نوکر بنام آقا

حفیظ نعمانی

ہماری سیاسی زندگی اب تک کی عمر کے حساب سے دیکھی جائے تو چوتھائی ہوگی۔ پروردگار کا احسان ہے کہ اس پوری زندگی میں کوئی داغ نہیں لگا ہے۔ اس زمانہ میں بڑے بڑے لوگوں سے تعلقات رہے بڑوں بڑوں کا اعتماد حاصل رہا اور بہت کچھ دیکھا۔ یہ بات اس وقت کی ہے جب سید علی ظہیر صاحب اترپردیش میں وزیر قانون و انصاف تھے۔ ہم اپنے ایک عزیز کے کام سے ان کے پاس بیٹھے تھے کہ اتنے ہی میں بدایوں کے ایک سابق ایم ایل اے (شاید) فخر عالم آئے تو علی ظہیر صاحب نے دونوں ہاتھ پھیلاکر استقبال کیا۔ چند جملوں کے تبادلہ کے بعد کہا گیا کہ پہلے تو ہم نے وکالت کو چھوڑا تھا اب وکالت نے ہمیں چھوڑ دیا ہے۔ سید صاحب نے کہا کہ ہم سرکاری وکیل بنائے دیتے ہیں جتنے دن آپ چاہیں گے باعزت زندگی گذر جائے گی۔ سید علی ظہیر صاحب نے سکریٹری کو بلاکر سمجھا دیا۔

اتفاق کی بات اس وقت بھی ہم وہیں تھے جب فخر عالم اجازت لے کر اندر آئے۔ علی ظہیر صاحب نے کہا کہ کہئے سرکاری وکالت کیسی چل رہی ہے؟ انہوں نے کہا کہ کیسی سرکاری وکالت؟ وہاں تو کوئی آرڈر نہیں پہونچا۔ علی ظہیر صاحب نے سکریٹری کو بلوایا اور معلوم کیا کہ ان کے لئے جو تم سے آرڈر لکھوانے کو کہا تھا اس کا کیا ہوا؟ تو سکریٹری نے ہلکی آواز میں نہ جانے کیا کہا کہ علی ظہیر صاحب کا چہرہ سرخ ہوگیا اور انہوں نے فائل سکریٹری کے منھ پر مارتے ہوئے کہا کہ وزیر میں ہوں کہ تم ہو یہ فیصلہ تم کروگے یا میں کہ کہاں کتنے اور کیسے سرکاری وکیل ہونا چاہئیں؟ جائو اور ایک گھنٹہ میں سب کچھ بناکر لائو۔

اور یہ بات 1970 ء کی ہے ہمارے ایک دوست نے ایک بہت بڑا کولڈ اسٹوریج دریاباد میں بنایا تھا ان کی ضد تھی کہ اس کا افتتاح چودھری چرن سنگھ سے کرادو۔ ہم نے اپنے تعلق کی بناء پر ان سے وعدہ کرلیا تھا۔ ہم چودھری صاحب کے گھر گئے تو وہاں ملنے والوں کی لائن لگی تھی۔ ہم گئے تو چودھری صاحب نے کہا کہ آئو بیٹھو۔ ملنے والوں کا سلسلہ ختم ہوا تو انہوں نے معلوم کیا کہ کوئی بات کرنا ہے؟ ہم نے بتایا کہ دریاباد میں ایک گھنٹہ کے لئے لے جانا چاہتا ہوں وہاں کم از کم دس ہزار کسان جمع ہوں گے۔ آپ تقریر کرکے کولڈ اسٹوریج کا فیتہ کاٹ کر آجائیں۔ انہوں نے کہا کہ اگر مجھے ہی لے جانا تھا تو پورے جوار میں ڈھول بجانے سے پہلے مجھ سے یہ تو معلوم کیا ہوتا کہ میں ملوں گا بھی یا نہیں؟ میں تو کل رات کو جارہا ہوں اور دس دن کے بعد واپس آئوں گا۔ اب تم جے رام ورما جی کو لے جائو وہ گاندھیائی اور کسان لیڈر ہیں۔ اتنے میں ہی ہوم سکریٹری نے آنے کی اجازت چاہی۔

ہوم سکریٹری کاغذ پلٹتے رہے اور دستخط کراتے رہے کہ اچانک چودھری صاحب رُکے اور معلوم کیا کہ اس آرڈر کا کیا ہوا جو میں نے ریٹائر ہونے والے ہیڈ کانسٹبل کے لئے تم سے بنانے کے لئے کہا تھا؟ سکریٹری صاحب چند سکنڈ چپ رہے اور جواب دینے کے بجائے مجھے دیکھتے رہے جو انہیں مسلمان نظر آرہا تھا۔ پھر چودھری صاحب کے کان کے قریب منھ کرکے کہا کہ اس فہرست میں مسلمان بہت آرہے ہیں۔ چودھری صاحب نے وہی فائل لے کر اتنی زور سے پھینکی کہ ہر کاغذ بکھر گیا اور انتہائی ترش لہجہ میں کہا کہ اور مسلمان سپاہیوں کے لڑکوں کو یہ کہنے کا حق نہیں ہے کہ ہمارے باپ داروغہ یا تھانیدار ہیں اور ان کی لڑکیوں کو بھی اچھے رشتوں کی ضرورت نہیں ہے؟ کیا ہوگیا ہے تم لوگوں کو کیا بھرگیا ہے تمہارے دماغوں میں؟ اور نہ جانے کیا کیا کہہ کر کہا کہ لے جائو یہ کوڑا اور کل اس آرڈر کے ساتھ لانا ان کاغذوں کو ان کے جانے کے بعد بڑے درد کے ساتھ کہا کہ ان کی ہی حرکتوں سے حکومت بدنام ہوتی ہے۔

اور یہ اس وقت کی بات ہے جب ہیم وتی نندن بہوگنا اترپردیش کے وزیراعلیٰ تھے انہوں نے ندوہ جاکر مولانا علی میاں سے وعدہ کیا تھا کہ ندوہ کی وہ زمین جو گومتی کا باندھ بناتے وقت سڑک کے لئے لے لی گئی تھی اور اس سے دوگنی زمین کا وعدہ کیا گیا تھا۔ اور پھر وہ بھول گئے تھے۔ 15 دسمبر کی رات کو انہوں نے ڈاک کا تھیلا کھلوایا۔ بہوگنا جی کے ایک بہت معتمد بلکہ ناک کا بال معصوم نہٹوروی ان کے پاس تھے دونوں نے ڈاک دیکھنا شروع کی، بہوگناجی کے ہاتھ میں ایک خط مولانا علی میاں کا آیا جس میں اس وعدہ کی یاد دہانی کی گئی تھی جو زمین کے بارے میں انہوں نے کیا تھا۔ انہوں نے معصوم صاحب سے کہا کہ محی الدین کو فون کرکے بلائو ورنہ پھر بات رہ جائے گی اور مولانا سے شرمندہ ہونا پڑے گا۔ انہوں نے کہا کہ رات ٹھنڈی ہے اور ایک بج رہا ہے۔ بہوگنا جی نے کہا کہ سرکاری نوکر 24 گھنٹے کا نوکر ہوتا ہے۔ انہیں فون کرکے بلایا گیا تو انہوں نے کہا کہ میرے پاس گاڑی نہیں ہے۔ بہوگنا جی نے کہا کہ کہہ دو تیار رہیں گاڑی آرہی ہے۔ جب ڈرائیور چابی لینے آیا تو بہوگنا جی نے اس سے کہا کہ اگر ل ق کا سبق سنائے تو ڈکی میں ڈال کر لانا۔

پورا ملک تین دن سے دہلی میں جو تماشہ دیکھ رہا ہے اور میڈیا کو تو جیسے اب اور کوئی خبر ہی نہیں ملتی اس لئے یہ لکھنا کہ کیا ہوا اور کیسے ہوا وقت خراب کرنا ہے۔ بات صرف نوکر اور آقا کی ہے سکریٹری وہ چیف ہو یا ہوم بہرحال نوکر ہے لیکن وہ آقا کا آقا اس لئے بنا ہوا ہے کہ پوری مرکزی حکومت پوری بی جے پی اور پوری دوسری نیشنل پارٹی کانگریس سب نوکر کی کمر تھامے کھڑے ہیں۔ جو میڈیکل رپورٹ گشت کررہی ہے وہ فرضی ہے۔ شرم تو عدالت پر آتی ہے کہ دھکامکی یا گھونسا لات میں آج تک کوئی گرفتار نہیں ہوا ہے نہ کہ پولیس کی یہ ہمت کہ وہ دو دن کے ریمانڈ پر مانگے۔ میڈیا کا حال یہ ہے کہ ایک گھنٹہ میں کم از کم 20  مرتبہ دونوں ممبروں کو دکھایا جارہا ہے جیسے دہلی پولیس نے دائود ابراہیم اور چھوٹا راجن دونوں کو گرفتار کرکے ملک پر احسان کیا ہے۔

لیفٹیننٹ گورنر ہوں یا سکریٹری یہ سب نوکر اور غلام ہیں یہ آج یہاں ہیں اور کل کہیں بھی بھیجے جاسکتے ہیں۔ اروند کجریوال کروڑوں ووٹ پاکر وزیراعلیٰ بنے ہیں اور جو بھی ایم ایل اے ہے وہ لاکھوں شہریوں کی آواز ہے۔ دہلی میں جو کچھ ہورہا ہے وہ شاید ہی کسی جمہوری ملک میں ہوا ہو بات صرف یہ ہے کہ کجریوال نے نریندر مودی راج ناتھ سنگھ پوری بی جے پی اور پوری کانگریس کو اتنا ذلیل کیا ہے کہ کوئی ان کے سامنے سر نہیں اٹھا سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ وہ کانگریس جو ہر جگہ بی جے پی سے زندگی اور موت کی جنگ لڑرہی ہے دہلی میں اس کے گلے میں ہاتھ ڈالے کھڑی ہے۔ یہ صحیح ہے کہ دہلی میں کانگریس سے حکومت چھینی ہے شیلا دکشت کو ذلیل کیا ہے ۔ لیکن یہ دیکھنا چاہئے کہ بے ایمانی نہیں کی ہے بلکہ عوام کی حمایت اور ان کے فیصلہ سے حکومت ملی ہے۔ اس وقت تو کانگریس کو کجریوال کے ساتھ ہونا چاہئے تھا۔ یہ کجریوال کی خوش قسمتی ہے کہ عوام دیکھ رہے ہیں اور خدا کرے وہ ہماری طرح سوچ رہے ہوں۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔