بس پھول تھے دامن میں، کوئی خوار نہیں تھا
سرفراز حسین فراز
بس پھول تھے دامن میں، کوئی خوار نہیں تھا
جب دل یہ تیرے عشق میں، سر شار نہیں تھا
…
مجھ کو تو کبھی پیار سے، انکار نہیں تھا
تیری ہی نظر میں کہیں، اقرار نہیں تھا
…
ایک تیرے سوا جانِ جہاں، دل یہ ہمارا
دنیا میں کسی شے کا،طلبگار نہیں تھا
…
تھے تم ہی خفا مجھ سے، حقیقت ہے یہی بس
بر ھم میں کبھی تم سے، اے سرکار نہیں تھا !
…
دوڑے چلے آتے تھے،اشارے پہ مرے تم
ہونٹوں پہ تمہارے، کبھی انکار نہیں تھا
…
دل یوں ہی مرا توڑ کے، شاید وہ گئے ہیں
میں ان کی طرح دوستوں! زردار نہیں تھا
…
پتھر کبھی آئے نہیں، آنگن میں ہمارے
آنگن میں شجر کوئی، جو پھل دار نہیں تھا
…
انصاف عدالت میں، اسے ملتا ہی کیسے؟
مقتول کا منصف ہی، طرفدار نہیں تھا
تبصرے بند ہیں۔