اب غم کے سمندر ہیں رواں کوہِ گراں سے
محمد نعمت اللہ برہاروی
اب غم کے سمندر ہیں رواں کوہِ گراں سے
دل میرا بھی اب ٹوٹ گیا دردِ نہاں سے
ہر سمت یہاں پھر سے بہت ابر ہے چھایا
ابھرا ہے عجب عکس یہاں فصل خزاں سے
پھر آج چمن میں تو بہت پھول کھلے ہیں
توڑے نہ کوئی بھی غنچے کو یہاں سے
اک بار ذرا دیکھیے دلکش یہ نظارا
منظر یہ ہوا کتنا حسیں آبِ رواں سے
دشمن تو مرا گھات میں ہر سمت کھڑا ہے
مشکل سے گزرنا ہے بہت مجھ کو یہاں سے
نظروں سے مرے اب تو بچا کوئی نہیں ہے
میں نے یہ سنا اپنے ہی دلبر کی زباں سے
کتنے ہیں دیے درد ترے ہجر نے مجھکو
نعمتؔ وہ بیاں کیسے کرے سارے جہاں سے
تبصرے بند ہیں۔