بزمِ رہبر کے زیر اہتمام آل بہار مشاعرہ کا انعقاد

صوبہ بہار کے دربھنگہ ضلع کے نوجوان شاعر وصحافی ڈاکٹر منصور خوشتر کو ان کی ادبی خدمات کے اعتراف میں بزمِ رہبر نے ’’مولانا ظہور رحمانی ایوارڈ‘‘ سے نوازا۔ اس موقع پر بزمِ رہبر نے آل بہار مشاعرہ کا انعقاد کیا جس کی صدارت عالمی شہریت یافتہ شاعر ڈاکٹر عبدالمنان طرزی اور نیاز احمد (سابق اے ڈی ایم) نے مشترکہ طورپر کی اور نظامت کے فرائض مشہور ومعروف شاعر جمیل اختر شفیق نے بحسن وخوبی انجام دئے۔ اس تقریب میں شہر کے اہلِ علم ودانش نے کثیر تعداد میں شرکت فرمائی۔ ملّت کالج کے کانفرنس ہال میں پر وقار تقریب کا انعقاد اور سامعین کے جمِ غفیر سے اس بات کا اندازہ ہوا کہ منصور خوشتر کی ادبی خدمات کو تمام لوگ سراہتے ہیں۔ بزم کی جانب سے منصور خوشتر کو سند، شال، ٹوپی اور خوبصورت مومنٹو اور گلدستہ دے کر عزت افزائی کی گئی۔ ساتھ ہی عرفان احمد پیدلؔکو صحافتی خدمات کے لئے اورڈاکٹر عقیل صدیقی کو انجمن ترقی اردو کے کمشنری رکن کے لئے اور ڈاکٹر عالم گیر شبنم کو ریاستی نائب صدر بننے پر اعزاز دیا گیا۔ جو ان کی غیر موجودگی میں ان کے رفقاء نے حاصل کئے۔اس موقع پر عالمی شہرت یافتہ شاعر پروفیسر عبدالمنان طرزی نے اپنا تاثر پیش کرتے ہوئے کہا کہ جہاں ایک طرف منصور خوشتر نے صحافت اور نثری میدان میں کارہائے نمایاں انجام دئے وہیں دوسری طرف’’ کچھ محفلِ خوباں کی ‘‘شعری مجموعہ کے ساتھ معتبر اشعار سے قارئین کی توجہ اپنی جانب مبذول کرائی۔ انہوں نے ایک منظوم تاثربھی پیش کیا جس میں انہو ں نے کہا کہ    ؎

مختلف صنفوں میں دکھلایا ہے ان کا اجتہاد

جس سے ظاہر خود ہی ہو جاتاہے اُن کا انفراد

تبصرے ہوں کہ مقالے اُن کے، ہیں منظوم ہی

تذکرے شعری کو اپنا مانتے مقسوم ہی

وہیں اس موقع پر ڈاکٹر احسان عالم نے ڈاکٹر منصور خوشتر کی ادبی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ آج بہار اور بہار سے باہر اِن کے کارناموں کو لوگ سراہنے لگے ہیں۔ چند لوگ اپنا قیمتی وقت صرف یہ جاننے میں ضائع کرتے ہیں کہ یہ شخص اتنا کام کیسے کرتا ہے۔ بہر حال آج ہندوستان اوربین الاقوامی سطح پر لوگ ان کے ادبی کارناموں سے معترف ہو چکے ہیں۔ وہیں آل انڈیا مسلم بیداری کارواں کے قومی صدر نظر عالم نے اپنے بیان میں کہا کہ مقامی سطح پر بزمِ رہبر کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ یقینا ارد ادب، اردو زبان کو جس پلیٹ فارم نے سچے دل سے اپنایا اور اس سے جڑ کر اردو شاعری کی جمالیات سے خواص عام کو محظوظ کروایا وہ اور کوئی نہیں بزمِ رہبر ہی ہے۔ یہاں اس بات کا ذکر بھی کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ اردو کی موجودہ حالت اور اردو پروفیسر اوران کی بد دماغی شاید لازم وملزوم ہے۔ ڈاکٹر خوشتر اردو دنیا کا وہ نام ہے جنہوں نے ماہرینِ ادب وماہرینِ زبان وادب کے رہبر معلوم پڑتے ہیں۔ اللہ انہیں نظر بد سے محفوظ رکھے۔ بزمِ رہبر نے ڈاکٹر منصور خوشتر کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے انہیں نوازنے کی جو پہل کی ہے ہم اس کی بے حد تعریف کرتے ہیں اور بزمِ رہبر کی نظرِ انتخاب کی داد دیتے ہیں۔ بزمِ رہبر کے سرپرست انجنئیر عمر فاروق رحمانی کی محنت ومشقت سے بزم کا پروگرام کافی کامیاب رہا جس کے لئے تمام دانشورانِ شہر نے رحمانی صاحب کا شکریہ ادا کیا۔ اس کے بعد خوبصورت مشاعرے کا انعقاد ہوا جس میں شریک شعراء کے پسندیدہ اشعار درج کئے جاتے ہیں    ؎

مقصود عالم رفعت

تقاضہ حبِ وطن کا ہے کہ خموش ہیں ہم

وگرنہ منہ میں ہم بھی زبان رکھتے ہیں

م۔سرور پنڈولوی

تخت وتاج والی بھی داستاں ہماری تھی

آج کی یہ محکومی سانحہ ہمارا ہے

پروفیسر محمد سکندر اعظم

غضب کر جاتاہے بھائی کا بھائی مال پر ان کو

ذرا بھی اپنی حرکت پر پشیمانی نہیں ہوتی

جہانگیر راہی مظفرپوری

تیرے آنچل کو سجانے کے لئے تارے کیاہیں

توڑ کر چاند بھی لا سکتا ہوں لیکن چھوڑو

غلام علی وارثی

وہ بے نقاب آئے ہیں خلوت سے بزم میں

محفل تمام ٹوٹ کے محفل میں رہ گئی

ڈاکٹر نورمحمد عاجز

خودی شناس جو انساں نہیں توکچھ بھی نہیں

خدا شناس جو ایماں نہیں تو کچھ بھی نہیں

نیاز احمد

علم وحکمت ہو سمندی عقل ودانش چاہئے

اہلِ حق کا پھر خزانہ نرغۂ باطل میں ہے

شاکر خلیق

سپردِ خاک مجھے کرکے آگئے لوگاں

نجات خدمتِ بیجا سے پاگئے لوگاں

جنید عالم آروی

دیکھ پائو گے نہ آنکھوں سے تباہی میری

تم نہ آنا کبھی بھولے سے اِدھر شام کے بعد

محامد حسین ناچیز

برسات یہاں اب کے برس جھوم کے ہوگی

مدت پہ یہ گھنگھور گھٹا آج لگی ہے

شہنواز انور

سارے موسم اداس لگتے ہیں

جب سے آنکھوں نے کربلا دیکھا

عرفان احمد پیدل

تلک لینے پہ جی ایس ٹی لگے گا یارو

کنوارے باپ ہو تم چیک کرالو یارو

تمہاری شادی کبھی ہو نہیں سکتی پیدلؔ

اپنا شجرہ آدھار سے لنک کرالو یارو

ندا عارفی

کیو ں بانٹتے ہو قوم کو مذہب کے نام پر

ہم سب کا خون ایک ہے تم کو پتا نہیں

خون چندن پٹوی

جس کا کردار خود گواہی دے

وقت کا وہ امام ہے صاحب

حیدر وارثی

جہل رخصت ہوا آگہی کے لئے

جب سے تابش بڑھی روشنی کے لئے

نصیر احمد عادل

خاک میں اس کی کہیں آگ دی ہے اب بھی

ورنہ پھر قصر سے چنگاری اٹھے گی کیسے

منظر ریونڈھوی

وہ نہ سورج ہے نہ کوئی چاند جانے کس طرح

راستہ تاریکیوں میں بھی دکھا دیتا ہے وہ

ڈاکٹر ارتضیٰ اسراہوی

دن رات مذہب کی سیاست کرکے

ہندو مسلم کا کفن بیچ رہا ہوں

حسین منظر

کبھی کبھی کی نصیحت بہت ضروری ہے

شریر بچہ ہر اک آدمی میں رہتا ہے

ڈاکٹر احسان عالم

ہمنوا سارے زمانے کو بناتے چلئے

دشمنوں کو بھی گلے اپنے لگاتے چلئے

ڈاکٹر مستفیض احد عارفی

آسماں پر نہ اترائو ایسے صنم

آسماں سے گروگے غضب دوستو

منظر صدیقی

کہہ رہا ہے ہر قدم

راہ خاردار ہے

رب پہ ہے یقین تو

اپنا بیڑا پار ہے

ایم اے صارم

منتشر ہوکے کہیں کے نہ رہوگے سن لو

بعد میں آہ وفغاں خوب کروگے سن لو

اب کوئی کشتی جلانے کی ضرورت کیا ہے

ایک ہو جائوگے تو خورشید بنوگے سن لو

انام الحق بیدار

میری بیتابیٔ دل اور بڑھی جاتی ہے

اپنی آنکھوں کے سمندر میں اتر جانے دو

جمیل اختر شفیق

ملے خیرات میں عہدہ تو فوراً دوڑ مت جانا

یہی اک بھول قائد سے قیادت چھین لیتی ہے

انجنئیر عمر فاروق رحمانی

یہاں لمحہ لمحہ سرائے ہے کوئی آلے ہے کوئی جائے ہے

یہاں صرف تیرا وجود ہے یہاں صرف تیرا قیام ہے

نسیم اختر برداہوی

اشکوں کے دئیے پلکوں پہ خود اپنی جلائو

ہر روز اخترؔ سے ضیاء مانگنے والو

ایمل ہاشمی مائل

دکھ درد چیختے ہیں دلِ داغدار کے

نظروں میں آنہ جائیں کہیں غمگسار کے

عاطف فریدی سریّاوی

نئے دور کا اس طرح انتخاب ہوگیا

مانو گناہ بھی اب ثواب ہوگیا

عریانیت اس قدر چھائی ہم میں

نقاب خود بے نقاب ہوگیا

اس موقع پر کثیر تعداد میں سامعین موجود تھے جن میں پروفیسر امتیاز احمد، ظفر فریدی، پروفیسر نسیم الدین، ممتاز احمد،حافظ ولی اللہ، فردوس علی ایڈوکٹ،سراج احمد مکھیا جی، لئیق منظر واجدی، سلطان شمسی، جاوید ذوالقرنین، نسیم الدین، ڈاکٹر محمد بدرالدین، انجنئیر خورشید عالم، نیاز احمد (مالے لیڈر)،ڈاکٹر راحت علی، شاہد اطہر، پپو،وسیم اختر، محمد شمشادوغیرہ کے نام شامل ہیں۔

تبصرے بند ہیں۔