عید الاضحیٰ: ضروری ہدایات 

ندیم خان

اس وقت پوری دُنیا  سخت آزمایش کا شکار ہے کہ ایک نظر نہ آنے والے مہین سے وائرس نے، جسے ’’کورونا‘‘ کا نام دیا گیا ہے، نوعِ انسانی کو اپنے شکنجے میں یوں جکڑ رکھا ہے کہ ہر فرد خود کو بےبس ومجبور محسوس کررہا ہے۔ قرآنِ پاک کے مطالعے سے واضح ہوتا ہے کہ آزمایش کے اصول پر بنی اس دُنیا میں اگر اللہ چاہے، تو اپنی مخلوق کو مختلف طریقوں سے تنبیہ کرسکتا ہے، تو یہ اللہ کی طرف سے انتہائی سخت وارننگ ہی ہے،جو یقیناً اس کی ناراضی ظاہر کررہی ہے۔ اب یہاں سوال یہ جنم لیتا ہے کہ اس کی وجہ کیا ہو سکتی ہے؟تو درحقیقت ہماری نیکیوں، عبادات کی وہ روح باقی نہیں رہی، جو اللہ پروردگارِعالم کو مطلوب ہے۔ حق تلفی، ناحق زیادتی، فواحش، ایسا کون سا عمل ہے، جو اس معاشرے میں بُرا سمجھا جاتا ہو اورعام نہ ہو۔ دین و دُنیا دونوں ہی کے معاملات میں ہماری سرکشی و لاپروائی عروج پر ہے۔ تو بلاشبہ اللہ ہم سے سخت ناراض ہے، اور اب ہمیں اُسے راضی کرنا ہے۔

عیدالاضحی ایک انتہائی بامقصد اور یادگار دِن ہے، اس دِن کی دُعائوں کی قبولیت کا عندیہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے دیا گیا ہے، لہٰذا ہمیں چاہیے کہ روزِ عید ہم سب مل کر توبہ استغفار کریں۔ زبانی نہیں، عملی توبہ۔ پروردگار کے حضور  گڑگڑا کر دُعا کریں، اپنی کوتاہیوں، گناہوں کی معافی طلب کریں اور اپنے رب کو راضی کرنے کی ہر ممکن کوشش کریں۔ یاد رہے، دُنیا کی ابتدا ہی سے ’’قربانی‘‘ تمام مذاہب کا ایک لازمی حصّہ رہی ہے۔ یہ اللہ کے حضور جان کی نذر ہے، جو کسی جانور کو قائم مقام ٹھہرا کر پیش کی جاتی ہے۔ آسمانی صحائف سے معلوم ہوتا ہے کہ قربانی کی تاریخ کا آغاز حضرت آدم علیہ السلام سےہوا۔ قرآن میں ہابیل اور قابیل کے قصّے میں اس قربانی کا تذکرہ ملتا ہے۔ بائبل میں اس کی تفصیل اس طرح ہے کہ قابیل پھلوں کا تحفہ خداوند کے لیے لایا اور ہابیل نے اپنی بھیڑ، بکریوں کے پہلوٹھوں اور ان کی چربی کا ہدیہ خداوند کے حضور پیش کیا۔ خداوند نے ہابیل اور اس کے ہدیے کو قبول کرلیا، جب کہ قابیل کے ہدیے کو قبول نہ کیا۔ اُس وقت قبولیت اور عدم قبولیت کا کیا طریقۂ کار اختیار کیا گیا؟ اس حوالے سے کئی آراء پائی جاتی ہیں۔ تاہم، سورۃ آل عمران کی آیت183میںواضح اشارہ موجود ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسانی فطرت میں اپنی ذات کے شعور کو یقین و ایمان کے درجے تک لانے کے لیے، ابتدا میں نذرو قربانی کی قبولیت کا یہ طریقہ اختیار کیا کہ آسمان سے آگ آتی اور لوگوں کی طرف سے پیش کی گئی نذرو قربانی کو کھا جاتی۔ بہرحال،حضرت ابراہیم علیہ السلام کے اس واقعے کے بعدقربانی کو ایک خاص اہمیت اور ہمہ گیری یوں حاصل ہوئی کہ حضور ِ پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے سنّت کا درجہ دے دیا۔ قرآنِ پاک اور دیگر سابقہ صحائف میں بھی یہ واقعہ بیان کیا گیا ہے کہ حضرت ابراہیم ؑنے جب اللہ کے حضور گڑگڑا کر دُعا کی تو اللہ نےانہیں تقریباً90برس کی عُمر میں حضرت اسمعیلؑ کی صُورت ایک بیٹا عطا کیا،جس کی انہوں نےبہت لاڈ و پیار سے پرورش کی، یہاں تک کہ حضرت اسمعیلؑ اپنے والد حضرت ابراہیم ؑ کا ہاتھ بٹانےکے قابل ہوگئے۔ پیرانہ سالی میں پہلے فرزند کی پیدایش سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ یہ بیٹا کتنا عزیز ہوگا، مگر حقیقی مسلمان تو وہی ہے، جسے اللہ کی رضا اور خوش نودی سے بڑھ کر دُنیا کی کوئی چیز عزیز نہ ہو۔ حتیٰ کہ وہ جان تک کی بھی پروا نہ کرتاہو۔ یہی وجہ تھی کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام، خواب میں اشارہ پاتے ہی اپنے اکلوتے اور پیارے فرزند کو خود اپنے ہی ہاتھوں قربان کرنے کے لیے تیار ہو گئے۔ بیٹے کاحوصلہ پرکھنے کے لیےجب انہوں نے اپنا خواب سُنایا،تو حضرت اسمٰعیل ؑ نے اسےخواب نہیں، بلکہ پروردگار کا حکم سمجھا اور کہا،’’آپ بے دریغ اللہ کے اس حکم کی تعمیل کریں،آپ مجھے ثابت قدم پائیں گے، ان شاءاللہ۔ ‘‘ اس جواب سے مطمئن ہو کر سیّدنا ابراہیم علیہ السلام بیٹے کوحرم کے قریب ہی مروہ پہاڑی کے پاس لے گئے اور قربانی کے لیے ماتھے کے بل زمین پر لٹادیا۔ تکمیلِ احکامِ خداوندی میں قریب تھا کہ ان کے ہاتھ سے چُھری چل جاتی، اللہ کی طرف سے ندا آئی،’’اےابراہیمؑ ! تم نے خواب سچ کر دکھایا۔ ‘‘بیٹے کی قربانی فی الواقع بہت بڑی آزمایش تھی، جس پرحضرت ابراہیم ؑ پورے اُترے، انہیں انسانوں کا امام و پیشوا بنایا گیا۔ پھر اس واقعے کی یادگار کے طور پر ہر سال، اسی دِن اس قربانی کی سنّت ہمیشہ کے لیے قائم کر دی گئی۔ یہی قربانی ہے، جس کا اہتمام ہم حج اور عید الاضحی کے مواقع پر کرتے ہیں۔ قربانی کی اس یاد کو منانے کا مقصد بھی یہی ہے کہ مسلمانوں کے اندر قربانی کی وہی حقیقی روح، ایمان کی کیفیت اور اپنے ربّ کے ساتھ محبّت و وفا داری کا جذبہ پیدا ہو، جس کا عملی مظاہرہ حضرت ابراہیمؑ کی پوری زندگی میں دیکھنے میں آتا ہے۔ اگر کوئی مسلمان اس شعور کے بغیرجانورقربان کرتا ہے، تو وہ اس جانور کا ناحق خون بہاتا ہے، جس کی اللہ کو کوئی ضرورت نہیں کہ قرآنِ پاک میں ارشاد ہے، ’’اللہ کو ان جانوروں کا گوشت اور خون نہیں پہنچتا، بلکہ تمہارا تقویٰ پہنچتا ہے۔ قرآنِ کریم میں قربانی کا حکم ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے، ’’ہر اُمّت کے لیے ہم نے قربانی کا ایک قاعدہ مقرر کر دیا ہے، تاکہ (اس اُمّت کے )لوگ ان جانوروں پر اللہ کا نام لیں، جو اس نے انھیں بخشے ہیں۔ ‘‘ حضرت عبداللہ ابنِ عُمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضو رِ پاکﷺ مدینہ منورہ میں دس سال رہے اور اس عرصے میں آپ نے ہر سال قربانی فرمائی۔

دینِ اسلام میں محض مسلمانوں کی مذہبی زندگی ہی نہیں، تمدّنی و معاشرتی زندگی سے متعلق بھی احکامات دیے گئے ہیں اور کچھ آداب بھی مقرر فرمائے گئے ہیں۔ تاہم، موجودہ دَور میں عید کے تہواروں میں نہ صرف غیر اسلامی افعال شامل ہوگئے ہیں، بلکہ جاہلیت کی کئی رسومات بھی دَر آئی ہیں،لہٰذا مسلمانوں کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے صحابہ کرام ؓ کے اسوہ کے مطابق ہی یہ دینی تہوار منانا چاہیے،جس کے مطابق عید کے روز صبح سویرے غسل کرکےنئے یا کم از کم دُھلے ہوئے کپڑے زیبِ تن کیے جائیں۔ حضور ؐ نے یہ ہدایت بھی فرمائی کہ عید گاہ سے واپس آتے ہوئے، ممکن ہو توراستہ تبدیل کرلیں۔

قربانی کے جانور کی خریداری سے لےکر دیکھ بھال تک سماجی فاصلے کی برقراری آسان امر نہیں۔ تاہم، کوشش کریں کہ احتیاط کے سارے تقاضے پورے ہوں۔ پھر گزشتہ کئی برسوں سے عید الاضحی کے موقعے پر جانوروں کی کھالوں میں پرورش پائے جانے والےTick Virus کے پھیلنے کی اطلاعات بھی موصول ہو رہی ہیں،لہٰذا احتیاط کے پیشِ نظر کم سن بچّوں کوجانوروں سے حتی الامکان دُور ہی رکھیں۔ نیز، امسال کوشش کریں کہ قربانی خود اپنے ہاتھوں سے کریں، تاکہ کورونا وائرس پھیلنے کے امکانات کم سے کم ہوں۔

عیدالفطر ہو یا عیدالاضحی، اللہ کے ذکر و شُکر کے ساتھ تفریح کا بھی موقع ہے اور نیز، نبی کریم حضرت محمّد صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں ان تہواروں کے ذریعے ایک تہذیب و تمدّن کے رشتے میں پرونا بھی چاہتے تھے،لہٰذا ان تہواروں کو صرف کھیل کود اور لُطف و تفریح ہی تک محدود نہ رکھیں، بلکہ ان کے ذریعے اعلیٰ اخلاق، معروف کی دعوت اوردینِ اسلام کی نصرت جیسے اعلیٰ مقاصد کے حصول کی بھی کوشش کی جائے۔ نیز،دینِ اسلام کی انہی ہدایات کے پیشِ نظر اس مذہبی تہوار کی حقیقت اور اس کو منانے کے صحیح طریقوں سے بچّوں کو بھی آگاہ کیا جائے۔ عیدین پر تقریباً سب ہی صاحبِ استطاعت افراد اپنے اور اپنے بچّوں کے لیے کپڑوں، جوتوں کی خریداری کا اہتمام کرتے ہیں، لیکن ایسے مواقع پر اپنے گر دوپیش موجود اُن افراد کا بھی خیال رکھا جائے، جو وسائل کی کمی کے باعث ان خوشیوں میں شریک نہیں ہو سکتے۔ نیز، قربانی کے تمام تر مراحل، گوشت کی تقسیم، کھانوں کی تیاری، دعوتوں کے اہتمام وغیرہ میں  ہر قدم تمام احتیاطی تدابیر پر لازماً عمل کریں کہ ایسا نہ ہو ہماری غفلت سے ہم خودیا ہمارا کوئی پیارا اس وبا کی لپیٹ میں آجائے۔ قربانی کے حوالے سے بات کریں تو اس ضمن میں حضور نبی کریم ؐ کی سنّت کے مطابق قربانی سے قبل اپنے ناخن کاٹے جائیں اور نہ ہی بال کتروائے جائیں۔ قربانی کاوقت10ذوالحجہ کو نمازِعید کی ادائی کے بعد شروع ہوتا ہے۔ جب کہ قربانی کے جانور سے متعلق تاکید فرمائی گئی کہ یہ جانور ہر قسم کے نقص سے پاک ہو۔ بکرا یا بکری کم از کم ایک سال، بیل یا گائے دو سال، اونٹ اور اونٹنی کم از کم پانچ سال، جب کہ بھیڑ اور مینڈھا چھے ماہ کا ہونا چاہیے۔ بکرے اور دنبے کی قربانی انفرادی کی جائے، جب کہ بیل، گائے اور اونٹ کی قربانی میں ایک سے زائدافراد شریک ہو سکتے ہیں۔ البتہ، سب حصّے داروں کی نیّت قربانی ہی کی ہونی چاہیے کہ اگر کسی ایک کا بھی مقصد قربانی نہیں، محض گوشت کاحصول ہو، توسب کی قربانی نہیں ہوگی۔ قربانی کےگوشت کےتین حصّے کیے جائیں۔ ایک اہل و عیال کے لیے ہو، ایک رشتے داروں، دوستوں کے لیے رکھا جائے اور ایک حصّہ غریبوں میں تقسیم کردیا جائے۔ قربانی کا گوشت فروخت کرنا یا قسائی کو اجرت میں دینا کسی طور درست نہیں۔ نیزقربانی کی کھال بھی صدقہ کر دی جائے۔ علاوہ ازیں، قربانی کے جانور کو خود ذبح کرنے کی بہت فضیلت ہے۔ اگر خود ذبح کرنا ممکن نہ ہو، تو اس عمل میں شرکت ضرور کی جائے۔ یہ بھی تاکید کی گئی ہے کہ ایک جانور کو دوسرے جانور کے سامنے ذبح نہ کیا جائے۔ تزکیہ کا اسلامی طریقہ ذبح یا نحر ہے اور ان دونوں طریقوںکا مقصد گوشت کو خون کی نجاست سے پاک کر نا ہے۔ حلال جانور میں صرف بہتا ہوا خون ہی حرام ہے یا وہ چند چیزیں مکروہات میں سے ہیں، جن کو انسانی فطرت پسند نہیں کرتی۔ قربانی کے موقعے پرعموماً جانوروں کی آلائشیں اور دیگر فضلات سڑکوں، گلی، محلّوں، چوراہوں اور نالیوں میں پھینک دیئے جاتے ہیں جوجراثیم کی افزایش اور خطرناک بیماریوں کا باعث بنتے ہیں،لہٰذا قربانی کی آلائشیں انتظامیہ کی جانب سے رکھے گئے کچرا دانوں میں ڈالیں اور جن علاقوں میں ایسا کوئی معقول انتظام نہ ہو، وہاں اپنی مدد آپ کے تحت انفرادی یا اجتماعی طور پر ان آلائشوں کو آبادی سے دُور پھینک دیں، تاکہ ماحول آلودہ نہ ہو۔

حضورِ پاک ﷺ نے قربانی کاگوشت پسند فرمایا ہے۔ حجتہ الوداع کے موقعے پرآپ ﷺنے 100اونٹ قربان کیے۔ اونٹ کا گوشت عربوں کی پسندیدہ غذا تھی۔ حضورِ پاکﷺعام دِنوں میں اور قربانی کے گوشت کوبھی مختلف طریقوں سے کھانا پسند فرماتے۔ مختلف روایات کے مطابق حضور ؐنے اُبلا ہوا گوشت بھی کھایا ہے، توکوئلوں پر بُھنی ہوئی کلیجی بھی تناول فرمائی۔ عبداللہ بن مسعودؓ سے روایت ہے کہ حضورﷺکو دستی کا گوشت زیادہ پسند تھا۔ عربوں کی ایک خاص ڈش، جو گوشت کو پانی میں اُبال کر اور اُس میں جَو کا آٹا ملا کر بنائی جاتی ہے، اُسے بھی حضورؐ نے پسند فرمایا۔ قدیم دَور میں گوشت محفوظ کرنے کے لیے دھوپ میں سکھایا جاتا تھا اورحضورﷺنے خشک کیا ہوا یہ گوشت بھی کئی بار تناول فرمایا، لہٰذا کوشش کریں کہ اس عیدالاضحی پر اُن پکوانوں کو بھی دسترخوان کی زینت بنائیں، جنہیں ہمارے پیارے حضور نبی کریمﷺنے پسند فرمایا ہے۔ دیکھا گیا ہے کہ جب دسترخوان پر گوشت کے لذیذ، چٹ پٹّے پکوان چُنے ہوں، تو ہاتھ روکنا قدرے مشکل ہوجاتا ہے اور عید الاضحی کے موقعے پر کھانے میں یہی بےاعتدالی، غیر محتاط رویّہ مختلف امراض کو دعوت دے دیتا ہے، لہٰذا کوشش کریں کہ اعتدال کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑیں اور گوشت کے ساتھ سبزیوں، پھلوں کا استعمال بھی لازماً کریں، تاکہ توازن قائم رہے۔ پھر چوں کہ عیدِ قرباں پر کھانے کا سلسلہ وقفے وقفے سے جاری رہتا ہے، تو خاص طور پر ذیابطیس، بُلند فشارِ خون اور معدے کے عوارض میں مبتلا مریض گوشت اور مرغّن کھانوں کے استعمال میں خاص احتیاط برتیں۔ ذیابطیس کے مریض اگر گوشت کا زیادہ استعمال کرلیں اور طبیعت بہتر محسوس نہ ہو، تو کچھ دیر کے لیے تیز رفتاری سے چلیں، تاکہ خون میں شکر کی مقدار معمول پر آجائے۔ بُلند فشارِ خون اور معدے کے السر کے مریض تلا ہوا گوشت کھانے کی بجائے کوئلوں پر بھون کر یا اُبال کر کھائیں۔ نیز، ہائی بلڈ پریشر کے مریض نمک کم سے کم استعمال کریں اور سلاد کا استعمال ضرور کریں۔ ساتھ کچھ آرام بھی کریں۔ ایسے تمام افراد، جو پہلے سے کسی مرض کا شکار ہیں اگر تمام احتیاطی تدابیر اختیار کرنےکے باوجود طبیعت بہتر محسوس نہ کریں، تو اپنے معالج سے لازماًرجوع کرلیں.

تبصرے بند ہیں۔