اردو پر برہمن واد کا غلبہ

عادل فراز

حقیقت یہ ہے کہ زبان کسی کی ملکیت نہیں ہوتی۔ ہر زبان کسی ایک قوم یا ملک سے مخصوص ہوسکتی ہے مگر وہ زبان ہرگز اس ملک یا قوم کی ذاتی ملکیت نہیں ہوسکتی۔ جیسے ہندی، ہندوستان کی قومی زبان ہے۔ لیکن ہندی، فقط ہندوئوں کی زبان نہیں ہے۔ اسی طرح اردو کو پاکستان کی قومی زبان کا درجہ حاصل ہے مگر اردو صرف مسلمانوں کی زبان نہیں ہے۔ اردو زبان کی آبیاری اور نشوونما میں سبھی کا حصہ ہے۔ خواہ وہ ہندو ہوں یا مسلمان۔ دیگر قوموں کے افراد نے ہمیشہ اردو زبان کی بے لوث خدمت کی ہے۔ اس زبان میں اخبارات نکالے، شاعری کی، ناول اور افسانے لکھے۔ غرضکہ ہر صنف سخن میں بے لاگ خدمات انجام دیں۔ آج بھی اردو کے ایسے چاہنے والے موجود ہیں جو ذات پات اور مذہب کی قید کے بغیر اسکی بقاء اور ترقی کے لئے کوشاں ہیں۔ مگر ایک مخصوص لابی ہے جو اردو کو سیاست کے تحت ختم کرنا چاہتی ہے۔ اس لابی نےہندوستان کی فرقہ پرستانہ سیاست کی کوکھ سے جنم لیاہے۔ ہندوستان کے مختلف علاقوں میں اب تو ہندی کے خلاف بھی آوازیں اٹھ رہی ہیں۔ اس کا یہ مطلب تو نہیں کہ ہندی زبان کو ختم کرکے کسی علاقائی زبان کو ہندوستانی کی قومی زبان کا درجہ دیدیا جائے۔ مگر ہم اس ذہنیت اور سیاست کے بھی مخالف ہیں جو اردو اور ہندی تنازع پیدا کرکے اردو کی سماجی حیثیت کو ختم کرنے کی فکر میں ہیں۔

اردو پر آج ایسے افراد کو مسلط کردیا گیاہے جن کا زبان سے کوئی رشتہ نہیں ہے۔ انہیں ایک مشن کے تحت پرموٹ کیا جارہاہے تاکہ اردو کے خلاف اردو والوں کو ہی کھڑا کردیا جائے۔

آرایس ایس کی منصوبہ بند سازش کے تحت برہمن لابی کا اردو پر غلبہ بڑھتاجارہاہے۔ یہ لوگ ایک ساتھ کئی منصوبوں پر کام کررہے ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ ہمارے بعض کم فہم افراد بھی انکی سازشوں کو سمجھے بغیر انکے دام فریب میں گرفتار ہیں۔ انکا پہلا مطالبہ یہ ہے کہ اردو دیگر زبان کے جاننے والوں کے درمیان بھی یکساں مقبول ہے۔ وہ بھی چاہتے ہیں کہ اردو زبان کے ادب سے مستفیض ہوں۔ لہذا ہمارے ادیب ایسے سہل و سادہ الفاظ کا استعمال کریں جو بہت عام فہم ہیں۔ تاکہ اردو نہ جاننے والے بھی اردو شاعری اور ادب کو سمجھ سکیں۔ در حقیقت یہ مطالبہ ایسے افراد کا ہے جو زبان کا لطف بغیر زبان کی تعلیم کے چاہتے ہیں۔ انہیں زبان کی تاریخ اور اس کی افادیت و اہمیت سے کوئی دلچسپی نہیں ہوتی بلکہ وہ جزوقتی تفریح (منورنجن) کے لئے اردو شعروادب کو پڑھنا یا سننا چاہتے ہیں۔ یہ لوگ بے تحاشہ پیسہ خرچ کرکے بڑے بڑے پروگراموں کا انعقاد کرتے ہیں جس میں بے تُکے شاعروں اور ادیبوں کو بلاکر تفریح کا سامان مہیا کیا جاتاہے۔ پروگرام کے یہی آرگنائزرزمطالبہ کرتے ہیں کہ ہمارے سامعین کو دھیان میں رکھتے ہوئے عام فہم زبان میں ادب لکھاجائے۔

سوال یہ ہے کہ اردو کس کی ضرورت ہے؟ اگر یہ لوگ واقعی اردو کے بے لوث عاشق ہیں تو عش کے ادب آداب کیوں بجا نہیں لاتے؟عاشق تو اپنی معشوق کے لئے گھر بار تک تج دیتے ہیں تو پھر یہ لوگ اردو زبان کیوں نہیں سیکھتے ؟وہ ادیب کے معیار تک آنے کی کوشش نہیں کرسکتے ادیب انکے معیار کا ادب تخلیق کرے، یہ مطالبہ اردو کے مخلص عاشق کیوں کررہے ہیں؟۔ اگر انہیں اردو سے عشق ہے تو زبان سیکھیں اور پھر اردو ادب سے بہرہ مند ہونے کی فکرکریں۔

دوسرا مطالبہ یہ ہے کہ اردو (خصوصاََ شاعری)کو دیوناگری لیپی میں تبدیل کردیاجائے۔ اردو کے ساتھ ساتھ اگر ان مطالب کو دیونا گری لیپی میں بھی لکھاجائے تو ایک مطلب زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہونچ سکتاہے۔ اس مطالبہ کے پیچھے بھی سازشی ذہن کارفرماہے۔ یہ مطالبہ در اصل اردو کو ختم کرنے کی سازش کا پیش خیمہ ہے۔ زبان کے مخلص کبھی اس طرح کا مطالبہ نہیں کرسکتے۔ اگر اردو کی اسکرپٹ تبدیل کردی گئی تو اصل زبان ہی ختم ہوکر رہ جائے گی۔ کسی بھی زبان کی بقاء کے لئے اس کے رسم کو باقی رکھنا ضروری ہوتاہے۔ آج وہ زبانیں ختم ہوچکی ہیں جنکا رسم الخط تبدیل کردیا گیاتھا۔ ۱۹۳۰ میں مصطفی کمال اتاترک نے ترکی کےعربی رسم الخط کو ختم کرکے لاطینی خط کو رائج کردیا۔ ان اصلاحات کے نتیجہ میں عربی اور فارسی کے الفاظ کی بڑی تعداد کو ترک زبان سے نکال دیا گیا۔ انکی جگہ ترک زبان کے مقامی لہجوں اور متروک الفاظ کو داخل زبان کیاگیا۔ اس کا نقصان یہ ہوا کہ ق، خ اور غ کی آواز ختم ہوگئی اور رفتہ رفتہ ترکی زبان اپنی اصلیت کھوبیٹھی۔

سوال یہ بھی ہے کہ اگر اردو کو رومن اسکرپٹ میں منتقل کردیا جاتاہے تو ہندی اور اردو میں کیا فرق رہ جائے گا یہ واضح کیا جائے؟ کیونکہ عام فہم اور عوامی اردو کا مطالبہ کرنےوالے اتنی ہی اردو رومن اسکرپٹ میں بھی سمجھ سکیں گے جتنی وہ ہندی زبان سمجھتے ہیں۔ بعض افراد کا یہ کہنا کہ اردو اور ہندی سے زیادہ مقبول ہندوستانی زبان ہے۔ تو سوال یہ ہے کہ یہ ’’ہندوستانی زبان‘‘ کیاہے ؟اس کا اپنا رسم الخط ہے یا نہیں ؟یا پھر یہ ’’ہندوستانی ‘‘ فقط بولی کی حد تک محدود ہے۔ اس کی تاریخ کیاہے ؟اس کی اپنی حیثیت کیاہے ؟اس’’ ہندوستانی ‘‘ نے کس زبان کی کوکھ سے جنم لیاہے ؟۔ ہمیں ’’ہندوستانی زبان‘‘کے فروغ پر کوئی اعتراض نہیں ہے مگر اس ’’ہندوستانی‘‘ کو اردو کے نام پر فروغ نہ دیاجائے۔ اردو بھی ہندوستانی ہے اور ہندوستانی بھی اردو کی ہی کوکھ سے نکلی ہے۔ اگر ’’ہندوستانی‘‘ کو اس لئے فروغ دیاجارہاہے تاکہ عوام اور خواص کے بھی ایک مخصوص طبقے کہ ہمدردی حاصل کرکے اردو کی اسکرپٹ تبدیل کردی جائے تو پھر اس ’’ہندوستانی ‘‘ کی اپنی کیا شناخت رہ جائے گی؟

اردو کے عاشقوں میں ہمیشہ بلاتفریق مذہب و ملت افراد شامل رہے ہیں۔ ہندوئوں نے اس زبان میں اخبارات نکالے، شاعری کی، ناول اور افسانے لکھے۔ کیونکہ انہیں کبھی یہ احساس نہیں ہوا کہ اردو مسلمانوں کی زبان ہے۔ انہوں نے ہمیشہ زبان کے طورپر اردو کی خدمت کی۔ آج بھی مذہب و ملت کی تفریق کے بغیر اسکے چاہنے والوں کی کمی نہیں ہے۔ مگر ہندوستان کی فرقہ پرستانہ سیاست کی بنیاد پر ایک مخصوس برہمن لابی اردو پر غلبہ چاہتی ہے۔ ایسے شاعر اردو میں شاعری کررہے ہیں جنہیں ہندی میں کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔ اگر انکی شاعری کا تنقیدی احتساب کیا جائے تو سوائے تک بندی اور سوقیانہ مفہوم کے اور کچھ نظر نہیں آئے گا مگر وہ اردو کے نام پر حکومت کرنا چاہتے ہیں۔ کالجوں اور یونیورسٹیوں میں اس لابی کو اردو شعبوں میں دیکھا جاسکتاہے۔ اردو کے نام پرجو کچھ اردو اداروں اور ادیبوں کو ملتاتھا اب یہ لابی حاصل کررہی ہے۔ آخر یہ لوگ ایسا کیوں کررہے ہیں؟جواب واضح ہے کہ وہ اردو کی ترقی کے بجائے اسکی نابودی کے لئے درپردہ سازشوں میں مصروف ہیں۔ یہ برہمن لابی اردو میں صرف اپنے بہی خواہوں اور ہم نظریہ افراد کو پرموٹ کرنےمیں لگی ہے۔ ہمارا المیہ یہ رہاہے کہ ہم نے ہمیشہ منافقوں اور دوچہرہ افراد کی پزیرائی کی ہے۔ اگراس لابی کی سازشوں کو طشت از بام نہیں کیا گیا تو وہ دن دور نہیں ہے جب یہ لابی اردو زبان کا جنازہ لیکر نکلے گی اورہم اس جنازہ کو کاندھا دینے کی ہمت بھی نہیں کرپائیں گے۔

تبصرے بند ہیں۔