حضرت ابراہیمؑ اور حضرت اسماعیلؑ کی یادگارقربانی

عبدالعزیز 

        ’’ابراہیم نے کہا’’ میں اپنے رب کی طرف جاتا ہوں، وہی میری رہنمائی کر ے گا۔ اے پروردگار، مجھے ایک بیٹا عطا کر جو صالحین میں سے ہو۔ ‘‘ ( اس دعا کے جواب میں ) ہم نے اس کو ایک حلیم (بُردبار) لڑکے کی بشارت دی۔ وہ لڑکا جب اس کے دوڑ دھوپ کرنے کی عمر کو پہنچ گیاتو (ایک روز) ابراہیم نے اس سے کہا ’’بیٹا! میں خواب دیکھتا ہوں کہ میں تجھے ذبح کررہا ہوں، اب تو بتا، تیرا کیا خیال ہے؟‘‘  اس نے کہا ’’اباجان، جو کچھ آپ کو حکم دیاجا رہا ہے اسے کر ڈالیے، آپ ان شاء اللہ مجھے صابروں میں سے پائیں گے۔ ‘‘   (سورہ الصفٰت 99-102)

        ’’سعی‘‘ سے مراد یہاں دوڑنے پھرنے کی عمر ہے۔ مطلب یہ ہے کہ یہ فرزند عزیز جب باپ کے ساتھ دوڑنے پھرنے کی عمر کو پہنچا تو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے خواب میں دیکھا کہ ان کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ ہدایت ہو رہی ہے کہ اس کو اپنے رب کی خاطر قربان کردیں۔ حضرت اسماعیل، حضرت ابراہیمؑ کو ان کی دعا کے نتیجہ میں اس وقت ملے تھے جب وہ اپنے خاندان اور اپنی قوم کو چھوڑ کر ایک دوسرے ملک کو  ہجرت فرما چکے تھے اور واحد چیز جو اس غربت میں ان کے لیے دلجمعی کا ذریعہ بن سکتی تھی ان کا یہی اکلوتا فرزند تھا۔ اس فرزند کی عمر اس وقت اتنی ہوچکی تھی کہ وہ باپ کے ساتھ چلنے پھرنے اور اسکے چھوٹے موٹے کاموں میں اس کا ہاتھ بٹانے لگ گیاتھا۔ تورات سے معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت ان کی عمر13برس کی تھی۔ ہر شخص اندازہ کرسکتا ہے کہ اس عمر میں بیٹا باپ کی نگاہوں میں سب سے زیادہ محبوب ہوتا ہے۔ غور کیجئے کہ کتنا سخت امتحان ہے جس میں حضرت ابراہیم علیہ السلام ڈالے جاتے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ کی وفاداری میں کوئی شخص اس وقت کامل نہیں ہو سکتا جب تک اپنی سب سے زیادہ عزیز چیز اسکی راہ میں راہ میں قربان کرنے کے لئے تیار نہ ہوجائے۔ اس وجہ سے حضرت ابراہی علیہ السلام اس امتحان میں ڈالے گئے۔ اگرچہ یہ ہدایت خواب میں ہوئی تھی اور خواب کی بات محتاجِ تاویل و تعبیر ہوتی ہے۔ اس لیے حضرت ابراہیم چاہتے تو اس کی کویہ تاویل کرلیتے لیکن وہ ایک صداقت شعار اور وفادار بندے تھے اس وجہ سے اس کی کوئی تعبیر نکالنے کے بجائے وہ اس کی من و عن تعمیل کرنے پر آمادہ ہوگئے۔

        قال یبنی انی اریٰ فی المنام انی اذبحک فانظر ماذاتری۔ اس راہ میں پہلا قدم انہوں نے یہ اٹھایا کہ فرزند کے حوصلہ کا بھی اندازہ کرلینا چاہا۔ فرمایا کہ بیٹے میں خواب میں دیکھتا ہوں کہ تمہیں ذبح کر رہا ہوں تو تم بھی غور کرلو کہ تمہاری کیا رائے ہے؟ اسلوبِ کلام سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ خواب حضرت ابراہیم علیہ السلام کو ایک سے زیادہ مرتبہ نظر آیا۔ اگر ایک ہی بار نظر آیا ہوتا تو اس کے اظہار کے لئے اِنِّیْ رَاَیْتُ فِی الْمَنَامِ کا اسلوب زیادہ موزوں رہتا۔ حضرت ابراہیم  علیہ السلام نے یہ بات بھی ظاہر فرمادی کہ ہر چند یہ خواب ایک سے زیادہ مرتبہ ان کو نظر آیا ہے لیکن ہے بہرحال یہ ایک خواب تاکہ معاملہ کی اصلی نوعیت بیٹے پر اچھی طرح واضح ہوجائے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو بیٹے کی عقل و فہم پر اسی وقت سے بھروسہ تھا۔ ان کو توقع تھی کہ اس معاملے میں اس کی رائے ان کے لیے صحیح فیصلہ کرنے میں مددگار ہوگی۔

        قَالَ یٰاَبَتِ اْفعَلْ مَاتُوْ مَرُز سَتَجِدُ نِیْ اِنْ شَائَ اللّٰہُ مِنَ الصّٰبِیْرِیْنَ۔ حضرت اسماعیل نے اس خواب کو خواب کے بجائے امر الٰہی سمجھا اور فوراً جواب دیا کہ والد ماجد! آپ کو جو حکم دیاجا رہا ہے آپ بے دریغ اس کی تعمیل کیجیے اورمیری طرف سے مطمئن رہیے۔ ان شاء اللہ آپ مجھے پوری طرح ثابت قدم پائیں گے۔

        فَلَمَّا اَسْلَمَا وَ تَلَّہٗ لِلْجَبِیْنِ۔

        اب یہ اصل مرحلہ یعنی قربانی کا بیان ہو رہاہے۔ اسلام کے معنی اپنے آپ کو اللہ کے حوالے کردینے کے ہیں یعنی باپ اور بیٹا دونوں امتحان کے لیے آمادہ ہوگئے۔ باپ نے بیٹے کو ذبح کردینے کے لیے چھری نکال لی اور بیٹے نے اپنے آپ کوذبح کردینے کے لیے حوالے کردیا۔ تَلَّہٗ لِلْجَبِیْناورباپ نے بیٹے کو پیشانی کے بل پچھاڑ دیا۔ پیشانی کے بل پچھاڑنے کی توجیہ بعض لوگوں نے یہ کی ہے کہ حضرت ابراہیم نے چاہا کہ ذبح کے وقت بیٹے کا محبوب چہرہ سامنے نہ ہوتا کہ رقتِ قلب چھری چلانے میں مانع نہ ہو لیکن یہ توجیہ بعض لوگوں کے نزدیک درست نہیں ہے۔ جو باپ اس طرح اکلوتے اور محبوب لختِ جگر پر چھری چلانے کے لئے آستین چڑھالے گا وہ اس قسم کی تسلیوں کا محتاج نہیں ہوسکتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے بیٹے کو سجدہ کی حالت میں قربان کرنا چاہا اس وجہ سے پیشانی کے بل پچھاڑا۔ سجدہ کی ہیئت خدا کے قرب کی سب سے زیادہ محبوب اسلام میں بھی ہے، جیسا کہ ارشاد ہے  وَاسْجُدُوَ اقْتَرِبْ ( سجدہ کر اور اپنے رب سے قریب تر ہوجا !) اور اس کی یہ حیثیت قدیم مذاہب میں بھی مسلم رہی ہے۔ یہ امر بھی ملحوظ رہے کہ یہ واقعہ اس وقت کا ہے جب بیت اللہ نہ تو تعمیر ہوا تھا اورنہ عبادت کے لئے کوئی متعین قبلہ ہی تھا۔ اگر کوئی متعین قبلہ ہوتا تو ہوسکتا ہے کہ حضرت ابراہیم بھی بیٹے کو قبلہ رخ لٹاتے جس طرح ہم جانوروں کو ذبح کرتے وقت قبلہ رخ لٹاتے ہیں۔

        وَنَادَیْنٰہُ اَنْ یٰاِبْرَاہِیْمُ قَدْ صَدَّقْتَ الرُّؤْیَا، اِنَّا کَذٰلَکَ فَجْزِی الْمُحْسَنِیْنَ (104-105)

        قریب تھا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی چھری چل جائے لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کو آواز دی کہ اے ابراہیم! تو نے خواب سچ کر دکھایا اور یہ فیروزمندی جو اس امتحان میں تم نے حاصل کی یہ تمہاری خوب کاری اور تمہارے اخلاص و احسان کا صلہ ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنے خوب کاربندوں کو اسی طرح اپنے امتحانوں میں سرفرازی بخشتا ہے۔

        قَدْ صَدَّقْتَ الرُّؤْیَا۔ ہم اوپریہ اشارہ کرچکے ہیں کہ خواب میں جو کچھ دکھایا جاتا ہے وہ محتاجِ تاویل و تعبیر ہوتا ہے۔ حضرت ابراہیم کو یہ خواب جو دکھایا گیا اس کی اصل تعبیر یہ تھی کہ وہ اس بیٹے کو خدا کی نذر کر دیں۔ یہ مقصود نہیں تھا کہ اس کو وہ فی الواقع ذبح کردیں۔ چنانچہ وہ بیٹے کو قربان کرنے کے لیے تیار ہوگئے تو خواب کا جو اصل منشاء تھا وہ پورا ہوگیا اس وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ان کو بشارت دے دی کہ خواب کا مقصد پورا ہوچکا اب مزید کسی اقدام کی ضرورت نہیں ہے۔ جن لوگوں نے اس سے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنا حکم عمل سے پہلے ہی منسوخ کردیا۔ انہوں نے ایک غیر ضروری تکلف کیا ہے۔ صحیح تاویل واضح ہوجانے کے بعد اس کی تردید کی ضرورت باقی نہیں رہی۔

         اِنَّا کَذٰلَکَ فَجْزِی الْمُحْسَنِیْنَ سے یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ جو لوگ اللہ کے صدق و اخلاص اور اس کے احکام کی تعمیل کے باب میں ’احسان‘ کی روش اختیارکرتے ہیں یعنی ان کی کوشش یہ ہوتی ہے کہ خدا کے ہر حکم کی تعمیل اس طرح کریں جس طرح اس کے کرنے کا حق ہے، ان کو اللہ تعالیٰ یہ صلہ دیتا ہے کہ وہ اس کے بڑے بڑے امتحانوں میں شاندار کامیابیاں حاصل کرتے ہیں اورپھر اس کے صلے میں آخرت کی ابدی بادشاہی کی فیروز مندیاں پاتے ہیں۔ برعکس اس کے جن لوگوں کی روش دین کے معاملے میں فرار پسندانہ رہتی ہے وہ آہستہ آہستہ خدا کی آزمائشوں کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت سے بالکل محروم ہوجاتے ہیں جس کا نتیجہ بالآخر یہ ہوتا ہے کہ آخرت کی کامیابیوں کی راہ ان کے لیے بالکل ہی بند ہوجاتی ہے۔

        یہ حضرت ابراہیمؑ کی ا س کامیابی پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے تحسین و آفرین ہے کہ یہ کوئی معمولی امتحان نہیں تھا بلکہ بہت بڑا امتحان تھا جس میں ابراہیم علیہ السلام نے بازی جیتی، جس امتحان کو خود اللہ تعالیٰ بڑا امتحان قرار دے اس کے بڑے ہونے میں کیا شبہ ہوسکتا ہے اور اگر اس میں حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ایسی کامیابی حاصل کی جس کی داد خود اللہ تعالیٰ نے قد صدقت الرؤیا کے شاندار الفاظ سے دی تو اس میں شبہ نہیں کہ اس آسمان کے نیچے نہ اس سے بڑا کوئی امتحان پیش آیا اورنہ اس سے ز یادہ شاندار کامیابی کسی نے حاصل کی۔

        وَ فَدَیْنٰہُ بِذِبْحٍ عَظِیْمٍ (107)

        فرمایا کہ ہم نے اسماعیل کو ایک ذبح عظیم کے عوض چھڑا لیا۔ یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ ہم نے ابراہیم کو یہ ہدایت فرمائی کہ وہ اس بیٹے کی جگہ ایک مینڈھے کی قربانی کردیں اوریہ قربانی ایک عظیم قربانی کی شکل میں ہمیشہ ہمیشہ آئندہ نسلوں میں اس واقعہ کی یادگار کی حیثیت سے باقی رہے گی۔ یہی قربانی ہے جو مناسک حج میں شامل ہوکر حضرت ابراہیم کے وقت سے آج تک برابر چلی آرہی ہے اور قیامِ قیامت تک باقی رہے گی… یہ امر یہاں ملحوظ رہے کہ قربانی اگر چہ تمام ادیان میں حضرت آدم کے وقت سے چلی آرہی ہے لیکن دنیا میں کسی قربانی نے یہ عظمت و اہمیت اور یہ وسعت و ہمہ گیری نہیں حاصل کی جو حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اس قربانی نے حاصل کی۔

        و ترکنا علیہ فی الآخرین۔ (108)

        یہ وہی ترجیع ہے جو حضرت نوح کی سرگزشت میں گزر چکی ہے۔ اس کی وضاحت ہوچکی ہے کہ پچھلوں کے اندر اللہ تعالیٰ نے ایک امت کو اس ملت ابراہیم پر باقی رکھا۔ سورہ شعراء آیت 84میں حضرت ابراہیم کی یہ دعا گزر چکی ہے : واجعل لی لسان صدق فی الاحرین( اے رب پچھلوں میں میرا پائیدار چرچا قائم رکھ) اللہ تعالیٰ نے ان کی یہ دعا قبول فرمائی اور شہرت دوام کی وہ سرفراز ان کو بخشی جس کی مثال نہیں مل سکتی۔

        سلم علی ابراہیم  (109)

         یہ مستقل جملہ ہے یعنی ابراہیم پر اس کے صدق و اخلاق کے صلہ میں، دنیا اور آخرت میں سلامتی اوربرکت ہے۔ لفظ ’سلام‘ کی تنکیر تفخیم شان کے لیے ہے۔

        کذلک نجزی المحسنین (110)

        کذلک کا اشارہ اسی سلامتی و برکت کی طرف ہے۔ فرمایا کہ ہم اپنے خوب کار بندوں کو اسی طرح اپنی رحمتوں اور برکتوں سے نوازتے ہیں۔

        انہ من عبادنا المومنین (111)

        لفظ مومنین، یہاں اپنے حقیقی مفہوم میں ہے۔ فرمایا کہ بے شک ابراہیم ہمارے حقیقی مومن بندوں میں سے تھا۔ اس سے ایمان کی اصل حقیقت واضح ہوئی کہ حقیقی ایمان وہ ہے جس کے اندر اخلاص و احسان کی وہ روح ہو جس کی مثال حضرت ابراہیمؑ نے پیش کی۔ ہر مدعی کا ایمان اللہ کے ہاں درخور اعتناء نہیں ہے۔

تبصرے بند ہیں۔