بتاؤ کیوں مُسکرا رہے ہو

احمد علی برقیؔ اعظمی

تم آرہے ہو کہ جا رہے ہو
بتاؤکیوں مُسکرا رہے ہو

یہ کیسا جلوہ دکھا رہے ہو
نگاہ و دل میں سما رہے ہو

کرو گے کیا خاک خانۂ دل
نظر سے بجلی گرا رہے ہو

ملے گا کیا ایسا کرکے تم کو
کیوں مجھ کو ناحق ستا رہے ہو

ہے عارضی کر و فر تمہارا
یہ جشن جو تم منا رہے ہو

منائے گا خیر اپنی کب تک
جسے تم اب تک بچا رہے ہو

لہو پُکارے گا آستیں کا
جو قتل کرکے چھپارہے ہو

جہاں میں کردے گا تم کو رسوا
جو ظلم برقی پہ ڈھا رہے ہو

تبصرے بند ہیں۔