اس رات کے محروم لوگ!

مفتی رفیع الدین حنیف قاسمی

ویسے تو شعبان کا سارامہینہ فضیلت وبرکت کا حامل ہے لیکن پندرہویں شب خصوصیت سے اہمیت وعظمت کی حامل ہے،اس امت محمدیہ پراللہ عزوجل کے بے پایاں احسانات وانعامات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اللہ عزوجل نے اس امت کو گرچہ دیگرامم کے مقابل کم عمرعنایت کی؛لیکن اس کی پابجائی اورتلافی یوں کی ہے کہ دعاؤں کی قبولیت کے حضوصی مواقع فضیلت واہمیت کے حامل راتیں ،ایام ومہینے عطاکیے ہیں جس سے وہ مختصرسے وقت میں اپنے لیے بے شمارنیکیوں کا ذخیرہ کرسکتی ہیں ،انہیں دعاؤں اوراعمال کی قبولیت واجابت کی راتوں میں سے ایک شب برأت بھی ہے،علامہ قرطبی نے اس کے دیگرتین نام اورذکرکیے ہیں ’’لیلۃ المبارکہ‘‘لیلۃ الصک‘‘ ’’لیلۃ القدر‘‘۔ (تفسیرالقرطبی:16؍127)

اس مبارک اورمحترم رات کا ذکرکتاب وسنت ہردومیں آیاہے،سورۂ دخان کی آیت نمبر۳میں مذکور’’لیلۃ مبارکہ‘‘کی تفسیرحضرت عکرمہؓ نے’’لیلۃ البراۃ‘‘(شب برأت سے کی ہے۔(تفسیربغوی4؍173)اس رات کے تقدس وعظمت کو بیان کرتے ہوئے اللہ عزوجل نے فرمایا: ’’حٓمَ ، وَالْکِتَابِ الْمُبِیْن،إِنَّا أَنْزَلْنَاہُ فِیْ لَیْْلَۃٍ مُّبَارَکَۃٍ إِنَّا کُنَّا مُنْذِرِیْنَ ، فِیْہَا یُفْرَقُ کُلُّ أَمْرٍ حَکِیْمٍ ‘‘ (الدخان:4)(حم قسم ہے کتاب واضح کی کہ ہم نے اس کو (لوحِ محفوظ سے آسمان دنیا پر ) ایک بابرکت والی رات میں اتارا ہے ،ہم آگاہ کرنے والے تھے ، اس رات میں ہر حکمت والا معاملہ )۔اس آیت میں برکت والی رات سے مراد شعبان کی پندرھویں رات ہے ، جس کو لیلۃ البراء ۃ کہتے ہیں ،(عکرمہ بروایت جریر)

اس کو لیلۃ البراء ۃ اس لئے کہتے ہیں ، اس کے معنی آزادی وخلاصی کے ہیں ،اس رات کو بے شمار لوگوں کو جہنم سے براۃ وخلاصی کے فیصلے ہوتے ہیں ۔لیکن تفسیرمظہری میں ہے کہ ابوالضحیٰ،ابن عباسؓ سے روایت کرتے ہیں ’’اللہ عزوجل سارے فیصلے تونصف شعبان میں ہی فرمادیتے ہیں لیکن شب قدرمیں یہ فیصلے امورسے متعلق فرشتوں کے حوالے کیے جاتے ہیں ۔(التفسیرالمظہری:8؍368)

دیتے ہیں لیکن شب قدرمیں یہ فیصلے امورسے متعلق فرشتوں کے حوالے کیے جاتے ہیں ۔(التفسیرالمظہری:8،368)

داد ودہش اور نوازش کی رات:

یوں تو اللہ عزوجل کی عطااوربخشش کا حال کیا پوچھنا،یہ ہردم رواں رہتی ہے بس بندے کی تھوڑی سی توجہ اورالتفات کی طالب ہوتی ہے،اللہ تعالیٰ کا ہاتھ بھراپڑاہے،اس کے جودوسخااوردادودہش کے خزانے اگروہ سب کو دے تب بھی اس میں کمی نہیں آئے گی،یوں سمجھئے جیسے سمندرمیں کوئی انگلی ڈال کرباہرنکالے پھروہ دیکھے کہ اس کی انگلی میں سمندرکے پانی کا کتناحصہ ہوتا ہے۔

لیکن اس رات عطائے خداوندی اورنوازش ایزدی کا بھی عجیب حال ہوجاتا ہے جس میں خودخدائی دینے اورنچھاورکرنے پر آتی ہے ،اس رات مانگنے والے کا ہاتھ تو تھک سکتا ہے مگردینے والابغیرتھکاوٹ کے پوری فراخی اورکشادگی کے ساتھ دیتاجاتا ہے، ہرضرورت کی تکمیل کی جاتی ہے اس رات غروب آفتاب سے طلوع فجرتک مسلسل یہ ندالگائی جاتی ہے ’’آگاہ ہوجاؤ‘‘کوئی ہے طلب گارِمغفرت کہ میں اس کی مغفرت کروں ؟ہے کوئی طلبِ رزق کہ میں اس کورزق عطاکروں ہے کوئی مبتلائے مصیبت کہ میں اس کوعافیت بخشوں ؟اوراس طرح دیگرامورکی بابت فرماتے ہیں تاآنکہ صبح طلوع ہوجائے۔(ابن ماجہ،عن علی،باب ماجاء،فی لیلۃ النصف من شعبان،حدیث:1388)

اورایک روایت کے الفاظ ہیں کہ’’ہے کوئی طلب گارتوبہ کہ اس کی توبہ کوشرف قبولیت بخشاجائے،ہے کوئی قرض دارکہ اس کی قرض کی ادائیگی کا سامان کیاجائے۔(الامالی للشجری،حدیث:1886)ان احادیث سے پتہ چلاکہ اس رات میں رحمت خداوندی بغیرکسی خصوص اورامتیازکے ہرشخص کی جانب متوجہ ہوتی ہے ،اس کی عطااورنوازش کا دروازہ ہرخاص وعام کے لیے کھلاہوتا ہے دعاؤں ،آہ وزاری اورمتوجہ الی اللہ ہرشخص کواپنی ضروریات وحاجات اس عظیم داتاکے سامنے رکھناچاہیے جو آج عام دنوں کے مقابل غروب آفتاب ہی سے اپنی عطااورنوازش کے درکھولے ہواہے۔

عام معافی اورمغفرت کی رات

رات میں عطائے خداوندی کا عمومی موقع ہوتا ہے،ہرشخص کوبلاامتیازاورخصوص کے عطاکیاجاتا ہے اسی طرح ہرشخص کی عام مغفرت کا بھی اعلان ہوتا ہے اس مبارک ومسعودگھڑی اورموقع کی مناسبت سے ہرشخص کوتوبہ واستغفاردعاء ومناجات کے ذریعہ اپنے گناہوں کے بخشوانے اوراپنی مغفرت کاسامان کرناچاہیے حضوراکرم  ﷺنے اس عام معافی اوربخشش کومثال کے ذریعے یوں سمجھایا کہ بنوکلب کی بکریوں کے بالوں کی مقدارمیں لوگوں کی بخشش ہوتی ہے۔

حضرت عائشہ ؓ  سے مروی ہے کہ آپ  ﷺنے فرمایا:’’پندرہویں شعبان کو اللہ عزوجل آسمان دنیامیں نزول فرماتے ہیں اوربنوکلب کی بھیڑوں کے بالوں کی تعدادمیں لوگوں کی مغفرت فرماتے ہیں ۔(ترمذی،باب ماجاء فی لیلۃ النصف من شعبان:حدیث739)

بنوکلب کی بھیڑوں اوربکریوں کا حضوصیت کے ساتھ ذکراس لیے فرمایا کہ عرب میں اس قبیلے سے بڑھ کرکسی کے ہاں بکریاں نہیں تھیں ۔

اس رات کے محروم لوگ

عمومی عطااوربخشش کے موقع سے اگرکوئی محروم ہوجائے تو اس سے بڑامحروم کوئی نہیں ہوسکتا…جس موقع سے بغیرکسی اورامیتازکے ہرشخص کودیاجارہا ہے اوربے پناہ اوربے پایاں دیاجارہا ہے مجرموں اوربدمعاشوں کے لیے پروانہ خلاصی اورچھٹکاراعطاکیاجارہا ہے اس موقع سے معددودے چندلوگوں کو ان کے مخصوص اعمال بداورخاص مجرمانہ پس منظرکی وجہ سے اس عمومی عطااورمغفرت اوربخشش کے موقع سے استفادہ سے مستثنیٰ کیاگیا تو ان کی ذلت اوررسوائی کا کیا کہنا؟

یہی کچھ صورت ِحال شب برأت کو سب سے بڑے داتااورسب سے بڑے بخشنے والے کی جانب سے چندایک محروم القسمت بدقماشوں کبائرکے مرتکب اورحدوداللہ کے پھاندنے والوں کی ہوتی ہے…جو اس عمومی عطااورمغفرت کی رات میں بھی خالی اورتہی دامن ہوتے ہیں ان میں مختلف روایتوں کے بموجب یہ ہیں :۔ {1}مشرک {2}کینہ پرور{3}چغل خور{4}زانی {5}والدین کا نافرمان {6}سودکھانے والا{7} شرابی {8}کا ناحق قتل کرنے والا {9}ذخیرہ اندوزی کرنے والا۔{10}اپنا پائجامہ اور ازار نیچے لٹکانے والا{11} قطع رحمی کرنے والا(شعب الایمان،باب ماجاء فی لیلۃ النصف من شعبان،حدیث355،فضائل الاوقات بیہقی،حدیث 27)

1۔ مشرک: اللہ کی ذات یا صفات مختصہ میں کسی کو شریک ٹھہرانا شرک کہلاتا ہے اور یہ عمل کرنے والا مشرک کہلاتا ہے ، اللہ عزوجل کا ارشاد گرامی ہے ’’اِنَّ الشِّرْکَ لَظُلْمٌ عَظِیْمٌ‘‘ (بیشک شرک بہت بڑا ظلم ہے)(لقمان:۱۳)اور ایک جگہ شرک کی عدم معافی کا اعلان کرتے ہوئے ارشاد باری عزوجل ہے :’’بیشک اللہ تعالی اس بات کو نہ بخشیں گے کہ ان کے ساتھ کسی کو شریک قرار دیا جائے اور اس کے سوائے اور جتنے گناہ ہیں جس کے لیے منظور ہوگا وہ گناہ بخش دیں گے اور جو شخص اللہ تعالی کے ساتھ شریک ٹھہراتا ہے وہ بڑے جرم کا مرتکب ہوا‘‘(النساء:48)

حضرت مولانا مفتی شفیع صاحب نے شرک کی تفصیلات بتاتے ہوئے فرمایاہے:

’’ اللہ تعالی کی ذات اور صفات کے بارے میں جو عقائد ہیں اس طرح کا کوئی عقیدہ کسی مخلوق کے لئے رکھنا یہ شرک ہے، اس کی کچھ تفصیلات یہ ہیں :

علم میں شریک ٹھہرانا:-

یعنی کسی بزرگ یا پیر کے ساتھ یہ اعتقاد رکھنا کہ ہمارے سب حال کی اس کو ہر وقت خبر ہے، نجومی، پنڈت سے غیب کی خبریں دریافت کرنا یا کسی بزرگ کے کلام میں فال دیکھ کر اس کو یقینی سمجھنا یا کسی کو دور سے پکارنا اور یہ سمجھنا کہ اس کہ خبر ہو گئی یا کسی کے نام کا روزہ رکھنا۔۔

اشراک فی التصرف: یعنی کسی کو نفع یا نقصان کا مختار سمجھنا کسی سے مرادیں مانگنا، روزی اور اولاد مانگنا۔

عبادت میں شریک ٹھہرانا:کسی کو سجدہ کرنا ، کسی کے نام کا جانور چھوڑنا، چڑھاوا چڑھانا، کسی کے نام کی منت ماننا، کسی کی قرب یا مکان کا طواف کرنا، خدا کے حکم کے مقابلہ میں کسی دوسرے کے قول یا رسم کو ترجیح دینا کسی کے روبرو رکوع کی طرف جھکنا کسی کے نام پر جانور ذبح کرنا ، دنیا کے کاروبار کو ستاروں کی تاثیر سے سمجھنا اور کسی مہینہ کو منحوس سمجھنا وغیرہ‘‘(معارف القرآن)

(1)  کینہ پرور: کسی شخص پر غصہ پیدا ہوا اور یہ شخص کسی وجہ سے اس پر غصہ نہ نکال سکے اس کی وجہ سے ا س کے دل میں جو گرانی اور اس کے تعلق سے بغض ودشمنی پیدا ہوتی ہے ، اس پر کینہ کااطلاق ہوتا ہے، یہ کینہ یا بغض ایک گناہ نہیں کئی گناہوں کا مجموعہ ہے :

امام غزالی  نے فرمایا: غصہ سے کینہ اور کینہ سے آٹھ گناہ پیدا ہوتے ہیں : حسد، شماتت، سلام کا جواب نہ دینا، حقارت کی نگاہ سے دیکھنا، غیبت ، جھوٹ، اور فحش گوئی کے ساتھ زبان دراز کرنا، اس کے مسخرہ پن کرنا، موقع پاتے ہی ستانا، اس کے حقوق ادا نہ کرنا(کیمیائے سعادت: 333)

کینہ پرور کی بخشش نہیں ہوتی اس پر یہ روایت دلالت کرتی ہے:

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا: پیر اور جمعرات کے دن جنت کے دروازے کھولے جاتے ہیں اور پھر ہر اس بندے کی بخشش کی جاتی ہے جو اللہ کے ساتھ کسی شریک نہ کرتا البتہ وہ شخص اس بخشش سے محروم رہتا ہے جو اپنے اور کسی مسلمان بھائی کے درمیان عداوت رکھتا ہو اور فرشتوں سے کہا جاتا ہے ان دونوں کو جو آپس میں عداوت و دشمنی رکھتے ہیں مہلت دو تاآنکہ وہ آپس میں صلح و صفائی کر لیں (مسلم: باب النھی عن الشحناء والتھاجر، حدیث:2565)

3۔چغل خور :چغل خوری غیبت کہتے ہیں کسی شخص کے عیوب کا دوسرے کے سامنے اظہار کرنا۔

ایک روایت میں غیبت کو زنا سے زیادہ شدید بتلایا گیا ہے’’ الغیبۃ أشد من الزنا‘‘ غیبت زنا سے زیادہ سخت گناہ ہے، (مجمع الزوائد: باب ما جاء فی الغیبۃ والنمیمۃ،حدیث:13128)اور ایک روایت میں فرمایا:’’لا یدخل الجنۃ قتّات‘‘ (چغل خور جنت میں داخل نہ ہوسکے گا) (بخاری: باب ما یکرہ من النمیمۃ، حدیث:2056)

4۔زانی: کبیرہ گناہوں میں سے ایک بڑا گناہ زنا بھی ہے ، جو عورت یا مرد اس گناہ میں مبتلا ہوں ، اس کے لئے احادیث مبارکہ میں سخت وعیدیں آئی ہیں ، اگر اس عمل بد کو بطور پیشے کے اپنایا جائے تو جیسا کہ اس دور میں اس کار واج ہے تو اس کی قباحت اور شناعت اور بڑھ جاتی ہے ، شب معراج میں نبی کریم ﷺ کا گذر ایسی عورتوں پر ہوا جو اپنے پستانوں سے (بندھی ہوئی) اور پیروں کے بل لٹکی ہوئی تھیں ، آپ نے جبرائیل امین علیہ السلام سے سوال کیا کہ یہ کون ہیں ؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ یہ زناکار عورتیں اور اپنی اولاد کو قتل کرنے والی عورتیں ہیں ۔

5۔والدین کا نافرمان:

والدین کی نافرمانی اور حکم عدولی بہت بڑا گنا ہ ہے ، کئی ایک احادیث میں والدین کی نافرمانی پر سخت وعیدیں آئی ہیں ،  عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا تین انسانوں کی جانب خداوند قدوس قیامت کے دن نہیں دیکھے گا۔ ایک تو وہ شخص جو کہ دنیا کے کاموں میں فرمانبرداری کرے (والدین کی) اور دوسرے وہ عورت جو کہ مردوں کا حلیہ بنائے اور تیسرے وہ دیوث شخص جو کہ بیوی کو دوسرے کے پاس لے کر جائے اور تین انسان جنت میں داخل نہیں ہوں گے ایک تو  نافرمانی کرنے والا شخص یعنی والدین کی  نافرمانی کرنے والا شخص اور دوسرے ہمیشہ شراب پینے والا مسلمان اور تیسرے احسان کر کے جتلانے والا(مسنداحمد: مسند عبد اللہ بن عمر،حدیث:6180)

6۔سود کھانے والے کے سلسلے میں بہت سخت وعیدیں آئی ، اللہ عزوجل نے ایسے شخص قرآن کریم میں اعلان جنگ کیا ہے ، ایک روایت میں شرابیوں کے عذاب کو ذکر کرتے ہوئے فرمایا: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا شب معراج کے موقع پر جب ہم ساتویں آسمان پر پہنچے تو میری نگاہ اوپر کو اٹھ گئی وہاں بادل کی گرج چمک اور کڑک تھی پھر میں ایسی قوم کے پاس پہنچا جن کے پیٹ کمروں کی طرح تھے جن میں سانپ وغیرہ ان کے پیٹ کے باہر سے نظر آرہے تھے میں نے پوچھا جبرائیل علیہ السلام یہ کون لوگ ہیں ؟ انہوں نے بتایا کہ یہ سود خور ہیں (ابن ماجۃ، باب التغلیظ فی الربا ، حدیث:2273)

7۔شراب نوشی کرنے والا: اس رات میں شراب نوشیوں کی بھی بخشش نہیں ہوتی، شراب ام الخبائث ہے ، تمام برائیوں کی جڑ ہے ، اسی کی جانب اشارہ کرتے ہوئے رسول اکرم ﷺ نے فرمایا: شراب تمام برائیوں کی جڑ ہے ، جو شخص شراب پیتا ہے ، اس کی چالیس روز کی نمازیں قبول نہیں ہوتی، اگر وہ اپنے پیٹ میں شراب لے کر مرتا ہے تو وہ جاہلیت کی موت مرا(المعجم الأوسط،حدیث۳۶۶۷)

8۔قتل ناحق:

بغیر کسی عذر شرعی کے کسی کو ناحق قتل کرنا ، چاہے وہ کافر ہی کیوں نہ ہو سخت گناہ ہے اور کی ایمان والے کو قتل کرنا تو اس سے بھی زیادہ بدترین ہے ، ایسے شخص کی بھی اس رات میں بخشش نہ ہوگی، اس عظیم گناہ کو قرآن کریم میں یوں بیان کیا گیا:’’ اور جو شخص کسی مسلمان کو قصدا قتل کرڈالے تو اس کی سزا جہنم ہے کہ ہمیشہ ہمیشہ کو اس  میں رہنا ہے اور اس پر اللہ تعالی غضبناک ہونگے اس کو اپنی رحمت سے دور کردینگے اور اس کے لیے بڑی سزا کا سامان کریں گے ‘‘(النساء:93)اس آیت کریمہ میں قالت کو ہمیشہ جہنم کی سزا ، اپنے غضب، اپنی لعنت اور سخت عذاب کی وعید سنائی ہے ، موجودہ دور میں انسانی جان کی کوئی قیمت نہیں رہ گئی، چند پیسوں کی خاطر کسی جان لینا، معمولی رنجش میں کسی کا سہاگ اجاڑ دینا، معصوم بچوں کو یتیم کرنا، بوڑھے ماں باپ کو بے سہارا کردینا ایک معمولی عمل بن گیا ،الأمان والحفیظ۔

9۔ذخیرہ اندوزی کرنے والا: یعنی ضروریات زندگی کی ذخیرہ اندوزی اور اسٹاک کے ذریعے بازار میں مصنوعی قلت پیدا کر کے مہنگائی اور گرانی کا باعث بننا یہ تاجروں کا معمولی عمل بن گیا ہے، یہ بھی اس رات کے محروم لوگوں میں شامل ہیں ، ایک روایت میں نبی کریم نے فرمایا: ’’جو تاجر ذخیرہ اندوزی کرے وہ خطاکار ہے ‘‘(مسلم: ، حدیث:1605)اور ایک روایت میں فرمایا:حضرت عمر بن خطاب فرماتے ہیں کہ میں نے اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے سنا جو مسلمانوں کے کھانے پینے کی اشیا میں ذخیرہ اندوزی کرے اللہ تعالی اسے کوڑھ کے مرض اور مفلسی میں مبتلا فرمائیں ۔(ابن ماجۃ:حدیث:2155)

10۔قطع رحمی کرنے والا: اس رات کے محروم لوگوں میں قطع رحمی کرنے والے کی بھی بخشش نہیں ہوتی، یعنی اپنے اعزاء واقرباء کو سلام کا جواب نہ دینا، بیماری میں ان کی عیادت نہ کرنا ، فوت ہوجانے پر بلا عذر ان کے جنازہ میں شریک نہ ہونا یہ سب قطع رحمی میں داخل ہے ۔آپ ﷺ نے فرمایا : اس قوم پر حمت خداوندی کا نزول نہیں ہوتا جس میں قطع رحمی کرنے والا ،والدین کا نافرمان، اور شراب پینے کا عادی ہو(الادب المفرد، حدیث:63)۔

11۔ازار (شلوار ، پاجامہ) ٹخنوں سے نیچے لٹکانے والا:

مردوں کے لئے ٹخنوں سے نیچے شلوار ، تہبند ، پاجامہ ، پینٹ ،کرتا یا چوغہ وغیرہ لٹکانا حرام ہے ،ایک حدیث میں حضور اکرمﷺ کا ارشاد گرامی ہے :’’ ٹخنوں سے نیچے جو تہبند (پاجامہ وغیرہ)ہو وہ دوزخ میں لے جانے والا ہے ‘‘(مسند احمد: مسند عبد اللہ بن عمر بن الخطاب، حدیث:5713)

آج کی اس رات میں جو کہ عمومی بخش اور عطا وداد ودہش کی رات ہوتی ہے ، ان لوگوں کی بخشش نہیں ہوتی، جو لوگ ان برائیوں میں مبتلا ہیں وہ اپنے گریبان میں جھانکیں ، اس قسم کی برائیوں سے باز آجائی۔ تاکہ اس رات کے محروم لوگوں میں ہمارا شمار نہ ہو۔

تبصرے بند ہیں۔