اعظم کیمپس پونا: علم و ہنر کی روشنی کا مینار
عبدالعزیز
مہاراشٹر کے شہر پونے جانے کا پہلی بار اتفاق ہوا۔ گزشتہ ماہ جولائی کی 30 تاریخ کو کل ہند مسلم مجلس مشاورت کی عاملہ کی میٹنگ اعظم کیمپس میں تھی۔ کیمپس میں داخل ہوا تو آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں ۔ چھوٹے بڑے طلبا و طالبات کی اچھی خاصی تعداد دیکھی۔ پورے 25 ایکڑ رقبے میں مختلف اداروں کی عمارتیں نہایت قاعدے اور سلیقے سے نظر آئیں ۔ لڑکیاں اکثر و بیشتر نقاب میں تھیں ۔ دیکھنے میں ایسا محسوس ہورہا تھا کہ ہم سب ہندستان کی کسی بڑی یونیورسٹی کے احاطہ یا کیمپس میں داخل ہوئے ہیں ۔ اس کیمپس میں آرٹس، سائنس، کومرس اور دیگر مضامین کے کالجز ہیں ۔ کالجوں کی تعداد اٹھارہ ہے، جبکہ اسکولوں کی تعداد 16ہے۔ پرائمری درجہ سے لے کر کالج تک علم و ہنر حاصل کرنے کا انتظام و انصرام ہے۔ کیمپس میں طلبا و طالبات کیلئے ہوسٹلز ہیں ۔ ڈینٹل کالج اور اسپتال بھی کیمپس کے اندر ہیں ۔ اتنا بڑا اور معیاری تعلیمی ادارہ مشکل ہی سے کسی ریاست میں ہو، وہ بھی مسلم اقلیت کا۔ دو تین دنوں میں رہ کر بہت سی معلومات حاصل ہوئیں ۔جن سے حیرت اور بیحد مسرت ہوئی۔ ایک صاحب (حاجی) علام محمد اعظم نے اپنی 25 ایکڑ زمین پونے کے مسلمانوں کے نام وقف کر دی ہے جس پر مہاراشٹر کوسمو پولیٹین ایجوکیشن سوسائٹی (Maharashtra Comopolitan Education Society) کے مذکورہ اداروں کی چھوٹی بڑی سیکڑوں عمارتیں بنائی گئی ہیں ۔ اس وقت ان اداروں میں 27 ہزار طلبا و طالبات تعلیم حاصل کر رہے ہیں ۔ ٹیچنگ اور نن ٹیچنگ اسٹاف کی تعداد سترہ سو سے زائد ہے۔
تعلیمی ادارہ (ایم سی ای سوسائٹی) کی تشکیل 1964ء میں ہوئی اور اسی سال سے ایک انگلش میڈیم اسکول کا قیام عمل میں آیا۔ سوسائٹی کے بہت سے صدر اور سکریٹری ہوئے مگر کئی سالوں سے غالباً 1992ء سے جناب پی اے انعامدار صدر اور ان کی قابل اہلیہ محترمہ عابدہ انعامدار نائب صدر کی حیثیت سے مذکورہ سوسائٹی اور اداروں کی روح رواں ہیں ۔ ان دونوں کے زمانے میں ادارے نے مزید ترقی کے منازل طے کئے۔ دونوں کی رات دن کی محنتوں سے پورے پونے بلکہ مہاراشٹر میں علم و ہنر کا اجالا پھیلتا ہوا نظر آرہا ہے۔ ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں لڑکے اور لڑکیاں متذکرہ ادارے سے مستفیض ہوئے اور نہ صرف قومی سطح پر بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی مشہور و معروف ہوئے۔ یہ بہت بڑا اور قابل قدر کارنامہ ہے جسے لفظوں میں بیان نہیں کیا جاسکتا۔ محترم انعامدار یا ان کی اہلیہ اور ان سے پہلے جن بزرگوں نے اس ادارے کو سنبھالا، ترقی دی جن کی وجہ سے آج یہ ادارہ پھل پھول رہا ہے وہ سب قابل مبارکباد ہیں ۔ جب کسی قوم یا فرقہ میں ایسے لوگ پیدا ہوتے ہیں تو وہ قوم یا فرقہ ہر شعبۂ حیات میں ترقی کرتا ہے اور اس کے لوگ دنیا بھر میں مشہور و معروف ہوجاتے ہیں ۔ اللہ کرے ایسے لوگ ہر شہر اور ہر قریہ میں پیدا ہوں تاکہ ہر جگہ علم و ہنر کی روشنی پھیلے اور امیر، غریب، چھوٹے بڑے سب لوگ ایسے سرچشمۂ ہدایت اور تعلیم و ہنر سے فیض یاب ہوسکیں ۔
اجلاسِ مشاورت کے دوسرے دن شرکاء اجلاس میں سے راقم، اے آر شیروانی، ان کی اہلیہ محترمہ نصرت شیروانی، ڈاکٹر مہر الحسن (بھوپال) اور ماسٹر مختار عالم (کلکتہ)، محترمہ عابدہ انعامدار سے ان کے دفتر میں ملاقات کرنے گئے۔ محترمہ نے بڑے تپاک سے ہم سب کا استقبال کیا اور ادارے کے سلسلے میں معلومات کی فراہمی کیلئے چند اہم تعلیمی اداروں کے ذمہ داران کو پہلے ہی سے بلا رکھا تھا جنھوں نے اپنے شعبہ کی کارگزاریوں کا تفصیل سے ذکر کیا اور اس وقت پوری ریاست میں ان کے اداروں کے طلبا و طالبات نمایاں اور امتیازی نمبر سے امتحانات میں کامیاب ہورہے ہیں ۔ اس کا بھی تذکرہ کیا جس سے پتہ چلا کہ تعلیمی معیار اچھا اوربہتر ہے اور طلبا و طالبات میں مسابقت کا جذبہ بیدار ہے۔ معلمین اور معلّمات Missionary Zeal سے بچے، بچیوں اور لڑکے اور لڑکیوں کو پڑھاتے ہیں ۔ ایک مفتی اور عالم دین بھی موجود تھے۔ انھوں نے بتایا کہ ابتدائی درجات میں بچوں کو دین کی بنیادی تعلیمات سے سنوارا اور آراستہ کیا جاتا ہے تاکہ وہ اپنی مسلمانیت کو سمجھ سکیں اور ایک حد تک دنیا میں دینی لحاظ سے اپنے فرائض منصبی سے کما حقہ واقف ہوں ۔
دس اور گیارہ درجات کے طلبہ بھی بلائے گئے تھے۔ ان سب نے ایک ایک کرکے بتایا کہ وہ عصری تعلیم کے ساتھ ساتھ ہنر بھی سیکھ رہے ہیں ۔ طالب علم عمران نے بتایا کہ ’’میری ٹیم 3طلبہ پر مشتمل ہے۔ ہم لوگ دسویں کلاس میں ہیں ۔ ہم لوگ کمپیوٹر ہارڈ ویئر اینڈروئیڈ (Computer Hardware Andriod)، موبائل ریپیرنگ ، اِسیوا (Eseva) اور مختلف قسم کے کمپیوٹر سیکھتے اور مینو فیکچرنگ کرتے ہیں ۔ یہ پونے اسمارٹ سٹی ٹیم کے نام سے جانی جاتی ہے۔ ہم لوگوں نے پہلے سروے کیا اور پونے میونسپل کارپوریشن کے ویب سائٹ کا بھی مطالعہ کیا۔ موبائل ریپیرنگ کا عملی امتحان (Practical Exam) ہوتا ہے۔ میرے کیمپس میں سکھانے اور مینو فیکچرنگ کے 29ادارے ہیں ‘‘۔ عمران ایک ٹابلیٹ Tablet دکھاتے ہوئے کہاکہ اس طرح کے ٹابلیٹ کی مینوفیکچرنگ ہم لوگ کرتے ہیں ۔ بازار میں اس کی قیمت سات آٹھ ہزار روپئے ہے جبکہ وہ تین ساڑھے تین ہزار میں ہم لوگ سپلائی کرتے ہیں ۔ اس طرح ہر قسم کے کمپیوٹر بناتے ہیں جو پورے مہاراشٹر میں بڑی تعداد میں سپلائی کیا جاتا ہے۔ سرکاری ادارے بھی بڑی تعداد میں اعظم کیمپس کے پروڈکٹس کو خریدتے ہیں ۔ پونے کی میونسپل کارپوریشن اعظم کیمپس کے کمپیوٹرس کو بڑی تعداد میں خریدتا ہے۔
اس طرح طلبا و طالبات کو متذکرہ اداروں میں ایسی تعلیم و تربیت اور ہنر سے آراستہ کیا جاتا ہے کہ وہ اپنی تعلیم مکمل کرنے سے پہلے اپنے پیر پر کھڑے ہوسکیں اور تعلیم مکمل کرنے کے بعد نوکر یوں کیلئے اِدھر ادھر مارے مارے نہ پھریں ۔ آج کے حالات میں تعلیم کے ساتھ ہنر مندی بیحد ضروری ہے تاکہ بے روزگاری اور بے کاری سے تعلیم حاصل کرنے کے باوجود پریشان حال نہ ہونا پڑے۔ اس طرح اعظم کیمپس کے تعلیمی اور ہنرمندی کے ادارے مثالی ادارے ہیں ۔ ضرورت ہے کہ مسلمان اپنے اپنے شہروں اور گاؤں اور محلہ میں ایسی چیزوں کی نقل (Copy) کریں ۔ بڑے پیمانے پر نہ سہی چھوٹے پیمانے پر ہی سہی۔ یہ کام آسانی سے شروع کیا جاسکتا ہے۔ ہوسٹل کے انچارج نظام اعظم صاحب نے بتایا کہ ایک ہزار ہندو، مسلم طالبات ایک ساتھ ہوسٹل میں رہتی ہیں مگر کبھی کوئی شکایت سامنے نہیں آئی۔ سب شیر و شکر ہوکر رہتی ہیں ۔
کلکتہ میں ملت کے کچھ افراد تعلیم کا کچھ کام ضرور کر رہے ہیں مگر پونے جیسے چھوٹے شہر سے موازنہ کیا جائے تو ایسا معلوم ہوگا کہ صفر کے برابر ہے۔ اعظم کیمپس کے بغل میں ایک پرانا کالج ہے جو پونا کالج کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اعظم کیمپس میں اسپتال، گیسٹ ہاؤس، کھیلنے کا میدان بھی ہے۔ وہ ساری چیزیں جو ایک تعلیمی کیمپس کیلئے ضروری ہوتی ہیں سب ہیں ۔ اللہ کرے ملت کے افراد اسی طرح ہر شہر میں تعلیمی اور ہنر مندی کے ادارے قائم و دائم کریں ۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو ملت کی محتاجی اور مفلسی میں بہت حد تک کمی واقع ہوسکتی ہے اور ملت کے نوجوان نوکریوں کیلئے در در کی خاک چھاننے سے بچ سکتے ہیں ۔

(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
تبصرے بند ہیں۔