اسلام میں عفو و درگزر کی اہمیت

ڈاکٹرسید وحید اللہ حسینی القادری الملتانی

          عفو و درگزر کرنا رحمانی صفت اور الٰہی طرز عمل ہے چونکہ ہم اللہ تعالی کے خلیفہ ہیں لہٰذا ہمیں بھی اس اخلاق ربانی سے اپنے کردار کو متصف و مزین رکھنا چاہیے۔ اللہ تعالی کے اسما حسنی میں ایک نام العفو ہے چونکہ وہ ہمارے سیئات کو مٹاتا ہے، گناہوں سے درگزر فرماتا ہے۔ علماء کرام فرماتے ہیں العفو اللہ تعالی کے اسمائے کریمی میں سے ہے جو اللہ تعالی کے نام غفور سے زیادہ عام ہے چونکہ غفور میں گناہوں کی پردہ پوشی کرنے کے معنی پائے جاتے ہیں جبکہ گناہ بندہ کے نامہ اعمال میں بدستور لکھا ہوا ہوتا ہے جبکہ العفو میں سزا کے محو ہونیکے ساتھ ساتھ گناہوں کے طبیعی آثار کے روح سے محو ہونے کے معنی بھی پائے جاتے ہیں اور گناہوں کو معاف کرنے و مٹانے کے ساتھ اس کے  اثرات کو بھی زائل کردینا، گناہوں کی سترپوشی کرنے اور معاف کرنے سے بہتر ہے۔ علاوہ ازیں جب اللہ تعالی اپنے بندوں کے گناہوں کو معاف فرماتا ہے تو نہ صرف اس کے گناہوں کو مٹادیتا ہے بلکہ بندہ اگر توبہ و استغفار کرنے کے بعد اپنے ایمان کو جلا بخشتا ہے اور اپنے کردار میں مثبت تبدیلی لاتا ہے تو اللہ تعالی اس کے گناہوں کو نیکیوں سے مبدل فرمادیتا ہے۔خطا کاروں اور قصورواروں سے فراخ دلی اور شفقت کے ساتھ معذرت قبول کرنا متواضعین اور شرفا کا خاصہ ہے اور مخالفین اور دشمنوں کی اذیتوں کو در گزر کرنا صحیح و سالم اور صالح معاشرے کی بنیاد ہے۔ جب مظلوم طاقتور اور فریق مخالف نادم، پشیمان اور عفو و درگزری سے صحیح معنوں میں فائدہ اٹھانے والا ہو تو اس وقت معاف کرنا دین اسلام میں قابل تعریف و مطلوب ہے۔

 دین اسلام ایسے کسی بھی عفو و درگزر کی تعلیم نہیں دیتا جس سے فریق مخالف کی حوصلہ افزائی ہوتی ہو یا وہ گناہوں کے ارتکاب میں مزید جری بن جاتا ہو۔ معاف کرنے سے یقیناً ضائع شدہ حقوق حاصل نہیں ہوتے لیکن دلوں سے نفرت، کینہ، بغض اور کدورت دور ہوجاتی ہے، انتقام لینے کا جذبہ ٹھنڈا پڑ جاتا ہے، نفس کی اصلاح کرنے میں آسانی ہوتی ہے، اجتماعی رابطوں میں استحکام پیدا ہوتا ہے جو اتحاد بین الناس کے لیے از حد ضروری ہے ایسی صورت میں عفو و بخشش سے کام لینا اصلاحی و تربیتی اقدام ہوگا یہی وجہ ہے کہ معاف کرنا اللہ تعالی کے نزدیک انتہائی محمود و پسندیدہ عمل ہے۔ اللہ تعالی نے اپنے محبوب پاکؐ کی وساطت سے تمام مسلمانوں کو مکارم اخلاق کی تعلیم دیتے ہوئے عفو و درگزر سے کام لینے کی تلقین کرتا ہے۔ اللہ تعالی فرماتا ہے جس طرح تم چاہتے ہو کہ رب کریم تمہاری خطائیں معاف فرمادے ایسے ہی تم پر بھی لازم ہے کہ احساسات و جذبات سے مغلوب ہوکر لوگوں کی غلطیوں پر سخت گیر نہ بنیں بلکہ ان کی کوتاہیوں سے صرف نظر کریں۔ حضرت انسؓ سے مروی ہے رسول اللہؐ نے فرمایا جب بندہ حساب کے لیے میدان حشر میں کھڑا ہوگا تو ایک منادی آواز دے گا جس کا اجر اللہ کے ذمہ ہے وہ کھڑا ہو ہوجائے اور جنت میں داخل ہوجائے، کوئی کھڑا نہ ہوگا پھر دوبارہ اعلان کیا جائے گا، پوچھا جائے گا کس کا اجر اللہ کے ذمہ ہے فرشتہ کہے گا یہ وہ افراد ہیں جو لوگوں کو معاف کرتے تھے پس ایسے لوگ کھڑے ہوجائیں گے اور بلا حساب کے جنت میں داخل ہوجائیں گے۔

بندہ مومن کو معاف کرنے کو ترجیح دینا اس لیے بھی ضروری ہے چونکہ جب انسان قصور وار کو سزا دینے میں حد اعتدال سے تجاوز کرتا ہے تو وہ خود بھی ظالم کی صف میں شامل ہوجاتا ہے اور قرآن مجید نے متعدد مرتبہ اس بات کی وضاحت کی ہے کہ اللہ تعالی ظلم کرنے والوں کو پسند نہیں فرماتا ۔اسی لیے دین اسلام میں معاف کرنے کو زیادہ پسند کیا گیا ہے۔ درگزر کرنے سے محبتیں پروان چڑھتی  ہیں اور ہر چھوٹی چھوٹی باتوں پر مواخذہ کرنے سے نفرتوں میں اضافہ ہوتا ہے۔ آج مسلم معاشرے پر نظر ڈالیں تو پتہ چلتا ہیکہ خشم و غضب سے مغلوب اکثر سربراہ اپنے ماتحتین سے انتہائی سخت گیر رویہ کے ساتھ پیش آتے ہیں یقیناً وہ شخص جو احکامات الہیہ کی خلاف ورزی کرتا ہے بطور تادیب اس کا مواخذہ ہونا چاہیے لیکن انسان کو اپنے ذاتی معاملات میں تکلیف و نقصان پہنچانے والے سے تساہل و درگزر، اغماض و چشم پوشی سے کام لینا مستحسن اقدام ہے چونکہ اس کا راست مثبت اثر لوگوں کے قلوب و اذہان اور افکار و خیالات پر پڑتا ہے اور انسان کے اس حسن سلوک سے گھروں، دکانوں اور نجی و تجارتی معاملات میں ایسی خوشگوار تبدیلی رونما ہوتی ہے جس سے ہر کوئی سکون و راحت محسوس کرنے لگتا ہے۔

 معاف کرنے کے جذبہ کو فروغ دینے کے لیے ضروری ہے کہ ہمارے ذہن میں یہ تصور بھی ہمیشہ مستحضر رہے کہ جیسے ہی ہماری زندگی کا چراغ بجھے گا ہماری قوت، طاقت اور سربراہ ہونے کی حیثیت ختم ہوجائے گی پھر ہم اپنے رب کے حضور مجرم کی طرح پیش کیے جائیں گے جہاں ہم اپنے رب سے معافی کے طلبگار ہوں گے اور اللہ تعالی قدرت کاملہ کے باوجود غلط کاروں اور مجرموں کو معاف فرما دے گا۔یہ تصور ہمیں غیر ضروری طور پر مشتعل و غضبناک ہوتے ہوئے ہلکے پن کا مظاہرہ کرنے کے بجائے انتہائی سنجیدگی و متانت کے ساتھ اپنے ماتحتین کو معاف کرنے کا سلیقہ سکھائے گا۔ فریق مخالف کو  معاف کرنے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہماری غلط سوچ ہے۔

 اکثر ہمیں یہ گمان ہوتا ہے کہ جب ہم کسی کی خطائوں و لغزشوں کو معاف کرتے ہیں تو اس میں صرف مستحق سزا کا فائدہ ہے لیکن درحقیقت اس میں معاف کرنے والا کا زیادہ فائدہ ہے چونکہ دنیا میں جو شخص اللہ تعالی کے بندوں کو معاف کرتا اللہ تعالی بروز محشر اس سے بہت آسان حساب لے گا۔ دنیا میں انسان کی لغزشوں سے درگزرنا کرنا  آخرت میں رب کائنات کی معافی کا مستحق بننے کا طاقتور محرک ہے اور اسی پر حصول جنت و جہنم سے نجات کا مدار ہے۔ حضرت ابو امامہؓ بیان کرتے ہیں کہ خاتم پیغمبراںؐ نے فرمایا جس نے قدرت کے باوجود کسی کو معاف کردیا تنگی کے دن (یعنی آخرت کے دن) اللہ تعالی اس کو معاف کردے گا۔ جب اللہ تعالی اپنے کمزور و ناتواں بندوں پر اتنا رحم و کرم فرماتا ہے تو انسان کو (جسے رب کائنات نے اپنا خلیفہ بناکر مکرم و معزز بنایا ہے) چاہیے کہ وہ اپنے ماتحتین کی خطائوں و لغزشوں کو درگزر کرے اور اپنے اقوال، اعمال اور کردار سے عفو درگزر کرنے کی ہر ممکن کوشش و سعی کرے تاکہ انسانی معاشرے سے نفرتوں کا خاتمہ ہوجائے۔  ہر مسلمان چاہتا ہے کہ بروز محشر اللہ تعالی اس کی خطائوں اور لغزشوں سے درگزر فرماکر اس کے ساتھ معافی کا معاملہ فرمائے۔

یقینا یہ آرزو و توقع ہر مسلمان کو حسب ذیل وجوہ سے رکھنی چاہیے پہلی وجہ نبی کریمؐ نے تمام مسلمانوں کو نصیحت فرمائی کہ یہ دعا کثرت سے مانگے اے اللہ بے شک تو درگزرکرنے والا مہربان ہے درگزر کو پسند کرتا ہے ہمارے ساتھ درگزر فرما۔ دوسری وجہ کائنات کی ہر چیز جس طرح ا س کے رحم و کرم کی محتاج ہے اسی طرح ہر چیز اس کی مغفرت و معافی کی بھی محتاج ہے۔ تیسری وجہ یہی وہ ذات ہے جس کے عفو کا نہ حساب ہے اور نہ شمار۔ چوتھی وجہ یہ ہے کہ قصور وار کو معاف کرنا نبی رحمتؐ کی سنت ہے۔ روایت میں آتا ہے کہ جنگ بدر میں پکڑے گئے قیدیوں کے ساتھ حسن سلوک کرنے کی رسول رحمتؐ نے اپنے صحابہ کو تلقین فرمائی اور ارشاد فرمایا خود بھوکے رہنا لیکن انہیں پیٹ بھر کے کھانا کھلانا۔ لیکن کتنے ایسے مسلمان ہیں جو اسی رب کے بندوں کی کوتاہیوں کو معاف کرنے کے لیے آسانی سے تیار ہوجاتے ہیں اس جانب بھی ہمیں توجہ کرنی چاہیے۔ روایت میں آتا ہے کہ دنیا میں رب کے بندوں کو معاف کرو اللہ تعالی تمہیں اس وقت معاف فرمائے گا جب اس کے سوائے کوئی معاف کرنے والا نہ ہوگا۔ اور ایک روایت میں آتا ہے کہ گوشہ نشینی میں عبادت کرنے سے بہتر وہ شخص ہے جو لوگوں سے میل جول رکھتا ہو اور ان سے پہنچنے والی اذیتوں پر صبر کرتا ہے۔

اس روایت سے یہ نتیجہ آسانی اخذ کیا جاسکتا ہے کہ اگر کوئی شخص کسی کے ساتھ برائی کا برتائو یا معاملہ کرتا ہے اور وہ قوت و طاقت رکھنے کے باوجود صبر کا مظاہرہ کرتا ہے اور اس شخص کی نادانیوں کو معاف کردیتا ہے تو اس کا مقام  و مرتبہ اس شخص سے بہتر ہے جو گوشہ نشینی میں رب کی عبادت کرتا ہے۔ کسی کو معاف کرنا ہر کس و ناکس کی بات نہیں ہے بلکہ وہی انسان معاف کرسکتا ہے جو عزم صمیم و آہنگی ارادہ رکھتا ہو ضعیف شخص ہمیشہ انتقام لینے پر آمادہ رہتا ہے۔ انتقام لینا مسلمان کے لیے اس لیے بھی مناسب نہیں ہے چونکہ نبی کریمؐ نے نصیحت فرمائی کہ اپنے مسلمان بھائی کے ساتھ کشادہ روئی کے ساتھ ملاقات کرو۔ جو شخص قوت و طاقت رکھنے کے باو جود لوگوں کی زیادتیوں و مظالم کو معاف کردیتا ہے تو اللہ تعالی اسے بہترین اجر و ثواب عنایت فرماتا ہے چنانچہ روایت میں آتا ہے کہ جب رسول محتشمؐ نے جنت میں اونچے اونچے محلات کا مشاہدہ فرمایا تو جبرئیل سے سوال کیا یہ کن لوگوں کے لیے بنائے گئے ہیں! جبرئیلؑ نے جواب دیا یہ ان لوگوں کے لیے ہے جو غصے کو پی جاتے ہیں اور لوگوں کو درگزر کرتے ہوئے انہیں معاف کردیتے ہیں۔آخر میں اللہ تعالی سے دعا ہے کہ بطفیل نعلین پاک مصطفیﷺ ہمیں قرآن اور صاحب قرآن ﷺ کی تعلیمات کے مزاج کو سمجھنے اور اس کے مطابق عمل کرنے کی توفیق رفیق عطا فرمائیں۔آمین ثم آمین بجاہ سید المرسلین طہ و یسین۔

تبصرے بند ہیں۔