انسان اور زمین کی حکومت (قسط 103)

رستم علی خان

چنانچہ جمجاہ بادشاہ نے کہا اے نبی اللہ وہ آگ ایسی تھی کہ اگر اس کی ایک چنگاری زمین پر ڈالی جائے تو تمام زمین اور عالم اس کی تپش سے راکھ ہو جائے- پس وہ آگ میرے بدن میں ڈال کر رگ و ریشے سے جان میری پکڑ کر کھینچنے لگے- اور جان کھینچنے کے ساتھ ساتھ آتشی لاٹھیوں اور گرزوں سے مجھ کو مارتے- میں نے ان سے فریاد کی کہ میری جان نہ نکالو اور اس کے بدلے میں میرا ملک اور دولت خزانہ تمام جو میرے پاس ہے مجھ سے لے لو- پس یہ بات سنکر ان کے غیض اور غضب میں اور بھی اضافہ ہوا اور انہوں نے گرز اس طرح کھینچ کر مجھ پر مارے کہ بدن کے جوڑ تمام الگ ہو گئے اور اس تکلیف کو میں بیان نہیں کر سکتا جو اس لمحے مجھ پر گزری- اور کہنے لگے اے بدبخت شخص تو نہیں جانتا کہ حق تعالی بعوض گناہ کافروں کے مال نہیں لیتا- پھر میں نے کہا کہ مجھے چھوڑ دو میں اپنے تمام اہل و عیال اور فرزند خدا کی راہ میں قربان کروں گا- تب انہوں نے کہا کہ اللہ رشوت نہیں لیتا- اور اے پیغمبر خدا جان نکلنے کی جو تکلیف اور ازیت مجھ پر گزری اگر ہزار شمشیر مجھ پر ماری جاتیں تو اس تکلیف کے مقابلے کچھ نہ تھیں- الغرض اسی طرح فرشتوں نے میری جان قبض کی اور لے کر چلے گئے- بعد اس کے میرے اہل و عیال اور لوگوں نے مجھ کو کفن وغیرہ پہنایا اور قبرستان میں لے گئے- وہاں مجھے بھی باقی مردوں کی طرح ایک قبر میں ڈال کر اوپر مٹی پھینک کر دفنا کر چلے آئے-

مجھے لگا کہ شائد اب عذاب میرے تمام ہوئے- لیکن مجھے معلوم نہ تھا کہ اصل معاملہ تو اب شروع ہونے والا ہے- چنانچہ اس قبر کے گڑھے میں میری جان واپس لوٹائی گئی- اور پھر منکر و نکیر اور موکلان فرشتے جو دنیا میں میرے ساتھ رہتے تھے میرے پاس آئے اور مجھے اٹھ کر بیٹھنے کا حکم دیا- اور اے نبی اللہ منکر و نکیر جس شکل و صورت میں میرے پاس آئے تھے ان کو دیکھ کر میں موت کی تکلیف کو بھول گیا کہ اس قدر ہیبت ناک شکلیں اور اتنا قوی ہیکل میں نے اپنی پوری زندگی میں کسی کو نہ دیکھا تھا- کہ ان کے آنے سے زمین پھٹ جاتی- اور ان کے ہاتھوں میں دہکتے لوہے کے گرز تھے کہ اگر اسے زمین پر مارا جائے تو زمین نیچے دھنس جائے اور ہر چیز زمین کی تباہ ہو جائے- پس یہ سب دیکھ کر میرے ہوش و حواس جاتے رہے- چنانچہ ان کے حکم کیساتھ ہی مارے خوف کے میں اٹھ کر بیٹھ گیا- پھر وہ مجھ سے کہنے لگے کہ جو جو کام نیک و بد برائی بھلائی تو نے دنیا میں کی ہے آج اس سب کا حساب ہم تجھ سے لینے کو آئے ہیں- پس ان کی بات سنتے ہی میں نے جو جو کام اپنی زندگی میں کیے تھے سب یاد آنے لگے اور وہ باتیں اور کام بھی یاد آنے لگے کہ جنہیں میں اپنی زندگی میں بھول چکا تھا سو اس وقت اپنے کیے سب کام اور سارے کردار یاد آنے لگے اور میں یا حسرت یا مصیبت و ندامت کا واویلا کرنے لگا-

چنانچہ انہوں نے گرجدار آواز میں مجھ سے پوچھا، "من ربک” تیرا رب کون ہے- اور ان کی آواز میں ایسی گرج تھی کہ اگر سینہ زمین پر کھڑے ہو کر آواز کریں تو اس گرج سے زمین و آسمان پھٹ جائیں اور انسانوں جانداروں کے کلیجے پھٹ جائیں- مارے خوف کے میں نے اپنے بتوں کا نام لیا کہ جن کی میں اپنی زندگی میں پرستش کیا کرتا تھا- تب انہوں نے ایک گرز کھینچ کر میرے مارا کہ میں زمین کی تہوں میں دھنس گیا- اور اس کی ہیئت و دھمک سے تخت الثری تک ہل گیا- اور میں آہ و پکار کرنے لگا- تب انہوں نے کہا پکار اپنے بتوں کو فریاد کر ان سے جن کی تو سوا اللہ کے عبادت کیا کرتا تھا کہ آج تجھ کو اس عذاب سے نجات دلائیں- پھر مجھ سے پوچھا کہ، "من دینک” تیرا دین کیا ہے- یہ سنکر عقل و ہوش میرے باختہ ہوئے اور زبان میری بند ہو گئی- تب پھر انہوں نے مجھے آہنی گرزوں سے مارنا شروع کر دیا- اور مجھ سے کہنے لگے اے دروغ گو بتا تیرا رب کون ہے- تب مارے خوف کے میں نے کہا کہ میرے خدا تم ہو پس مجھ کو بخش دو اور اس عذاب سے نجات دو- کہ سوا تمہارے کس سے فریاد کروں کہ کوئی سنتا نہیں- اور اپنے ہونے پر افسوس و حسرت کرنے لگا کہ کیا ہی اچھا تھا کہ میں پیدا ہی نہ ہوا ہوتا میری ماں نے مجھے جنا ہی نہ ہوتا- تب انہوں نے ایک گرز ایسا کھینچ کر مجھ پر مارا کہ جان کنی کی سب سختیاں مجھے بھول گئیں اور کہنے لگے اے بدبخت تو خدا رحمن و رحیم کو نہیں جانتا- تجھ پر خدا کی لعنت ہو- اور کہا کہ غضب اللہ کا اس پر ہو کہ جو نعمت تو اللہ کی کھاوے اور پوجا غیر اللہ کی کرے- اب بسبب تیرے کفر کے تیرے واسطے ہمیشہ کے لیے سخت عذاب ہے- اور اے نبی اللہ میری ساری زندگی کی بادشاہت اور خوشیاں عذاب گور اور سوال و جواب سے مجھ پر تلخ تھی۔

چنانچہ جمجاہ بادشاہ کے سر بوسیدہ نے کہا اے نبی اللہ جب فرشتے مجھ سے حساب کتاب لیکر اور لعنت و ملامت اور عذاب سنا کر چلے گئے تو بعد اس کے میری قبر کی زمین مجھ سے گویا ہوئی اور کہنے لگی، اے دشمن خدا تو اتنے روز میری پشت پر رہا اور کفر کرتا رہا- اللہ نے تجھے ہر قسم کی نعمت سے نوازا تھا بادشاہی عطا کی تھی تو پھر بھی اللہ کے سوا غیروں کی پوجا کرتا تھا- اور جب جب تو اپنے گناہگار وجود لیکر میری پشت پر چلتا تھا تب تب مجھے تجھ پر غیض آتا تھا- پس آج میرا مقصود مجھے مل گیا کہ تو میرے پیے اندر آیا ہے اب میں تجھ سے بدلہ لوں گی- اور تو میرا سلوک دیکھ کہ میں کافروں اور گنہگاروں کیساتھ کیا کیا کرتی ہوں- بعد ایک لحظہ کے مشرق اور مغرب کی زمین آ کر مجھے دبانے لگی ایسا کہ میرے بدن کے تمام جوڑ ٹوٹ گئے اور پسلیاں ایک دوسرے میں جا کر پیوست ہو گئیں- کوئی راہ فرار کی میرے پاس نہ تھی اور نہ ہی کوئی رفیق میرا تھا کہ جس سے مدد مانگتا- اور میں اپنے پیدا ہونے پر افسوس کرنے کے سوا کچھ نہ کر سکتا تھا-

بعد اس کے دو فرشتے میرے پاس آئے سیاہ پوش خشمناک ایسا کسی کو میں نے نہ دیکھا تھا- مجھے یہاں سے پکڑ کر عرش کے نزدیک لے گئے- کنارے عرش سے ایک آواز غضب والی آئی کہ اس شقی کو دوزخ میں ڈال دو- اور وہیں ایک شخص کو دیکھا جو خشمناک نگاہوں سے مجھ کو دیکھ رہا تھا- اور زمانہ آتش اس کے پاس ایستادہ اور سلاسل اور منجنیک اور طوق و زنجیر آتشیں اس کے پاس رکھی تھیں- اور وہ داروغہ دوزخ نام اس کا مالک تھا- چنانچہ حکم ملتے ہی اس نے مجھ کو ایک جھڑکی دی ایسی کہ میرے تمام بدن میں لرزہ پیدا ہو گیا اور میں مارے خوف کے کانپنے لگا- تب دوبارہ وہ اپنی ہیبت ناک آواز میں غضب کیساتھ بولا کہ اس بدبخت کو لوہے کی آتشیں زنجیر کیساتھ باندھ کر آتشیں کوڑوں سے مارتے ہوئے دوزخ کیطرف لے چلو- چنانچہ مجھے پیشانی کے بالوں سے پکڑ آتشیں زنجیروں میں جکڑ کوڑوں سے مارتے ہوئے لیکر چلے- پھر مجھے ستر گز نیچے گہرے غبار میں قید رکھا- پھر میرے بدن کی تمام کھال نکال کر ستر گز اور نیچے سانپ اور بچھووں میں رکھا- اور ان کا ایک ایک ڈنگ مجھے ستر گز نیچے تک دھنسا دیتا- وہ تکلیف اتنی شدید تھی کہ باوجود موت کی تکلیف کو جھیلنے کے میں خواہش کرنے لگا کہ مجھے موت ہی آ جائے اور موت کو پکارنے لگا- تب آواز آئی کہ اب پکار موت کو لیکن اب موت نہ آئے گی اب ہمیشہ کے لیے اس عذاب کا مزا چکھ بعوض اپنے کفر اور گناہوں کے- اور وہ زنجیر ایسی تھی کہ اگر اس کا ایک حلقہ زمین پر پڑ جائے تو تمام مخلوقات زمین کی فنا ہو جائیں-

تب حضرت عیسی نے فرمایا اے جمجاہ آتش دوزخ کیسی ہے اس کے بارے کچھ بیان کر- اس نے کہا اے پیغمبر خدا دوزخ کے سات درجات ہیں- ہادیہ، سعیر، سقر، جہنم، قطی، اور حطمہ اور یہ سب سے نیچے کا درجہ ہے- اے پیغمبر خدا اگر آپ اہل دوزخ کو دیکھتے تو ان کے حال پر افسوس کرتے اور کہتے کہ ان پر خدا کا غضب ہے- ان کے نیچے اوپر دائیں بائیں آگے پیچھے آگ دہکتی ہے- اور اس آگ کے اندر بھوکے پیاسے لوگ جل رہے ہیں- وہاں کھانا پینا اور سایہ وغیرہ کچھ نہیں- سوائے غم کے خوشی اور راحت نہیں- اور منہ ان کا سیاہ مانند کوئلے کے ہے- اور ہمیشہ گریہ زاری اور ہاہکار میں مصروف اور توبہ وہاں قبول نہیں ہوتی نہ ان کی آہ و زاری سنی جاتی ہے نہ ان پر رحم ہی کیا جاتا ہے- اور ہر وقت آواز آتی ہے کہ اے اہل دوزخ تمہارا طعام ہمیشہ آتش دوزخ ہے- اور تم لکڑی دوزخ کی ہو پس ہمیشہ اس میں جلتے رہو۔

تبصرے بند ہیں۔