گھٹن

آبیناز جان علی

توڑ کے رسم کے بت بندِ قدامت سے نکل

ضعفِ عشرت سے نکل وہمِ  نزاکت سے نکل

نفس کے کھینچے ہوئے حلقہء عظمت سے نکل

قید بن جائے محبت تو محبت سے نکل

راہ کا خار ہی کیا گل بھی کچلنا ہے تجھے

اٹھ مری جان! مرے ساتھ ہی چلنا ہے تجھے

(کیفی اعظمی)

آج پھر حسنہ کی آنکھوں سے آنسو نکلے۔ رات بھر رونے کی وجہ سے اس کی آنکھیں سوجھی ہوئی تھیں ۔ اس کا شوہر اس کی بغل میں خوابِ خرگوش کی نیند میں پڑاتھا جبکہ وہ تارے گن رہی تھی۔ حسنہ لاکھ سمجھنے کی کوشش کر رہی تھی کہ آخر اتنی اداسی اور مایوسی اس کے اندر کیونکر پیدا ہوگئی۔ لیکن اس کے ذہن میں جواب نہ دارد۔ وہ ہمیشہ سے ایک ہنس مکھ اور خوش مزاج لڑکی تھی جس نے اپنی پوری زندگی ایک حسین تتلی کی طرح پھولوں کے درمیان گزار دی تھی۔

ایک مہینے پہلے نہایت تزک و احتشام سے اس کی شادی ہوئی تھی۔ وہ بہت خوش تھی کہ اسے حامد جیسا رفیقِ حیات نصیب ہوا۔ وہ حامد کو ایک سال سے جانتی تھی۔ حامد اس کے خوابوں کا شہزادہ ثابت ہوا جو اس کی معمولی سی معمولی خوشی کے لئے زمین آسمان ایک کر دیتا۔ حسنہ نے حامد کو ہر طرح سے بھروسے کے لائق جانا اور اس سے شادی کرنے کے لئے راضی ہوگئی۔

شادی کے بعد حسنہ اپنے ساس سسر اوراپنے شوہر کی چھوٹی بہن گلنار کے ساتھ رہتی تھی۔ حسنہ کے والدین نے شادی سے پہلے اپنی بیٹی کو سمجھایا کہ ساس سسر سے مل جل کر رہنا۔ ان کا خیال رکھنا اور ان کی ہر بات ماننا۔ چنانچہ حسنہ نے پوری قوت سے بہو کی ذمہ داریاں سنبھالیں۔

صبح سویرے اٹھ کر وہ گھر کی صفائی کرتی۔ ناشتہ تیار کرتی اور پھر نوکری پر جاتی۔ آفس سے لوٹ کر وہ اپنی ساس کو عشائیہ تیار کرنے میں

مدد کرتی۔ رات کو پورا گھر اکھٹا کھانا کھاتا۔ اس کا شوہر خوش تھا کہ اس کی بیوی اس کے گھر والوں سے گھل مل گئی ہے اور ان کا خیال رکھ رہی ہے۔

حسنہ کی ساس کو دل کی بیماری تھی۔ چنانچہ اس کی صحت اکثر ناساز رہتی۔ اس لئے گھر کا زیادہ تر کام کاج حسنہ کے ذمہ آتا۔ اس کی ساس اس سے بازار سے چیزیں منگواتی اور وہ سامان لاتی۔ جمعہ کی رات کو پورا گھر باہر کھانا کھانے جاتا۔ سنیچر کو عموماً حامد کی دادی کے یہاں ان کو مدعو کیا جاتا اور پورا گھر دادی کے ساتھ وقت گزارتا۔ پھر اتوار کو حسنہ اپنے شوہر کے ساتھ اپنے والدین کے گھر آتی۔ اپنے ماں باپ سے ہفتہ میں ایک بار مل کر حسنہ کا دل باغ باغ ہوتا۔ کبھی کبھی حامد اس کے گھر پر ٹھہرتا بھی تھا۔

گلنار اپنے والدیں کی اکلوتی بیٹی تھی۔ سب لوگ اسے سر آنکھوں پر بٹھاتے تھے۔ حسنہ بھی اپنی نند سے پیار کرتی تھی۔ ا سے اپنے شوہر کی ہر چیز عزیز تھی۔ اس لئے وہ گلنار کے لئے تحائف خریدتی جسے گلنار خوشی خوشی قبول کرتی۔ گلنار یونیورسٹی میں وکالت کا کورس کر رہی تھی۔ زیادہ تر وقت وہ اپنی پڑھائی میں صرف کرتی یا اپنے دوستوں کے ساتھ گھومنے جاتی۔

ایک دن حسنہ کی کمپنی میں فرانس سے ایک کلائنٹ آیا تھا جس کے اعزاز میں کمپنی نے عشائیہ رکھا تھا۔ تمام ملازمین کو ہدایت دی گئی تھی کہ اس تقریب میں ان کی شرکت ضروری ہے۔ گھر آکر حسنہ نے حامد کو یہ بات بتائی۔ حامد نے جانے کی اجازت دے دی۔ حسنہ جب تیار ہو کر نکلنے لگی تو اس کے سسر نے ٹوکا:

’’کہاں جارہی ہو؟‘‘

"جی آفس میں آج ملازمین کے لئے عشائیہ ہے۔ جانا ضروری ہے۔‘‘

’’اچھا تو اب بہو رات کو اکیلی گھر سے باہر جائے گی اور اس کا شوہر اور ساس سسر گھر پر رہیں گے؟‘‘

حسنہ کو اس غیر متوقع رویہ پر سخت حیرت ہوئی۔

’’لیکن حامد نے جانے کے لئے ہامی بھری ہے۔‘‘

’’یہ میرا گھر ہے۔ میری مرضی کے بغیروہ فیصلہ لینے والا کون ہے؟‘‘  حسنہ کے سسر نے غرّا کرکہا۔

حسنہ  کا دل بیٹھ گیا اور وہ چپ چاپ اپنے کمرے میں چلی گئی۔ اس نے آفس والوں کو فون کر کے بتایا کہ اس کی ساس کی طبیعت خراب

ہونے کی وجہ سے وہ نہیں آپائے گی۔ زندگی میں پہلی بار کسی نے حسنہ کو کوئی کام کرنے سے روکا تھا۔ حسنہ کے والدین نے ہمیشہ اس پر پورا بھروسہ کیا تھا۔ وہ جانتے تھے کہ ان کی بچی سمجھدارہے اور کوئی غلط قدم نہیں اٹھائے گی۔

حامد آہستہ سے حسنہ کے پاس آکر بیٹھ گیا۔

’’ابا کی باتوں کا برا مت ماننا۔ انہیں تمہارا خیال ہے اس لئے تمہیں رات کو اکیلا باہر بھیجنے سے ڈرتے ہیں ۔‘‘

حسنہ نے خاموشی اختیار کر لی۔

’’چلو تمہارا موڈ ٹھیک کرنے کے لئے میں وعدہ کرتا ہوں کہ سنیچر کو تم اور میں اومورن کے ہوٹل میں گھومنے جائیں گے۔ میں کل ہی بوکنگ کردیتا ہوں ۔ اب خوش؟‘‘

حسنہ مسکرا دی۔

سنیچر کی صبح حسنہ تیار ہونے لگی۔ تبھی حامد کے والد نے حسنہ کو بلا کر کہا کہ وہ حامد کے علیل چچا کو دیکھنے جائیں گے۔

’’لیکن ہم نے ہوٹل ریزور کر لیا ہے۔‘‘

’’تو کینسل کر دو۔ میرا بھائی کتنے دنوں سے بیمار ہے۔ اس کو دیکھنے جانا ہوگا۔‘‘

حسنہ کی خوشیوں کا محل چکنا چور ہو گیا۔ کمرے میں آکر اس نے حامد کو سارا معاملہ بتایا۔ حامد بے بس ہو کرصرف اتنا ہی کہہ پایا:

"ہوٹل اگلی بار چلیں گے۔”

ایک دن حامد حسنہ کے لئے لال گلاب کا گلدستہ لایا۔ اسے دیکھ کر حسنہ کا دل بھی کھل اٹھا۔ حامد کی امیّ نے گلدستہ دیکھتے ہی پھولوں کی تعریفوں کے پل باندھنے شروع کر دئے۔ نہ جانے کیوں حسنہ کو ان کی تعریفوں سے چڑ ہونے لگی۔ اس کے دل میں ایک خیال آرہا تھا جسے دبانے کی وہ لاکھ کوشش کر رہی تھی۔ اس کی ساس نے اس کی کسی بھی چیز کی پہلے کبھی تعریف نہیں کی تھی۔  اب یہ گلدستہ چونکہ اس کے بیٹے نے خریدا تھا لہٰذاحسنہ کی ساس کو کتنا پیارا لگ رہا تھا۔

چند روز قبل گلنار نے ایک نئی شلوار پہنی تھی۔ گلنار کی امی نے اپنی بیٹی کے لباس کی خوب تعریف کی تھی۔ حسنہ نے بھی گلنار کے لباس کے

انتخاب پر اسے داد دی تھی۔ پھر بھی حسنہ کے دل میں کچھ چبھ رہا تھا۔ اتفاق سے حسنہ نے بھی اس روز نیا لباس پہنا تھا۔ لیکن کسی کو نظر نہیں آیا۔ حسنہ نے خود کو سمجھایا کہ یہ سب غیرضروری چیزیں ہیں ۔ ان پر دھیان دینے سے دل میں کڑواہٹ پیدا ہو جائے گی۔

حسنہ کی شادی کو آٹھ مہینے ہو گئے۔ وہ خوشی خوشی گھر آئی۔ اسے سب کو ایک خوشخبری دینی تھی۔ اس کے کام سے خوش ہو کر اس کے مالک نے اسے ترقی دی تھی۔ عشائیہ کی میز پر جب اس نے اس بات کا اعلان کیا تو اس کے شوہر نے اسے مبارکباد پیش کی۔ باقی لوگوں کے کانوں میں جوں تک نہیں رینگی۔ حسنہ کو یہ رویہ بہت ناگوار لگا اور خود کو بولتے ہوئے روک نہیں پائی:

’’گلنار نے جب یونیورسٹی ٹاپ کیا تھا تواس دن گھر میں گھی کے چراغ جلائے گئے تھے اور میری کامیابی کچھ نہیں ؟ ‘‘

’’یہ تم کیسی باتیں کر رہی ہو؟‘‘ گلنار نے کہا۔ ’’ہم تمہارے لئے خوش ہیں لیکن شادی کے بعد ایک لڑکی کا سب سے بڑا سکھ ایک اچھی بیوی اور ایک اچھی ماں بننے میں ہوتا ہے۔‘‘

’’کیا شادی کے بعد ایک لڑکی کو اپنی خواہشات کا گلہ گھونٹ دینا چاہئے؟ کیا اسے صرف گھر کی زندگی سے ہی مطمئن ہونا چاہئے؟ کیا اس کے اپنے شوق اور اپنی دلچسپیاں کوئی معنی نہیں رکھتیں ؟‘‘

حسنہ کی اس غیر معمولی بھڑاس کو سن کرہر کوئی دنگ رہ گیا۔ چند لمحوں کے سکوت کے بعدحسنہ کھانے کی میز سے اٹھ کہ چلی آئی۔ حامد تھوڑی دیر بعد کمرے میں آیا۔

’’ابا تمہاری اس حرکت سے ناراض ہیں ۔‘‘

’’اور تم؟‘‘

’’میں نہیں چاہتا گھر میں من میلا کرے۔‘‘

’’تم وہی چاہتے ہو جو تمہارے گھر والے چاہتے ہیں ۔۔۔میں گھٹ رہی ہوں کیونکہ اس گھر میں میری قدر نہیں ہوتی۔  تمہارے والد نے تو کہا تھا کہ اپنی بہو کو بیٹی کی طرح رکھیں گے۔ تو ان کی بیٹی کے لئے الگ قانون اور بہو کے لئے الگ قانون کیوں ؟‘‘

ْقدرے توقف کے بعد حسنہ نے کہا:

’’چلو ہم اپنا ایک الگ مکان کرایہ پر لیتے ہیں جہاں ہم دونوں اپنی مرضی کے مالک ہونگے۔ اپنی زندگی اپنے طریقے سے جئیں گے۔‘‘

’’نہیں !  میں اپنے والدین کو نہیں چھوڑ سکتا۔ میری امیّ مریضئہ قلب ہیں ۔ مجھے ان کا خیال رکھنا ہے۔‘‘

’’شادی سے پہلے تم مجھے خوش رکھنے کے کتنے دعویٰ کیا کرتے تھے۔ کہاں گئیں وہ تمام قسمیں ؟‘‘

’’تمہاری مانگ جائز نہیں ہے۔‘‘ حامد نے صاف صاف کہا۔

حسنہ نے ایک بار پھر شب بیداری کی۔ وہ خود کو کوستی بھی رہی۔ وہ ایک خاندان سے اس کے بیٹے کو چھیننے والی لڑکی نہیں تھی۔ لیکن دوسری طرف حامد کے گھر والوں نے اس کے احساسِ مروت پر حملہ کیا ہے۔ وہ حامد سے پیار کرتی تھی۔ پھر بھی اس پیار کی خاطر وہ کس حد تک اپنے وجود کو مٹا سکتی تھی؟  رات بھر جاگ کر حسنہ نے گھر چھوڑنے کا فیصلہ کیا۔ اس فیصلے سے یقینا سب ناخوش ہونگے۔ شاید حامد کو خودمختار بنانے کا یہ ایک ذریعہ تھا۔ گھٹ گھٹ کر جینا سے اورخود کو فنا کرنا حسنہ کو منظور نہیں ۔ اگر حامد اس کے پاس واپس نہ آیا کم ازکم حسنہ کے ذہن کو ٹھنڈک تو ملے گی اور وہ کھلی فضا میں سانس تو لے پائے گی۔

تبصرے بند ہیں۔