ایک معمہ ہے سمجھنے کا نہ سمجھانے کا

حفیظ نعمانی

سکھوں اور ہندوئوں کا بابا گرمیت سنگھ جو رام رحیم کے نام سے جانا جاتا ہے وہ تو آبروریزی کے کیس میں 20  سال کی سزا کاٹنے جیل چلا گیا ہے لیکن ان کے ہی نقش قدم پر مسلمانوں کے بابا ڈاکٹر ایوب صاحب کئی مہینے جیل میں رہ کر ضمانت پر باہر آکر وہی کررہے ہیں جو کرتے ہوئے وہ جیل گئے تھے۔ یا تو ہم امت شاہ کو سیاست کا سب سے کم عقل لیڈر مانیں یا ڈاکٹر ایوب کو انتہائی بزدل کہ ضمانت پر باہر آکر انہوں نے 2019 ء کے پیش نظر بی جے پی کے لئے سیاسی میدان پھر ہموار کرنا شروع کردیا۔

اب تک تو ملک اور ہر صوبہ میں یہ ہوتا تھا کہ جو بڑی پارٹی ہوتی تھی وہ دوسری چھوٹی سیاسی پارٹیوں کو آواز دیتی تھی کہ آئو ہم سب مل کر اس ظالم پارٹی کا مقابلہ کریں جس نے ہر طبقہ پر اور ہر میدان میں بدعنوانیوں کے جھنڈے گاڑ رکھے ہیں ۔ لیکن یہ پہلی بار دیکھنے میں آرہا ہے کہ وہ پیس پارٹی جس کا اسمبلی کائونسل میں ایک بھی ممبر نہیں ہے وہ تمام بڑی پارٹیوں کو دعوت دے رہی ہے کہ ہم سب مل کر ایک محاذ بنالیں اور پھر بی جے پی کا مقابلہ کریں ۔ ڈاکٹر ایوب جب تک جیل میں رہے یہی کہتے رہے کہ مجھے بی جے پی اور آر ایس ایس نے فرضی مقدمہ میں پھنسا دیا ہے۔ ڈاکٹر ایوب کے اوپر جس نے الزام لگایا ہے وہ اس الیکشن کا نہیں بلکہ 2012 ء کے الیکشن سے ان پر لگتا رہا ہے۔ اس الیکشن میں وہ خود بھی کامیاب ہوگئے تھے اور ان کے تین دوسرے ساتھی بھی جیت گئے تھے۔ لیکن 2017 ء کے الیکشن میں تو انہوں نے صرف انقلاب اخبار کے پہلے صفحہ پر پورا الیکشن لڑا اور شہرت کی حد تک بی جے پی کو جتانے اور مسلم ووٹ تقسیم کرانے کیلئے انہیں جتنا روپیہ بھی ملا وہ سب دبا لیا ان کی پوری پارٹی کو جتنے ووٹ ملے ہیں اگر ان کی گنتی کی جائے تو حقیقت سامنے آجائے گی۔

ہم ڈاکٹر ایوب صاحب سے ذاتی طور پر واقف نہیں ہیں اور خدا کا شکر ہے کہ ہماری آنکھیں انہیں دیکھنے اور زبان بات کرنے کی گنا ہگار نہیں ہیں ۔ ہمارے ایک بیٹے ان سے ضرور ایک میٹنگ میں مل چکے ہیں ۔ ڈاکٹر ایوب نے اب ریپ کا الزام اویسی صاحب پر ڈالنا شروع کردیا۔ ہمیں اویسی صاحب سے بھی وہی شکایت ہے جو ڈاکٹر ایوب سے ہے کہ وہ بھی وہی کام کرتے ہیں کہ سیکولر پارٹیاں ہار جائیں اور بی جے پی کی حکومت بن جائے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ ڈاکٹر ایوب کے بارے میں ہمیں بتایا گیا ہے کہ وہ اچھے سرجن ہیں اور ایک آپریشن کی فیس 20  ہزار روپئے لیتے ہیں ان کے ہاتھ میں شفا بھی ہے اور مریض ان پر بھروسہ کرتے ہیں ۔ یہی حال اویسی صاحب کا ہے کہ وہ پارلیمنٹ کے ممبر ہیں سنا ہے حیدر آباد میں ایک میڈیکل کالج اور ایک اسپتال بھی ہے۔ آدمی کتنی ہی رعایت کرے یہ تینوں شعبے ایسے ہیں جہاں دولت برستی ہے۔ اس کے باوجود نہ جانے وہ کونسی مجبوری ہے جو انہیں حکومت کا غلام بناکر رکھتی ہے۔

ڈاکٹر ایوب نے تو صرف اخبار میں اشتہار دیا جو یقین ہے کہ انہیں بغیر پیسوں کے ملا ہوگا کیونکہ انقلاب دینک جاگرن کا ہے جو بی جے پی کے لئے وقف ہے اس کے علاوہ کسی ایک اخبار میں چار سطر کا اشتہار بھی نہیں چھپا۔ اور پورے اترپردیش میں ان کے اُمیدوار کہاں کہاں ٹھہرے یہ بھی راز ہی رہا۔ ایک بار انہوں نے اپنے بیٹے کا ذکر کیا تھا اور دو چار اشتہاروں میں دو دلت چہرے نظر آئے تھے۔ لیکن اویسی صاحب کے اُمیدوار جہاں بھی تھے ان پر انہوں نے بہت محنت کی لیکن وہ کوئی بھی الیکشن جیتنے کے لئے نہیں لڑتے کیونکہ اگر دو چار سیٹیں جیت گئے تو ان کا کیا بھلا ہوگا؟ مہاراشٹر میں انہوں نے اپنے امیدوار کھڑے کردیئے اور سماج وادی پارٹی کے چھ اُمیدواروں کو ہراکر بی جے پی کو فائدہ پہونچا دیا اب تین سال ہونے والے ہیں اویسی کے ان دو ممبروں نے کیا کیا؟ یہ سب کے سامنے ہے۔

اویسی صاحب کو تو ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے الیکشن لڑنے کی بیماری ہوگئی ہے پارلیمنٹ سے لے کر کارپوریشن تک ملک میں کہیں بھی الیکشن ہو وہ وہاں ذلیل ہونے کے لئے پہونچ جاتے ہیں ۔ ان کے والد صلاح الدین اویسی صاحب آندھرا تک محدود رہتے تھے۔ وہ بھی وزیر اعظم کی نظر میں اپنا مقام بنائے رکھتے تھے لیکن ایسی بھونڈی دلالی نہیں کرتے تھے اور نہ سارے ملک کے مسلمانوں کی قیادت کا انہیں شوق تھا۔ اسی لئے وہ محترم بن کر جئے اور محترم ہی دنیا سے گئے۔

آج تو ہم صرف مبارک پور کے انصاری بھائیوں سے شکایت کرنا چاہتے ہیں کہ ایک اتنے گندے الزام میں جیل سے ضمانت پر آنے والے ڈاکٹر ایوب کا انہوں نے کیوں استقبال کیا؟ اور وہ کون ہے جو یہ کہتا ہوا آیا ہو کہ ہاں میں نے کسی لڑکی کی عزت لوٹی ہے؟ اپنے کو بابا رام رحیم کہلانے والے گرمیت نے بھی سزا کا فیصلہ سن کر کہا تھا کہ میں تو نامرد ہوں کسی کی آبروریزی کر ہی نہیں سکتا اور اب جو کچھ اس نے کیا اور جس جس کے ساتھ کیا وہ سب سامنے آرہا ہے۔ ڈاکٹر نے جیل میں تو یہی کہا کہ مجھے بی جے پی نے جھوٹے الزام میں پھنسایا ہے۔ کسی اتنے مشہور ڈاکٹر اور ایک پارٹی وہ چاہے نام کی ہی ہو کے صدر اور سابق ایم ایل اے کو پولیس کسی کے کہنے پر ریپ کا الزام لگاکر جیل میں نہیں ڈال سکتی ان پر الزام اس لڑکی کے بھائی نے لگایا ہے اور مہینوں اس کی تحقیق ہوئی ہے اور یہ تحقیق کے زمانہ میں ہی کہا گیا تھا کہ اس لڑکی نے تین سو ٹیلیفون ڈاکٹر ایوب کو کئے تھے اور ایک سو سے زیادہ ڈاکٹر نے لڑکی کو کئے تھے۔

ہم نے اس وقت ہی لکھا تھا کہ ہم 1990 ء سے دل کے مریض ہیں اسی وقت ہمارے پیس میکر لگا تھا جو ڈاکٹر ایس کے دویدی نے لگایا تھا پھر 2000 ء میں دوسرا لگا اور تیسرا پیس میکر 2013 ء میں لگا تھا وہ بھی ڈاکٹر دویدی نے ہی لگایا تھا۔ 33  برس کے عرصہ میں ہم نے شاید اپنے ڈاکٹر کو 20  ٹیلیفون کئے ہوں گے اور انہوں نے شاید تین جبکہ معاملہ دل کا تھا۔ پھر ڈاکٹر ایوب کی مریضہ کیسی تھی جس نے تین سو ٹیلیفون کئے اور ڈاکٹر نے سو سے زیادہ؟ ڈاکٹر ایوب کو جب تک عدالت باعزت بری نہ کردے اور الزام کو جھوٹا نہ کہہ دے کسی مسلم بستی میں اس وقت تک ان کو داخل نہ ہونے دینا چاہئے۔ اگر ہم بھی ڈاکٹر ایوب کا استقبال کریں گے تو ان کروڑوں ہندوئوں میں جو بابا رام رحیم کو اپنا سب کچھ مانتے تھے اور کچھ اب بھی مانتے ہیں اور ہم مسلمانوں میں کیا فرق رہے گا؟

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔