امن و امان کا قیام ریاستی حکومت کی ذمہ داری ہے

نہال صغیر

فی الحال ملک میں دو تین ریاستیں ہی ایسی بچی ہیں جو مودی حکومت کے ہٹلری فرمان کے آگے جھکنے کو راضی نہیں ہیں۔ ان میں ایک مغربی بنگال بھی ہے۔ جہاں کی وزیر اعلیٰ کو بلا شبہ آئرن لیڈی کہا جاسکتا ہے۔ مغربی بنگال یا کولکاتا کا تازہ مسئلہ درگا پوجا اور محرم کا ایک ساتھ آنا ہے اور اس سلسلے میں ممتا کا امن و مان کی برقراری کیلئے پوجا اور محرم کیلئے گائیڈ لائین جاری کرنا فسادی فرقہ کو جس کہ بد قسمتی سے مرکز میں حکومت ہے بہت ہی ناگوار گزرا اور وہ لوگ کولکاتا ہائی کورٹ میں اس گائیڈ لائین کے خلاف پہنچ گئے۔ حالانکہ کل ہی ان کے وزیر قانون روی شنکر پرشاد نے عدلیہ کو نصیحت کی ہے کہ وہ اپنا کام کرے اور ہمیں اپنا کام کرنے دے۔ یہی بات کل ہی ممتا بنرجی نے بھی کہی ہے انہوں نے کہا کہ کوئی ہمیں یہ نہ بتائے کہ ہمیں کیا کرنا ہے کیا نہیں کرنا ہے۔ امن و امان کی ذمہ داری ان کی ہے وہ اس کیلئے جو مناسب ہو گا کریں گی۔

چار پانچ دن قبل کولکاتا ہائی کورٹ نے ممتا حکومت کو پھٹکار تے ہوئے کہا کہ جب بنگال میں امن و امان کا کوئی مسئلہ نہیں ہے تو پھر کیوں تیوہار الگ الگ کئے جارہے ہیں اور ہندو اور مسلمانوں میں تفریق کی جارہی ہے۔شاید عدلیہ کے ہمارے منصف حضرات یا تو حالات سے بے خبر ہیں یا پھر وہ جان بوجھ کر عامیانہ سوال کرتے ہیں اور وہ سوال جو سنگھ اور بی جے پی والے اٹھا کر عوام کو بیوقوف بناتے ہیں۔ یہی وہ پارٹی ہے جو کانگریس پر مسلمانوں کی منھ بھرائی کا الزام عائد کرتی ہے اور پھر مسلمانوں سے ہمدردی کا ناٹک بھی کرتی ہے۔ اسی کے وزیر اعظم ہیں جو بات سوا ارب کی آبادی کا کرتے ہیں لیکن ان کی ساری دوڑ دھوپ مسلمانوں کی دشمنی کا اشارہ دیتے ہیں۔ کہیں وہ راست اور کہیں دوسرے ذرائع سے یہ کام کرواتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ اب ان کی پارٹی اور سنگھ کولکاتا کو بھی فسادات کی آگ میں جھونک دینا چاہتے ہیں۔ وہ تو خیر سے بنگال کے عوام نے انہیں بار بار دھول چٹادی ہے لیکن یہ بڑے بے شرم لوگ ہیں جو گالیاں سن کر بے مزہ نہیں ہوتے۔

اس لئے ان کی مسلسل کوشش یہ ہے کہ وہ کسی بھی طرح بنگال کو بھی اپنی گندگی کی آماجگاہ بنادیں۔ یہ بات کولکاتا ہائی کورٹ کو معلوم نہ ہو ایسا نہیں ہو سکتا۔ انہوں نے جان بوجھ کر اس طبقہ کو قوت پہنچانے کیلئے حکومت مغربی بنگال سے ایسا بے تکا سوال کیا ہے۔ بہر حال بات مغربی بنگال کی چل رہی ہے۔ میرا بچپن سے ہائی اسکول تک کا زمانہ کولکاتا میں ہی گزرا ہے اور وہاں گزرا ہے جہاں مسلم آبادی ہونے کے باوجود درگا پوجا کے پنڈال سے کسی کو کوئی اعتراض نہیں ہے۔ اس کی وجہ وہاں کے عوام کی آپسی بھائی چارہ کی خصلت ہے۔ دوسری اہم وجہ انتظامیہ کی چستی اور غیر جانبداری ہے جو اب ہندوستان میں خال خال ہی نظر آتا ہے۔

آج کوئی پہلا موقعہ نہیں ہے جب درگا پوجا یا مسلمانوں کا کوئی تہوار ایک ساتھ آیا ہو۔ پہلے بھی ایسا ہو تا آیا ہے اور ہمیشہ انتظامیہ نے اسے خوش اسلوبی سے نپٹایا ہے اور عوام نے ان کا تعاون کیا ہے۔ کہہ سکتے ہیں کہ امن پسندی اور مل جل کر رہنا کولکاتا اور بنگال والوں کی سرشت میں شامل ہے۔ ہم نے وہ وقت دیکھا ہے کہ جب مسجد کے سامنے بھی درگا پوجا پنڈال سے مسلمانوں کو کوئی اعتراض نہیں ہوا جبکہ وسرجن والے دن بقرعید تھی۔ انتظامیہ نے درگا پوجا پنڈال کے ذمہ داروں کو ایک دن قبل شام تک کا وقت دیا تھا۔ شاید پنڈال انتظامیہ کچھ وقت زیادہ لے لیا تو پولس اپنے لاؤ لشکر کے ساتھ آئی اور اس نے سب کچھ صاف کرکے مسجد کے سامنے نماز کیلئے جگہ بنائی اور پنڈال والوں کو اس کا جرمانہ بھرنا پڑا تھا۔

ممتا سے ایک غلطی یہ ہو گئی کہ انہیں اس طرح کے فیصلے سر عام نہیں کرنے چاہئے تھے۔یہ انتظامیہ کو وارننگ دے کر ان کے حوالے کردیتیں تو معاملہ طول نہیں پکڑتا۔ لیکن کئی بار ایسا ہوتا ہے کہ معاملہ اتنا سیدھا نہیں ہوتا ہے جتنا کہ ہم سمجھ لیتے ہیں۔ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ ہم سمجھتے کچھ ہیں اور ہوتا کچھ اور ہے۔ ظاہر سی بات ہے کہ حکومت کے پاس ریاستی خفیہ ایجنسی بھی ہوتی ہے جس نے کوئی ایسی خبر دی ہوگی جس کی وجہ سے ممتا کو علی الاعلان درگا وسرجن کی بات کو سر عام کہنا پڑا۔ ممتا کے اُس اعلان پر لالو پرشاد نے اپنے ٹوئٹ میں ممتا کو متنبہ بھی کیا تھا کہ آپ سنگھ کے جال میں پھنس رہی ہیں۔ لالو پرشاد کا کہنا تھا کہ اب یہ سنگھ والے ہندوؤں کو دبانے کی بات کا رونا رونا شروع کردیں گے اور وہی ہوا۔ ہائی کورٹ میں معاملہ گیا اور اس نے فٹافٹ حکومت کے خلاف ریمارک پاس کردیا۔

یہ وہی کولکاتا ہائی کورٹ ہے جہاں سے 80 کی دہائی میں گؤ کشی پر اسٹے لگایا گیا تھا جس کا معاملہ اب سپریم کورٹ میں تب سے زیر التوا ہے اور سپریم کورٹ کا کولکاتا ہائی کورٹ کے اسٹے پر اسٹے ہے۔ یہ وہی کولکاتا ہائی کورٹ ہے جس نے اسی 80کی دہائی میں چاندمل چوپڑہ کی قرآن کے خلاف درخواست کو سماعت کے لئے قبول کرلیا تھا۔ممتا کے انتظامی فیصلے جو کہ بنگال میں امن و امان کی برقراری کیلئے ہیں پر ہائی کورٹ کو کہنا چاہئے تھا کہ یہ انتظامی معاملہ ہے وہ اس میں مداخلت نہیں کرسکتے لیکن یہاں تو پوری گنگا ہی الٹی بہہ رہی ہے۔عدلیہ اپنا وقار بڑی تیزی کے ساتھ کھوتی جارہی ہے۔

وزیر اعلیٰ مغربی بنگال ممتا بنرجی کو ایک ایک قدم پھونک پھونک کر اٹھانا ہوگا۔ سنگھ اور بی جے پی کی پوری فسادی منڈلی اس ریاست کو تاکے بیٹھی ہے کہ کب موقعہ ملے اور اسے بھی اپنے خونی پنجہ کا شکار بنایا جائے۔ ایسی صورت میں جبکہ مغربی بنگال کی مارکسی کمیونسٹ پارٹی بھی ہندو ہو گئی ہے اور انہوں نے اپنے کیڈر کو درگا پوجا میں شامل ہونے کی اجازت دے دی ہے جبکہ ان پارٹیوں کے مسلمان رکن کو حج کی اجازت لینی پڑتی ہے وہ بلا اجازت حج کو نہیں جاسکتے۔ ایسے حالات میں ممتا بنرجی اگر بنگال کو بچانا چاہتی ہیں تو بڑے تحمل اور بردباری سے خونی بھیڑیوں کا مقابلہ کرنا ہوگا۔ کمیونسٹ بھی سیاسی دشمنی میں کمیونسٹ سے ہندو بن رہے ہیں۔ اس کی ایک مثال گورکھا لینڈ کی مانگ پردارجلنگ ہڑتال کی سی پی آئی کے ذریعہ حمایت بھی ہے۔

سب کو پتہ ہے کہ دارجلنگ میں گورکھا لینڈ والی تحریک کو پھر سے زندہ کرنے کے پیچھے بی جے پی کا ہاتھ ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ایک تو بی جے پی والی ریاستوں میں کسانوں ،جاٹوں اور گوجروں کی تحریکوں نے ان کا ناک میں دم کردیا تھا تو انہوں نے اس خیال سے غیر بی جے پی ریاستوں میں خلفشار کو ہوا دیا کہ میڈیا اور عوام کا ذہن ادھر نہ آنے پائے کہ بی جے پی کی ریاستوں میں ہی فسادات کیوں ہے ؟یعنی بی جے پی چاہتی ہے کہ اس کی ریاستوں میں امن نہیں تو کسی دوسری ریاستوں میں امن کیوں ؟ ان کی ریاستوں میں کسان خودکشی کررہے ہیں اور بڑے تعلیمی بدعنوانی ویاپم جیسے میں پچاس سے زیادہ لوگ چوہوں کی طرح جگہ بجگہ مرے پائے گئے تو دوسری ریاستوں کے عوام خوشحال کیوں رہیں ؟ ان کے یہاں گؤ نسل کے ذبیحہ پر پابندی سے کسان غیرب مزدور چمڑے کی صنعت تباہ ہوئے ہیں تو بنگال اور کیرالا وغیرہ میں کسان ،مزدور کیوں بدحالی کا شکار نہ ہوں اور چمڑے کی صنعت سے اس ریاست کی معیشت کو تقویت کیوں ملے ؟

کل ملا کر بی جے کی پریشانی یہ ہے کہ اس کی خراب پالیسی کے سبب ان کی حکومت والی ریاست دم کٹی بلی بن چکی ہے تو دیگر ریاستوں کا بھی یہی حال ہونا چاہئے۔ اس لئے ممتا کو جوش نہیں ہوش سے اور جلد بازی نہیں بلکہ حکمت سے کام لینا ہوگا۔ کیوں کہ اب پورے ملک کے انصاف پسندوں کی نظریں ان کی ہی طرف ہیں۔ ہر چند کے ان کی صف میں کچھ اور ریاستیں بھی شامل ہیں جیسے دہلی اور کیرالا لیکن انہیں مرکزیت حاصل ہے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔