اسلام کی پہلی ہجرت اور نجاشی کا دربار

محمد صابر حسین ندوی

مسلمان دن بدن مشرکین کے عتاب کا نشانہ بنتے اور کمزور ہوتے جارہے تھے، ظلم کا پہاڑ اس بے دردی کے ساتھ توڑا جارہا تھا کہ خود ظلم کو شرم آجائے، مرد تو مرد باندیاں اور عزت دار خواتین بھی محفوظ نہ تھیں، باپ، بیٹے اور آقا وغلام غرض ہر رشتہ خون آلود اور زخم آلود ہوچکا تھا، حضور اکرم ﷺ یہ سب دیکھ کر بہت افسوس کرتے، لیکن کوئی چارہ کار  نہ رہ گیا تھا، آپ دور دراز کوہ صفا پر موجود ارقم بن ابی الارقم مخزومی کے گھر ا’’دار ارقم ‘‘ میں اپنے اصحاب کو جمع فرماتے اور انہیں تسلی و تسکین کرتے تھے، یہ سنہ پانچ نبوی کی بات ہے، (ابن ہشام:۱؍۲۶۳)اہل مکہ اب حد سے زیادہ بڑھ رہے تھے، اور آپﷺ کی بے چینی بھی بڑھ رہی تھی، انہی سنگین حالات میں کفار سے مجادلہ بھی جاری تھی، سوال وجواب بھی ہورہے تھے، ایک مرتبہ حضور اکرم ﷺ سے اصحاب کہف کا قصہ دریافت کیا گیا، جس کی وجہ سے سورہ کہف نازل ہوئی، یہ سورہ اپنے آپ میں بہت سے اشارات و حکمت رکھتی تھی، اور مسلمانوں کیلئے بڑی تسلی کا ذریہ تھی۔

اس سورہ کے اندر اصحاب کہف کا تذکرہ ہے، یعنی وہ چند نوجوان جنہوں نے دین الہی کیلئے حکم وقت کی بغاوت مول لی، اس کے سامنے ڈٹ گئے اور اپنی جان کی پرواہ نہ کرتے ہوئے محض اپنے دین کی خاطر ایک غار میں پناہ گزیں ہوئے جہاں اللہ نے انہیں رہتی دنیا تک ایک معجزہ بنا دیا، اور ان کا ذکر بلند کردیا، تو وہیں اس میں حضرت موسی اور حضرت خضر علیھما السلام کا واقعہ ہے جو اپنے آپ میں بہت معنویت رکھتا ہے، اور بہت سے دروس و اسباق کا مجموعہ ہے، پھر ذوالقرنین کا بیان ہے، جو نیک دل اور نیک جان کے ساتھ خدا م، محبوب بندہ اور یاجوج ماجوج کیلئے قیامت تھا، ان سب کے اندر خدا کی عظمت، اس کی راہ میں ڈت جانے اور ساتھ زمین کی وسعتوں کا تذکرہ ہے، یہی وہ نقطہ تھا جس کی بنا پر آں حضرت ﷺ نے یہ محسوس کیا کہ صحابہ کرام کیلئے کسی محفوظ اور پر امن جگہ کی فکر کی جائے اور انہیں وہاں ہجرت کرنے اجازت ہو، جہاں وہ اسلام کی اتباع بھی کرسکلیں اور ا س تبلیغ و اشاعت بھی امن و شانتی کے ساتھ انجام دے سکیں۔

حضور اکرم ﷺ کو ’’اصمحہ‘‘ نجاشی شاہ حبش کے بارے میں خبر ملی، اور یہ معلوم ہوا کہ وہ امن پسند اور حقیقت پسند بادشاہ ہے، ا س کی رعیت میں ظلم و جور سے کام نہین لیا جاتا، حقوق نہیں مارے جاتے اور نا نہیں کسی پر ناحق ستم کیا جاتا ہے، اور کہ وہ ایک عدل پسند حکم ہے، آپﷺ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم اجمعین کو اجازت دی کہ فتنوں سے حفات اور دین کے تحفظ کیلئے حبشہ ہجرت کر جائیں، اس کے بعد ایک منصوبہ کے تحت سنہ پانچ نبوی میں صحابہ کرام کی ایک جماعت نے ہجرت کی، جس میں بارہ مرد اور چار عورتیں تھیں اور جس کے امیر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ تھے، ساتھ ہی آں حجرت ﷺ کی صاحبزادی حضرت رقیہ رضی اللہ عنھا بھی ساتھ تھیں، تاریخ میں یہ پہلا گروہ تھا جس نے اللہ کے راستہ مین ہجرت کی، یہ سب رات کی تاریکی میں راونہ ہوئے، رخ بحر احمر کی بندرگاہ شعیبہ کی جانب تھا، خوش بختی یہ رہی کہ وہاں دو تجارتی کشتیاں موجود تھیں، جو انہیں اپنے دامن عافیت میں لے کر حبشہ چلی گئیں، اور قریش کو معلوم ہوتے وہتے اتنی دیر ہوگئی کہ ان کا تعاقب بھی نہ کر سکے۔ (رحمۃ للعالمین:۱؍۶۱۔ زادالمعاد:۱؍۲۴)

قریش کو اس بات پر قلق تھا کہ مسلمانوں کی ایک جماعت سکون پاگئی اور ان کے شرور سے محفوظ ہوگئی، اس بے چینی کا اثر یہ ہوا کہ انہوں نے مسلمانوں پر مزید ظلم شروع کردئے، ہر ستم دوآتشہ ہوگئی، فرد وخاندان ہر ایک کو ستایا گیا، ایسے میں رسول اللہ ﷺ نے صحابہ کرام کو پھر ہجرت حبشہ کا مشورہ دیا؛لیکن اب یہ ہجرت آسان نہ تھی، کیونکہ کفار تیار تھے، مسلمانوں کو ہر طرح روکنے اور انہیں تشدد کی بھٹی میں جھونکنے کیلئے بیتاب تھے، لیکن اللہ کی نصرت کے آگے کس کی چلی ہے، اس دفعہ مسلمانوں نے بھی خوب تیاری کی اور پوری منصوبہ بندی کے ساتھ ہجرت کر گئے، اللہ نے سفر آسان کردیااور ہر صورت میں حبشہ پہونچ گئے، ادھر قریش ہاتھ ملتی رہ گئی، اس مرتبہ کل ۸۲ یا ۸۳ مردوں نے ہجرت کی اور ۱۸ یا ۱۹ عورتیں شامل تھیں۔

اس حادثہ نے مشرکین مکہ کی بے اظمینانی اور بڑھادی، ان سے کسی پل مسلمانوں کا سکون ہضم نہ ہوتا تھا، اور ہر حال میں اس امن کو فساد میں بدل دینا چاہتے تھے، اس لئے انہوں نے عمرو بن عاص اور عبد اللہ بن ربیعہ کو تیار کیا، یہ دونوں اپنی قوم کے بزرگ اور جربہ کار افراد تھے، کئی درباروں میں جاچکے تھے، غیر ملکی اسفار کا تجربہ اور ساتھ سیاست و سوجھ بوجھ میں بہت اعلی مقام رکھتے تھے، انہوں نے نجاشی اور ا سکے درباریوں کیلئے بڑی کشادگی کے ساتھ تحفہ تحائف بھی لے گئے، جس سے انہیں لبھا نے اور اپنے مطلوب میں مدد مانگنے کیلئے استعمال کیا جانا تھا، اور مقصد یہ تھا کہ کسی بھی صوت مین مسلمانوں کو واپس لانا ہے اور انہیں بے یار ومدد گار کردینا ہے، انہوں وہاں پہونچ کر اپنی بساط بچھائی ار پھر بادشاہ کے سامنے اپنا مدعی پیش کیا ا ور کہا: کہ ہماری قوم کے کچھ نوجوان اپنے ہی لوگوں سے اور ان کے دین سے بغاوت کرکے آپ کے ملک میں پناہ گزیں ہوگئے ہیں، وہ نہ آپ کا دین مانتے ہیں اور نا ہی ہمارے آباء و اجداد کا بلکہ وہ تو نیا دین لے کر آئے ہیں، ایسے میں بادشاہ نے مسلمانوں کو بلوایا اور ان سے صورت حال دریافت کی اور اپنے کسی ایک رہبر کو بات کرنے کی اجازت دی، اس وقت حضرت جعفر رضی اللہ نے اسلام کا تعارف اور اپنی کیفیت پرسوز و دل گداز انداز میں بتلائی، فرمایا:

’’اے بادشاہ!ہم جہالت میں مبتلا تھے، بتوں کو پوجتے تھے، مردار کھاتے تھے، بدکاریاں کرتے تھے، قرابت داروں سے سے تعلق توڑتے تھے، ہمسایوں سے بد سلوکی کرتے تھے، اور ہم میں سے طاقت ور کمزور کو کھا رہا تھا، ہم اسی حالت میں تھے کہ اللہ نے ہم ہی میں سے ایک رسول بھیجا۔ اس کی عالی نسبی، سچائی، امانت اور اپکدامنی ہمیں پہلے سے معلوم تھی۔ اس نے ہمیں اللہ کی طرف بلایااور سمجھایا کہ ہم صرف ایل اللہ کو مانیں اور ا سی کی عبادت کریں، اور ا سکے سوا جن پتھروں اور بتوں کو ہمارے باپ داد ا پوجتے تھے، انہیں چھوڑدیں۔ اس نے ہمیں سچ بولنے، امانت ادا کرنے، رشتوں کو جوڑنے، پڑوسی سے اچھا سلوک کرنے اور حرام کاری وخون ریزی سے باز رہنے کا حکم دیا، اور فواحش میں ملوث ہونے، جھوٹ بولنے، یتیم کا مال کھانے اور پاکدامن عورتوں پر جھوٹی تہمت لگانے سے منع کیا۔

اس نے ہمیں یہ بھی حکم دیا کہ ہم صرف اللہ کی عبادت کریں۔ اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں۔ اس نے ہمیں نماز، روزہ اور زکاۃ کا حکم دیا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اسی طرح حضرت جعفر رضی اللہ عنہ نے اسلام کی اور خوبیاں گنوائی اور پھر کہا:ہم نے اس پیغمبر کو سچا مانا، اس پر ایمان لائے، اور ا سکے لائے ہوئے دین خداوندی میں اس کی پیروی کی ؛ چنانچہ ہم نے صرف اللہ کی عبادت کی، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کیااورجن باتوں کو ا س پیغمبر نے حرام بتایا انہیں حرام مانا، اور جن کو حلال بتایا انہیں حلال مانا۔ اس پر ہماری قوم ہم سے بگڑ گئی۔ اس نے ہم پر ظلم و ستم کیا اور ہمیں ہمارے دین سے پھیرنے کیلئے فتنے اور سزاؤوں سے دوچار کیا؛ تاکہ ہم اللہ کی عبادت چھوڑ کر بت پرستی کی طرف لوٹ جائیں، اور جن گندی چیزوں کو حلال سمجھتے تھے، انہیں پھر حلال سمجھنے لگیں۔ جب انہوں نے ہم پر بہت قہر و ظلم کیا، زمین تنگ کردی اور ہمارے درمیان اور ہمارے دین کے درمیان رکاوٹ بن کر کھڑے ہوگئے تو ہم نے آپ کے ملک کی راہ لی، اور دوسروں پر آپ کو ترجیح دیتے ہوئے آپ کی پناہ میں رہنا پسند کیا اور یہ امید کی اے بادشاہ!آپ کے پاس ہم پر ظلم نہیں کیا جائے گا‘‘۔

اس کے حضرت جعفر رضی اللہ عنہ نے سورہ مریم کی ابتدائی آیات بڑے تاثر کے ساتھ سنائی، پورا مجمع متاثر تھا، خود نجاشی روتا تھا اور آپ کی داڑھی بھی تر ہوگئی تھی، نجاشی بے ساختہ بول اٹھا کہ یہ وہی کلام ہے جسے حضرت عیسی علیہ والسلام لیکر آئے تھے۔ قریش کے قاصدین نے یہ دیکھ کر گھبرائے اور انہیں محسوس ہونے لگا کہ معاملہ ہاتھ سے نکل رہا ہے، چونکہ نجاشی حضرت عیسی علیہ السلام کا معتقد تھا، ایسے میں انہوں غور و خوض کے بعد یہ اعتراض کیا مسلمان حضرت عیسی کے بارے میں بڑی بات کہتے ہیں، ان کا وہ عقیدہ (تثلیث) نہیں جو آپ کا ہے، چنانچہ نجاشی نے مسلمانوں سے پوچھا کہ وہ حضرت عیسی کے بارے میں کیا کہتے ہیں؟ یہ مرحلہ بہت ہی نازک تھا، اس سوال کے جواب پر سب کی نگاہیں ٹکی ہوئی تھیں، حضرت جعفر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:

’’ہم عیسی علیہ السلام کے بارے میں وہی کہتے ہیں، جو ہمارے نبی لے آئے، یعنی حضرت عیسی اللہ کے بندے، اس کے رسول، اس کی روح اور اس کا وہ کلمہ ہیں، جسے اللہ نے کنواری پاکدامن حضرت مریم علیہا السلام کی طرف القا کیا تھا‘‘۔ اس جواب پر نجاشی نے زمین سے ایک تنکہ اٹھایااور بولا:خدا کی قسم!جو کچھ تم نے کہا ہے، حضرت عیسی علیہ السلام اس سے اس تنکے کے برابر بھی بڑھ نہ تھے۔ اس کے بعد نجاشی نے مسلمانوں سے کہا:جاو! تم میری حکومت میںامن و امان سے رہو۔ جو تمہیں گالی دے گا، اس پر تاوان لگایا جائے گا۔ مجھے گوار ا نہیں کہ تم میں سے کسی آدمی کو ستاؤں اور ا س کے بدلے مجھے سونے کا پہاڑ مل جائے۔ پھر نجاشی نے اپنے درباریوں کو متوجہ کر کے کہا:ان دونوں کو ان کے ہدئے واپس کردو، مجھے ان کی کوئی ضرورت نہیں، خدا کی قسم! اللہ تعالی نے مجھے میرا ملک واپس کیا تو مجھ سے کوئی رشوت نہ لی تھی کہ میں اس کی راہ میں رشوت لوں۔

اللہ تبارک و تعالی نے اس طرح مسلمانوں کو امن فراہم کیا اور ایک طویل آزمائش کے بعد مسلمانوں کی ا س جماعت نے چین کی سانس لی، اور قریش کے قاصدین خالی ہاتھ لوٹ آئے، حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا جنہوں نے اس وقعہ کو بیان کیا ہے، کہتی ہیں:س کے بعد وہ دونوں اپنے ہدئے تحفے لئے بے آبرو ہوکر واپس چلے گئے اور ہم نجاشی کے پاس ایک اچھے ملک میں ایک اچھے پڑوسی کے زیر سایہ مقیم رہے(ابن ہشام ملخصا:۱,۳۳۴ تا ۳۳۸)، یہی وجہ ہے کہ حضور اکرم ﷺ نے ہمیشہ نجاشی کی قدر کی حتی کہ اس کی وفات پر غائبانہ نماز جنازہ بھی پڑھائی، یہ دراصل یہ ’’من لم یشکر الناس لم یشکر اللہ ‘‘ کا درس تھا۔ ﷺ

1 تبصرہ
  1. Suhail Ahmad کہتے ہیں

    इस मजमून में प्रूफ रीडिंग के अलावा बहुत सारी गलतियां हैं।

تبصرے بند ہیں۔