کووڈ کے دور سے چند دروس

سالک ادیب بونتی عمری

کروناوائرس کس تیزی سے ابھرا اورعالم پراس کے کیسےبھیانک اثرات مرتب ہوئے اور ہورہےہیں اس سے کون واقف نہیں !۔ ترقی یافتہ دنیاکاےغرورکاآفتاب ایک پل میں ڈوب گیا، انسانی ارتقا اورمیڈیکل سائنس کی ترقی دھری کی دھری رہ گئی اورتاحال بچاؤکی کوئی تدبیرہاتھ نہیں لگ سکی ہے، اس وائرس نےانسان کواس کی اوقات بتادی ہے۔

ہرسمت قیامت کےمنظرنےتوانساں کو
انسان کی کتنی ہے اوقات بتادی ہے

اس پسِ منظرمیں صاف طورپر جواسباق ملتےہیں وہ درج ذیل سطورمیں ملاحظہ فرمائیں !

1-موت اچانک آئےگی:

یہ کائنات کی سب سےبڑی تسلیم شدہ حقیقت ہےکہ موت اچانک آئے گی، امیروغریب، حاکم ومحکوم، سفیدوسیاہ، نیک وبد اور اعلی وادنی سب اس حقیقت کوتسلیم کرتے ہیں مگرانسان اس سےغافل رہتاہے، کووڈ توبس ایک مثال ہے، قدرت کی ایک دھمکی  اور ایک سبق ہے کہ موت سرپرمنڈلارہی ہے اور اس سے تمھاراکسی بھی وقت سابقہ پڑسکتاہے۔

2-دنیاایک تماشاہے:

قرآن کریم میں اللہ رب العالمین نے فرمایا”اِعْلَمُوْۤا انَّمَا الْحَیٰوةُ الدُّنْیَا لَعِبٌ وَّ لَهْوٌ ..” جان جاؤکہ بےشک دنیوی زندگی توبس کھیل تماشاہے۔ کرونانے اہلِ دنیاکےسامنےاس اور اس جیسی کئی آیتوں کی تشریح کردی  کہ یہ دنیادل لگانےکی چیز نہیں ہے بلکہ سبق حاصل کرنےکی جگہ ہے۔

جگہ جی لگانےکی دنیانہیں ہے
یہ عبرت کی جاہے تماشانہیں ہے

3-زندگی ایک ہچکی:

کووڈنےواضح طورپراعلان کردیاکہ انسانی جان ایک ہچکی سےزیادہ حیثیت نہیں رکھتی، ایک پل میں صحت مند بیمار، ایک لمحےمیں توانا فریش اور ایک لحظہ میں زندہ مردہ میں تبدیل ہوسکتاہے۔

زندگی جس کابڑا نام سناجاتاہے
ایک کمزورسی ہچکی کےسواکچھ بھی نہیں

ہزاروں کی تعدادمیں میں اموات اور لاشوں کی تصویریں یہی بتاتی ہیں کہ سانسوں کی ڈوری بہت کمزورہے اور اس کےکٹنےمیں پلک جھپکنےسےبھی کم وقت لگتا ہے۔

4-مادیت سب کچھ نہیں :

کووڈ نےایک بڑادرس یہ بھی دیاکہ مادیت اور دھن دولت سب کچھ نہیں ، اگرمادیت کی کچھ حیثیت ہوتی تو دنیاکےامیرترین افرادہسپتال کےباہرتڑپ تڑپ دم نہ توڑتے، اگردولت سےانسانی زندگی میں واقعی فرق پڑسکتا تو کروڑوں کےمالک آکسیجن کوترس کرنہ رہ جاتے۔

5-انسانی ترقی کی حقیقت:

جب تک دنیاہےقدرت اپنی طاقت کےمظاہرپیش کرتی رہےگی، کروناسےقبل بھی مہلک امراض دنیاپرمسلط ہوئے اور ممکن ہے آئندہ بھی مسلط ہوں جن سےیہی درس ملتاہے کہ انسان اپنی ترقی پرچاہے جتنانازکرلے، اپنےعلم وتحقیق پر جتنےچاہےقصیدےلکھے اور اپنی حیثیت کوبلندکرنے پرجتنابھی زورلگالےباالآخراسےیہ تسلیم کرناہی ہوگا کہ قدرت کے سامنےوہ بےبس ہے، میڈیکل سائنس پرحکومت کرنےوالےممالک اورعلم وتحقیق کےمیدان میں اپنالوہامنوانےوالی کوئی بھی قوم ہو جب قدرت سبق سیکھانےپراترآئےگی تو انسانی ترقی بس ایک بےمعنی کہانی ہوکر رہ جائے گی۔

6-کم میں زندگی:

ایک اورسبق جو کروناکےسبب لاک ڈاؤن میں ہم میں سےہر انسان کوحاصل کرناچاہیےوہ یہ کہ دراصل ہمارے اردگرد دنیا میں کس قدر اصراف ہے اور ایک پرسکون زندگی گزارنے کے لیے حقیقتاً کس قدر کم چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے، بہت سےایسےافرادجوعیش ومستی کےبغیرایک لمحہ بھی نہیں گزارسکتےتھے اب وہ صرف تین وقت کےکھانے پربھی زندہ اورمطمئن ہیں ، کیایہ کافی نہیں ہےیہ سمجھنےکےلیےکہ جن اشیا کو ہم ضروریاتِ زندگی سمجھ بیٹھے ہیں دراصل وہ لگثری اور اضافی ہیں !
ہوٹلنگ سے لے کر قیمتی ملبوسات تک سب بھول گئے اور بس یاد رہا سودا سلف اور آٹا دال۔

7-انسان مجبورہے:

جب سے دنیامیں یہ مہلک وائرس نےاپناقہرمچایاہے تب سےآج تک اس نےبڑےزوروں پریہی داستان رقم کی ہے کہ انسان اپنےآپ میں کچھ نہیں بلکہ سراپامجبور، لاچار اور بےبس ہے۔

مزدوروں کادوردراز علاقوں سےگھرواپسی اور اس دوران دردناک حالات، آکسیجن کےلیےدردرکی ٹھوکریں ، ویکسین کےلیےلمبی قطاریں ، چاردیواری میں محصور زندگی، بےروزگاری، فاقےاور ایک دوسرےسےگریز یہی پیغام دیتےہیں کہ انسان کودنیوی طورپرسب کچھ مل بھی جائے تو وہ بےبسی کی لکیرعبور نہیں کرسکتا۔

8-زندگی ایک نعمت ہے:

کووڈ کاسب سےبڑا درس جس سےہرعقلمندکی آنکھیں کھل سکتی ہیں وہ یہ ہےکہ زندگی اللہ کی دی ہوئی سب سےبڑی نعمت ہے، کیایہ سچ نہیں کہ ہم اور آپ اگر کروناسے محفوظ ہیں تو یہ اللہ کاہم پر بہت بڑاکرم ہے!۔

آئےدن کروناکی نئی نئی شکلیں سامنےآرہی ہیں ، سائنسدانوں کےمطابق اب تو تیسری لہربھی سرپرہے، یہ پوری داستان تاریخ کاحصہ بن رہی ہے اور کل آنےوالی نسل یہ پڑھےگی کہ ترقی یافتہ دنیا اور خود کو”وشیوگرو”کہنےاورسمجھنےوالےملک پرایک وقت ایسابھی آیاتھاجس میں صرف زندہ رہنےکوہی کافی سمجھاگیاتھا۔

یہ چنداہم دروس تھےجوکروناکےدورسےحاصل ہوتےہیں ان کےعلاوہ بھی بےشماردروس حاصل کئےجاسکتےہیں مگرانسان ہےکہ خوابِ غفلت میں پڑا ہواہے۔

اللہ ہم سب کواپنےایمان کی سلامتی کےساتھ صحت وعافیت کی زندگی عطاکرے…آمین۔

تبصرے بند ہیں۔