مظفر نگر کے 75ہزار مسلم فساد زدگان کا حالِ زار

تین سال بعد بھی نہ گھر جاسکے، نہ گھر ملا اور نہ انصاف

عبدالعزیز

            7ستمبر کو مظفر نگر کے مسلمانوں کے تیس گاؤں کو فسادیوں نے یا تو جلا کر راکھ کر دیا یا مسلمان ڈرااور خوف سے اپنے گھر بار سے نکل کر مسلمانوں کی کثیر آبادی میں جاکر پناہ لینے پر مجبور ہوئے۔ نفرت اور قتل کے سوداگروں نے افواہ پھیلائی کہ مسلمان لڑکے ’لَو جہاد‘ کے نام پر ہندو جاٹ کی لڑکیوں سے شادی کر رہے ہیں جو بعد میں بالکل غلط ثابت ہوا، پھربھی قاتلوں نے بہو بیٹی کے نام پر بچاؤ مہم کو جاری رکھا اور فساد کی آگ ایک گاؤں سے دوسرے گاؤں تک پھیلتی رہی۔ سماج وادی حکومت کے اہلکار اور حکمراں جماعت کے ایم ایل اے، ایم پی تماشائی بنے رہے۔ اعظم خان کا بھی منہ بند رہا۔ 75 ہزار افراد کئی سال تک کیمپوں میں مشکلات اور پریشانی کی زندگی گزارے جہاں ٹھنڈک اور برسات کے پانی سے کئی بچے ہلاک ہوگئے۔ دو سال تو پناہ گزین در بدر کی ٹھوکریں کھاتے رہے۔ تیسرے سال کالونیوں کو اپنا مستقل ٹھکانہ بنانے پر مجبور ہوئے۔ فساد پسند حکومت ایسا سازگار ماحول بنانے سے قاصر رہی جس میں وہ اپنے گاؤں یا گھروں میں جاسکے۔ ٹھیکیداروں نے پانی کے بھاؤ ان کی زمینوں کو خریدا اور بھاری قیمت پر نفرت پھیلانے والوں کے ہاتھوں فروخت کیا۔ کسی غیر سرکاری تنظیم نے بھی نہ پہل کی اور نہ کوشش کی کہ وہ اپنے پیدائشی گھروں یا گاؤں جاسکیں۔ یہ بے یارو مددگار لوگوں کو اپنے فرقہ کے لوگوں سے بھی مدد و معاونت اس قدر نہیں ملی کہ ان کے گھر یا ان کی جائیدادیں انھیں واپس مل سکیں۔

            ریاستی حکومت کا سوتیلا پن اس قدر عیاں ہے کہ اس کے پاس مصیبت زدگان کی کوئی فہرست بھی نہیں ہے کہ کتنے لوگ بے گھر ہوئے اور مستقلاً کہاں آباد ہوئے اور اس وقت کس حالت میں زندگی گزار رہے ہیں۔ امان برادری اور افکار فاؤنڈیشن نے سروے کیا ہے کہ کتنے لوگ بے گھر (Displaced or Homeless) ہوئے ہیں اور کہاں اس وقت ان کا مستقل ٹھکانا ہے۔ ان لوگوں کی کھوج اور تلاش سے معلوم ہا کہ 65 کالونیوں میں فساد زدگان اس وقت مستقلاً آباد ہوگئے ہیں۔ 28 کالونی مظفر نگر شہر میں ہے جبکہ 37 کالونی شمال میں ہے۔ ان دو کالونیوں میں 29,328  افراد آباد ہیں۔ باقی لوگوں کے بارے میں کچھ اتہ پتہ نہیں ہے کہ وہ کہاں گئے اور کہاں انھوں نے اپنا مستقل یا عارضی ٹھکانہ بنا رکھا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ 42 ہزار افراد کے بارے میں کسی کے پاس بھی کوئی ریکارڈ نہیں ہے۔

            بی جے پی ایم پی حکم سنگھ نے شمالی ضلع کے کیرانہ کے بارے میں افواہ پھیلائی کہ 300 ہندو خاندان کیرانہ چھوڑ کر خوف اور دہشت سے چلے گئے۔ وجہ یہ بتائی کہ مسلم اقلیت کے غنڈوں اور بدمعاشوں کے ڈر سے ایسا کرنے پر ہندو خاندان شہر بدر ہوئے۔ بعد میں اخباروں اور ٹی وی چینلوں نے بتایا کہ حکم سنگھ کی رپورٹ کے مطابق بہت سے خاندان دس سال پہلے اپنے گھر بار چھوڑ کر چلے گئے اور کچھ لوگ بہتر مواقع اور تجارت کی غرض سے کیرانہ چھوڑ کر دوسری جگہوں میں چلے گئے ہیں۔ 300خاندانوں کی پھر جبر وظلم کی جھوٹی داستان پر میڈیا نے کافی شور و غل مچایا۔ اچھا ہوا کہ چند نیوز چینلوں اور اخباروں نے سچائی پیش کی جس کی وجہ سے بی جے پی کے غبارے سے ہوا نکل گئی۔ مظفر نگر کے تیس گاؤں کے 75 ہزار افراد اپنا گاؤں، گھر چھوڑ کر ہندو فسادیوں اور قاتلوں کی وجہ سے بے یارو مددگار ہوگئے۔ اس پر کسی نے آسمان کو سر پر نہیں اٹھایا۔ نہ حکومت فکر مند ہوئی اور نہ غیر سرکاری تنظیموں نے کوئی خاص توجہ دی کیونکہ وہ سب مسلم فرقہ سے تعلق رکھتے تھے۔

            فساد زدگان کی زیادہ تر مسلم تنظیموں نے مدد کی جو بیرون ملک سے بھیجے گئے پیسے تھے ان سے مدد کی گئی۔ صرف سدبھاونا ٹرسٹ نے 230 گھر بنانے میں اپنا تعاون پیش کیا جس سے اپنا گھر، کالونی بسائی گئی۔ ایکتا نگر میں سی پی ایم نے مصیبت زدگان کو ایک لاکھ روپئے ہر خاندان کو دیا۔ 65 کالونیوں میں سے 41 کالونی ابھی بھی گھر نامکمل ہیں۔ دیواروں پر چھت بھی نہیں ہے۔ کالونیوں میں بچوں کی تعلیم کا کوئی بندوبست نہیں ہے۔ کام کاج کا بھی کوئی بندوبست نہیں کیا جاسکا۔ مظفر نگر یا شاملی میں جو کالونیاں بسائی گئی ہیں ایک کیلو کے اندر کوئی اسکول یا تعلیم گاہ نہیں ہے کہ جہاں بچے پڑھنے کیلئے جاسکیں۔

            سرکار کی انتظامیہ عدل و انصاف دینے سے بالکل قاصر ہے۔ پولس اور عدلیہ بھی فرقہ پرستی اور تعصب کا مظاہرہ کرتی ہیں۔ 534 ایف آئی آر کے ذریعہ 6400 لوگوں کے نام میں زیادہ تر قتل کے مقدمات کوخارج کر دیا گیا ہے یا چارج شیٹ دے دیا گیا ہے جن کا ٹرائل کیا جارہا ہے وہ نامعلوم (Unknon Person) افراد ہیں۔ دو واقعات میں قوال گاؤں میں ایک ہندو جاٹ کے قتل پر ایک مسلمان کو گرفتار کیا گیا ہے۔ اس کے برعکس پولس نے ایک مسلم لڑکے شاہنواز کے قاتلوں کے بارے میں کورٹ کو بتایا ہے کہ جس نے مارا ہے ان میں سے کوئی زندہ نہیں ہے۔ بہت سے چشم دید گواہوں کا کہناہے کہ دو جاٹ بھائیوں نے جو مسلمانوں کا دن دہاڑے قتل کیا ہے وہ آزاد ہیں اور گھوم پھر رہے ہیں۔ 25 افراد جنھوں نے اجتماعی عصمت دری کی ان میں سے صرف چھ افراد کو پکڑا گیا ہے اور ملزم ٹھہرایا گیا ہے۔ باقی لوگوں چھوڑ دیا گیا ہے۔ تین سال ہوگئے کسی کو گرفتار نہیں کیا گیا ہے۔ سیاست اور مذہب کی قربت کی وجہ سے مجرموں اور قاتلوں چھوٹ ملی ہوئی ہے۔ خانماں برباد، جلا وطنی اور نا انصافی کا راستہ مظفر نگر کے فساد زدگان اور مصیبت زدگان کو حکومت اور فساد اور ظلم کرنے والوں نے دکھایا ہے۔ جن لوگوں کو انصاف نہ ملا اور نہ ان کو ان کا گھر ملا۔ آخر وہ لوگ کیا سوچ رہے ہوں گے اور آخر انھیں کیا سوچنا چاہئے اور کرنا چاہئے؟ میرے خیال سے ساری مسلم تنظیموں اور مسلمانوں کو ملائم اور مودی کو ہراکر کم سے کم اپنے ظلم کا بدلہ لینا چاہئے۔ یہ دونوں مسلمانوں کو بے گھر کرنے کے یکساں ذمہ دار ہیں۔ ملائم کی ناانصافی اور زیادتی مودی سے کم نہیں ہے۔ آج تک ان کی حکومت میں مظلوم مسلمانوں کو انصاف نہیں ملا۔ مظلوم و بے بس آج بھی بے بس اور مجبور ہیں۔ قاتل اور فسادی آج بھی آزاد ہیں۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔