تمہارے عدل کا معیار دیکھنے کے لیے

احمد کمال حشمی

ہُوا ہوں خود ہی گرفتار دیکھنے کے لیے
تمہارے عدل کا معیار دیکھنے کے لیے

سجا کے رکھے ہیں سونے بھی ہم نے پیتل بھی
یہ سب ہیں ذوق خریدار دیکھنے کے لیے

یہ اور بات کہ رونق اسی کے دم سے ہوئی
جو آیا رونقِ بازار دیکھنے ک لیے

یہی خیال مجہے فتح یاب کرتا ہے
کہ سب ہیں آئے مری ہار دیکھنے کے لیے

سزا سنائی گئی میری بے گناہی کو
امڈ پڑے ہیں گنہگار دیکھنے کے لیے

کسی نے قوتِ بازو کی میری داد نہ دی
سب آئے تہے مری تلوار دیکھنے کے لیے

کسی کا وقت سدا ایک سا نہیں رہتا
چلے طبیب کو بیمار دیکھنے کے لیے

نہ دیکھ پاؤگے جو کچھ دکھایا جائے گا
کماؔل آئے ہو بیکار دیکھنے کے لیے

تبصرے بند ہیں۔