ٹریفک کا بڑھتا سیلاب 

وصیل خان

دلاور فگار نے آج سے کم و بیش ۷۵؍سال قبل ممبئی شہر کی صورتحال کی نہایت خوبصورت عکاسی کرتے ہوئے ایک نظم کہی تھی اس نظم کا ایک مصرعہ اس طرح تھا ’لندن و پیرس کی سوتیلی بہن ہے بمبئی ‘۔ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ آج سے ۷۵سال قبل یہ شہر اپنے ظاہری اور معنوی حسن کے اعتبار سے کتنا حسین و جمیل تھا کہ شاعر نےلندن وپیرس سے تشبیہ دیتے ہوئے اسے ان شہروں کے ہم پلہ قرار دیا تھا۔ یہاں کے حکام بھی ممبئی کو لندن وپیرس کی سوتیلی نہیں حقیقی بہن بنانے کی تیاریوں میں ہیں اس کے حسن و جمال میںبھی اضافہ ہوچکا ہے لیکن بے تحاشہ بڑھتی آبادی اور سڑکوں پر ٹریفک کی بہتات نے شہر کی خوبصورتی پرگہرا داغ سا لگادیا ہے۔ شہرمیں بھیڑ بھاڑ کا یہ عالم ہے کہ کسی بھی شاہراہ، سڑک یا گلی سے گزریں تو وہاں کھوئے سے کھوا چلتا دکھائی دیتا ہے ہر طرف ایک میلے اور جشن کا سماں نظر آتا ہےکسی بھی راستے سے آپ پانچ منٹ بھی سیدھے اور بے فکری سے نہیں چل سکتے انسانی بھیڑ( بلکہ اسے بھیڑ چال کہیں تو زیادہ مناسب ہوگا یعنی کسی کو کسی کی پرواہ نہیں، ہر کوئی سر دھنسائےادھر ادھر دیکھے بغیربس بھاگے جارہا ہے )اتنی کہ ہمہ وقت ایک دوسرے سے ٹکرانے یا ایکسیڈنٹ کا خطرہ سر پر منڈلاتا رہتا ہے۔ ایسے میں شہر و مضافات میں چاروں طرف سڑکوں کی کھدائی کا کام جاری ہے کہیں میٹرو کیلئے تو کہیں سڑکیں چوڑی کرنے کیلئے تو کہیں سیوریج لائن کو درست کرنے کیلئے غرضیکہ چاروں اور ایک ساتھ کھدائی کا یہ سلسلہ شہروالوں کیلئے کسی قیامت سے کم نہیں، جس کے سبب پورے شہر میں ہمہ وقت ٹریفک جام رہتاہے فی الحال سڑکیں کام کی نہیں رہ گئی ہیں ایسے میں پیدل چلنے والوں کیلئے فٹپاتھ آخری سہارے کے طور پر بچا ہوا تھا لیکن وہاں بھی غیر قانونی طور پر قبضوں کی بھرمارہے کچھ تو دوکان والےاور کچھ دوسرے لوگ راستہ روندھے ہوئے بیٹھے ہیں ایسے میں لوگ جائیں تو کہا ں سے جائیں۔

 ٹریفک کابڑھتا سیلاب اس وقت پوری دنیا کیلئے درد سر بنا ہوا ہے،ظاہر ہے ایسی صورت میں ممبئی شہر کیوں کر مستثنیٰ رہ سکتا ہےجس  کا شمارہندوستان ہی نہیں دنیا کے گنے چنے اور گنجان آبادی والے شہروں میں ہوتا ہے جس کی آبادی ایک کروڑسے بھی تجاوزکر چکی ہے اس کی سڑکیں ہمہ وقت ٹریفک سے بھری رہتی ہیں، فٹپاتھوں اور گلیوں میں انسانوں کا ہجوم ابلتا رہتا ہے ایسے میں موٹر بائیک سوار اس طرح کرتب دکھاتے پھرتے ہیں کہ اللہ کی پناہ !  ذرا چوکے تو جان گئی، گذشتہ دنوں ہمارے ایک شناسا بتانے لگے کہ ہمارے پڑوس میں ایک صاحب کو دل کاشدید دورہ پڑا انہیں فورا ً بذریعہ ٹیکسی مقامی اسپتال لے جایاگیا لیکن ٹریفک جام میں اتنی تاخیر ہوگئی کہ مریض ٹیکسی میں ہی جان سے ہاتھ دھو بیٹھا۔ گذ شتہ دنوں عجلت کے باعث ممبئی سینٹرل سے ناگپاڑہ کیلئے ہم نے ٹیکسی پکڑلی جام کے سبب کافی دیر تک جب ٹیکسی آگے نہ بڑھ سکی تو ڈرائیور کہنے لگا بھائی آپ یہیں اترجائیںاور پیدل چلے جائیں اس طرح آپ اپنی منزل مقصود پر جلدی پہنچ جائیں گے اور ٹینشن سے بھی نجات مل جائے گی ۔ ابھی پچھلے ہی مہینے کی تو بات ہے ہمیں کرلا ٹرمنس سے ٹرین پکڑنی تھی ہم نے دو گھنٹے قبل ٹیکسی پکڑی کہ آرام سے پہنچ جائیں گے لیکن ٹریفک نے وہ برا حال کیا کہ بس اللہ کی پناہ جیسے تیسے  ٹرمنس پہنچے توٹرین چھوٹنے میںصرف دو منٹ رہ گئے تھےکسی طرح ٹرین میں سوار ہوگئے اور اپنی خوش قسمتی پر خوش ہورہے تھے، اندازہ لگایئے نہ جانے کتنے لوگوں کو ٹرین چھوٹ جانے کی زحمت اٹھانی پڑتی ہوگی۔ اس طرح کے واقعات اب روز مر ہ کے معمول بن گئے ہیں جنہیں اب کچھ خاص اہمیت بھی نہیں دی جاتی، بے حسی اورخود غرضی شباب پر پہنچ چکی ہے۔

چند سال قبل جب سڑکوں پر اس طرح کا اژدہام نہیں ہوتا تھا ٹرینوں اور بسوں میں بہ آسانی جگہ مل جاتی تھی کہیں بھی وعدہ کے مطابق مقررہ وقت پرپہنچ جانا بہت آسان تھا لیکن اب صورتحال اس کے برعکس ہوگئی ہے اب کہیں بھی بروقت پہنچنے کا وعدہ نہیں کیا جاسکتا کیونکہ بہر صورت آپ وعدہ خلافی کے ہی مرتکب ہوں گے اب تو یہ بات عام ہوگئی ہے کہ دس بیس منٹ کا سفر بھی گھنٹوں میں مکمل ہوتا ہے اور ایکسیڈنٹ کا خطرہ تو ہر وقت سر پر منڈلاتا رہتا ہے، کسی شاعر نے اس صورتحال کا کتنا درست تجزیہ کیا ہے۔

گھر سے نکلو تو پتہ جیب میں رکھ کر نکلو

   حادثے چہرے کی پہچان مٹا دیتے ہیں

 ایسا لگتا ہے بڑھتی آبادی پر کنٹرو ل حکومت کے بس میں ہی نہیں رہ گیا ہے (کیونکہ برسوں پہلے ایمرجنسی کے دوران برتھ کنٹرول کی تحریک چلائی گئی تھی جو بری طرح ناکام ہوئی ) لیکن کم از کم ٹریفک نظام کو تو کنٹرول میں کیا جاسکتا ہے۔ ماضی میں کلیان ٹریفک پولس نے سخت کارروائی کرتے ہوئے ایک سو پچیس رکشا چالکوں کے لائسنس تین ماہ کیلئے منسوخ کردیئے تھے جو ٹریفک اصولوں کی خلاف ورزی کررہے تھے اب اس کی نظرتیز رفتار ی سے گاڑی چلانے والے یا اس دوران موبائل سے بات کرنے والوں یا پھرضرورت سے زیادہ مسافروں کو بٹھانے والے افراد پر ہے جو حادثے میں اضافے کا سبب بنتے ہیں۔ ٹریفک پولس کا یہ اقدام لائق ستائش ہے اس کی تقلیدہر جگہ ہونی چاہئے۔ یہ تو رہی ٹریفک کنٹرول کی بات لیکن جب سڑکوں پر گاڑیاں ہی حد سے زیادہ نکل پڑیں تو پھر انہیں کس طرح کنٹرول کیا جاسکتا ہے۔ سڑکوں اور راستوں کی بھی یک لمٹ ہوتی ہے ۔ حکومت اور محکمہ ٹریفک کو اس پر غور کرنا ضروری ہے کہ سڑکوں پر اتنی ہی گاڑیاں اتاری جائیں جو ٹریفک کیلئے مسئلہ نہ بن سکیں  ایسے میں ٹو وہیلر اور فور وہیلر گاڑیوں کا نیا پرمٹ روک دینا چاہیئے تاکہ شہرکا سکون درہم برہم نہ ہوسکے۔

 وی ٹی اسٹیشن سے ملحق بریج کے اچانک گرنے کے بعد سے پیدل پلو ں کی مرمت کا کام کافی تیز ہوگیا ہےبہر حال یہ ایک بہتر اور خوش کن بات ہے۔ دیر سے ہی سہی لیکن انتظامیہ کی آنھ کھلی تو سہی اور اب ریلوے نے بھی پلوں اور سیڑھیوں کی مرمت کا کام تیز کردیا ہے لیکن اس نے بریج کافی اونچے بنانے شروع کردیئے ہیں جس سے لوگوں کی تکلیفیں بڑھ گئی ہیں خاص طور پر ضعیف مردوخواتین کیلئے بریج پر چڑھنے کا عمل کااور بھی دشوار ہوگیا ہے۔ بیشتر بریج کی بلندی بڑھا دی گئی ہے، ظاہر ہے کہ یہ سب کچھ ضرورت کے تحت اور عوامی بھیڑ کے مد نظر بریج کی تعداد بڑھائے جانے کی غرض سے کیا جارہا ہے لیکن ریلوے انتظامیہ ایسا کیوں سمجھنے لگی ہے کہ لوکل سے سفر کرنے والے سبھی مسافر نوجوان ہیں، کیا ضعیف لوگوں نے سفر کرنا ترک کردیا ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ غیر معیاری کھانے پینے کی اشیاء کے سبب عام لوگوں میں ہائپر ٹینشن، بلڈپریشر اور شوگر کی بیماریاں عام ہوگئی ہیں۔ اب تو چھوٹے چھوٹے شہروں اور علاقوں میں بھی Esclator (خودکارزینے )لگائے جارہے ہیں تو پھر عروس البلاد ممبئی میں ان خود کار زینوں کی ضرورت ریلوے حکام کیوںنہیں محسوس کررہے ہیں۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔