہ انہیں لکھنے کے لیے لوہے کا قلم ملا ہے جس میں روانی اور تیزرفتاری زبردست ہے کہ قلم کو اشہب قلم بنادیتی ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ کتاب نہیں سفرنامہ بھی نہیں ہے۔ پھر یہ کیا ہے۔ ۔ ۔ یہ اقبال متین کا اعمال نامہ ہے اور ان کی نجات کا سرنامہ۔ ۔ ۔ ۔ قلم ہوتو ایسا ہو اور حافظہ ہوتو ایسا۔ ۔ ۔ مبارکباد کا لفظ تو بہت چھوٹا پڑے گا۔ اس لیے میں دم بہ خود رہنا پسند کروں گا۔ ‘‘ (5)

معروف ناقد وہاب اشرفی ’باتیں ہماریاں ‘ پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

’’’’باتیں ہماریاں ‘‘ دراصل اقبال متین کی بعض یادداشتوں پر مشتمل ایک کتاب ہے۔ ۔ ۔ ۔ اقبال متین نے اپنی یادداشتوں کو افسانوی نہج اور دھج دینے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی۔ ان کی یادداشتوں کا ہر فرد حقیقی ہونے کے باوجود افسانوی رنگ ڈھنگ اختیار کرلیتا ہے اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ متعلقہ پیکر سامنے کھڑا ہے۔ ۔ ۔ ۔ ہاشم علی اختر کی بیگم وحید بی بی کا کردار جس طرح سامنے آیا ہے وہ بڑا دلکش ہے اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وحید بی بی ہمارے سامنے زندہ وتابندہ کھڑی ہیں۔ اقبال متین کی یادیں آپ بیتی سے مختلف کیفیت رکھتی ہیں۔ کاش کہ وہ اپنی یادوں کو سرگذشت بناسکتے اور ایک بھرپور کتاب اس موضوع پر لاسکتے جس کے وہ ہر طرح اہل ہیں۔ یہ منتخب یادیں اردو والوں کے لیے ایک بیش قیمت تحفہ ہے۔ اقبال متین کی زبان سہل، رواں، دلکش اور پرکشش ہے۔ ‘‘ (6)

’باتیں ہماریاں ‘ کے تفصیلی جائزہ سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ اقبال متین نے اپنی یادوں پر مبنی تاثرات کی مدد سے اپنی اور دوسری شخصیتوں کی جو تصویریں دکھائی ہیں وہ جاذب نظر اور پرکشش ہیں۔ اقبال متین کی یہ یادیں کئی اعتبار سے اہمّیت کی حامل ہیں۔ انھوں نے اپنی یادوں میں اپنے ہم عصر ادیبوں، دوستوں اور اہم شخصیتوں سے اپنی ملاقاتوں کی روداد اس فنکاری سے بیان کی ہے کہ قاری اپنے آپ کو اس محفل میں شریک پاتا ہے۔ ان یادوں میں حیدرآباد کی اہم ادبی شخصیتیں اپنی رنگارنگ خصوصیات کے ساتھ نظر آتی ہیں اور وہاں کی علمی وادبی محفلوں کی تصویریں بھی دکھائی دیتی ہیں۔ اس میں شخصیت کے حوالے سے اور ادب اورادبی رجحانات کے حوالے سے بڑی اہم باتیں دلکش انداز میں بیان کی گئی ہیں جس کو پڑھ کر قاری کی بصیرت وآگہی میں بھی اضافہ ہوتا ہے اور ادبی لذّت وچاشنی بھی حاصل ہوتی ہے۔ یہ یادیں ایک طرح سے ادبی منظرناموں اور ادبی شخصیتوں کے دستاویز کی حیثیت رکھتی ہیں۔ ان یادوں کو پڑھ کر یہ کہا جاسکتا ہے کہ اس میں یادنگاری کے فن کی بیشتر خوبیاں موجود ہیں اور اقبال متین نے اس فن میں جس کمال کا مظاہرہ کیا ہے، اس کی بنا پر وہ اردو کے اہم اور منفردوممتاز یادنگاروں میں شمار ہوتے ہیں۔

 حوالہ جات

 (1) اقبال متین، باتیں ہماریاں، ناشر، گونج پبلیکیشنز، اردوگھر، احمدی بازار، نظام آباد، 2005ء، ص، 37۔

(2) ایضا، ص، 101 تا 102۔

(3) ایضا، ص، 129۔

(4) ایضا، ص، 181۔

(5) یوسف ناظم، ’’باتیں ہماریاں ‘‘ کے بارے میں کچھ ہماری باتیں، مشمولہ، بادبان، (اقبال متین نمبر)، ص، 83تا85۔

(6) وہاب اشرفی، تبصرہ ’’باتیں ہماریاں ‘‘، مشمولہ، مباحثہ، پٹنہ، شمارہ:27، جنوری تامارچ، 2007ء، ص، 185تا 186۔

تبصرے بند ہیں۔