اتنی کشش ہے کیونکر مولا پانی میں

آخر کس کا عکس ہے ابھرا پانی میں

ذکی طارق بارہ بنکوی

( سعادت گنج، بارہ بنکی، اترپردیش)

اتنی کشش ہے کیونکر مولا پانی میں

آخر کس کا عکس ہے ابھرا پانی میں

۔

یونس کو مچھلی نے نگلا پانی میں

تب بھی تھا اللہ پہ بھروسہ پانی میں

۔

شاہی قلعے کو راکھ کرے گا جو اکدن

ایسا شعلہ دیکھا تیرتا پانی میں

۔

آیا تھا آندھی کے جھونکے کی صورت

جس نے اپنا گھر ہے بنایا پانی میں

۔

اپنا تپتا ہوا بدن دھویا شاید

لو کا بنتا تبھی بھبھوکا پانی میں

۔

آجا ہم بھی قطرہ قطرہ فرحت لیں

سارا عالم جب ہے ڈوبا پانی میں

۔

اترا ہے روشن چندا اس میں یا پھر

اس نے اپنا کنگن پھینکا پانی میں

۔

آؤ گے کب میرے جزیرے پر ہمدم

یا پھر تم کو ہے بس رہنا پانی میں

۔

آخر اس میں کون نہانے آیا تھا

کس نے اتنا نشّہ گھولا پانی میں

۔

اب کے برس سیلاب کچھ ایسا آیا ہے

ڈوب گیا ہے سارا اثاثہ پانی میں

۔

آؤ ہم تم آپس میں ضم ہوجائیں

رنگوں کا جیسے ہو گھلنا پانی میں

۔

جانے کیسی کیسی ہے اس میں مخلوق

یعنی اک آباد ہے دنیا پانی میں

۔

آنکھوں نے اس سے پہلے دیکھا ہی نہ تھا

جانے کیسا منظر ابھرا پانی میں

تبصرے بند ہیں۔