بچوں کا گھروں سے بھاگنا اور اس کا ممکنہ حل

دارالامان سے دارالامان تک

مولانا محمد کلیم اللہ حنفی

گھر پورے خاندان کے لیے امن و امان کی قرار گاہ ہوتاہے۔ اس مضبوط قلعے میں بسنے والوں کی آبرو،عزتِ نفس ،مال اورجان سب کچھ محفوظ ہوتی ہے۔ ایک چھت کے نیچے غم اورخوشیاں سانجھی ہوتی ہیں ،اس آنگن میں نسلیں پروان چڑھتی ہیں۔یہ نعمت قابل صد شکر ہے۔
لیکن ………آج ہمارے معاشرے میں نوجوان بچے اور بچیاں اپنے اس گھر کو خیر باد کیوں کر دیتی ہیں ؟ یہ سوال جتنا اہم ہے اس کا جواب اتنا ہی تلخ ہے۔عموماً اس کی وجوہات گھریلو معاشی مشکلات،تنگدستی ، بھوک و افلاس ،فقر وفاقہ ، باہمی لڑائی جھگڑے، بلاوجہ مارپیٹ اوربات بات پرڈانٹ ڈپٹ وغیرہ بیان کی جاتی ہیں جو بچوں کو گھروں سے نکلنے پر مجبور کرتی ہیں۔ مجھے ان وجوہات سے کوئی اختلاف نہیں۔
اس مسئلے کا حل محض وجوہات بتلانا نہیں بلکہ وجوہات کے پیدا ہونے کی وجہ کوحل کرنا ہے۔ جس کے لیے ہمارا معاشرہ تاحال تیار نہیں اور حالات کو دیکھ کر اندازہ ہو رہا ہے کہ دور دور تک اس کا امکان بھی نہیں۔ لیکن خدائی اصول ’’نصیحت کرو کیونکہ نصیحت فائدہ دیتی ہے‘‘کے مطابق اپنے معلومات ، مشاہدات اورتجربات کی حد تک چند بنیادی باتیں کہنا ضروری سمجھتا ہوں۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ ہمیں اپنے گھریلو نظام کااز سر نو جائزہ لینے کی ضرورت ہے ، کہ ہم اپنے بچوں کو کیسا ماحول دے رہے ہیں؟ کیا اس میں بچوں کی تعلیم و تربیت صحیح خطوط پر ہو رہی ہے ؟ لیکن اس سے بھی پہلے یہ ضروری ہے کہ ہم تعلیم و تربیت کے صحیح خطوط کسے سمجھتے ہیں ؟ ہر شخص اپنی ذہنی اختراع کو تعلیم وتربیت کا معیار سمجھنے کے بجائے معلم انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیش کردہ تعلیم اور مربی اعظم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذکر کردہ تربیت کو ہی معیار بنائے۔ پھر اسی کے مطابق گھریلو نظام کی بنیادیں رکھے۔
بچوں کی تربیت کے دو پہلو ہیں، جسمانی اور اخلاقی۔ جسمانی طور پر اسے تندرست رکھنے کے لیے اچھی اور مناسب خوراک کا بندوبست کیا جائے تاکہ ایسے بچوں کی بدولت صحتمند معاشرہ تشکیل پا سکے جبکہ اخلاقی،روحانی اور علمی تربیت کے لییعمدہ تعلیم،اچھے معلم ، اچھی تعلیم گاہیں اور اچھا ماحول دیا جائے تاکہ ان کی بدولت صالح افراد کا مقدس معاشرہ تشکیل پا سکے۔
پیدائش کے بعد اسلامی تعلیمات کے مطابق سارے امور انجام دیں مثلاًگھٹی دینا، نومولود کے کان میں آذان و اقامت کہنا، ان کا اچھا نام رکھنا ، عقیقہ کرنا ، سر کے بال مونڈنا اور بالوں کی مقدار کے برابر چاندی / یا اس کی رقم صدقہ کرنا ،ختنہ کرنا۔ جب بولناشروع ہو تو اسے کلمہ طیبہ اور اللہ کے مبارک نام یاد کرانا ، قرآن کریم کی تعلیم دینا ، نماز قائم کرنے کی عادت ڈالنا،سچ بولنے کا خوگر بنانا ، بڑوں کا ادب سکھانا ، طہارت و غسل کا طریقہ سمجھانا،مسنون اعمال کا پابند بنانا ،رات کو جلد سونے اور صبح کو جلد اٹھنے کا عادی بنانا ، عقائد اسلامیہ اور روزمرہ کے پیش آمدہ ضروری مسائل کی تعلیم دلوانا ، کسی اللہ والے سے اصلاحی تعلق قائم کرانا ،ان میں دنیا و آخرت بہتر بنانے کی فکر پیدا کرنا ، ان کی غیر مناسب حرکات اور غلطیوں کی پیار و محبت اور بقدر ضرورت باز پرس سے اصلاح کرنا ، غیر اخلاقی باتوں اور کاموں سے روکنا اور معاشرتی جرائم ماحول سے انتہائی نگہداشت رکھنا ،غلط سوسائٹی ،دوستی اور تعلقات سے دور رکھنا ، تمام ایسے ذرائع و آلات سے دور رکھنا جن سے بچوں میں غیر شعوری طور پر فکری و تہذیبی فساد پیدا ہوتا ہے۔مثلاً فحش ویب سائٹس ، ٹی وی چینلز ، گانے باجے ، سوشل میڈیا کا غلط استعمال۔ان کے لیے معیاری عصری تعلیم گاہوں کا انتخاب کرنا ، بالخصوص انہیں مخلوط نظام تعلیم سے دور رکھنا ، بچوںکے ہوم ورک کی نگرانی کرنا ، ہر کام کو سلیقہ مندی سے کرنے کا عادی بنانا۔ اچھے کاموں پرخوب حوصلہ افزائی جبکہ غلط کاموں پر مناسب انداز میں احساس ندامت دلانا۔ان کی جسمانی صحت کا بھرپور خیال رکھنا ،ورزش ، کھیل کود کے لیے انہیں وقت دینا ، خوراک معیاری دینا اگرچہ سادہ ہی ہو ، بازار ی مضر صحت اشیاء سے پرہیز کرانا۔وغیرہ الغرض ان کو بھرپور پیار دینا اور ان کی تمام ضروریات کو پورا کرنا اولاد کی تربیت کہلاتا ہے۔سب سے اہم بات یہ کہ بلوغ کے بعد بچے اور بچی کی رضامندگی معلوم کر کے مناسب رشتے مل جانے پرجلد ہی نکاح کر دینا۔
اگر بطور والدین یا سرپرست ہونے کے آپ بچوں کی پسند کو کسی وجہ سے درست نہیں دیکھ رہے تو انہیں اعتماد میں لے کر قائل کرنے کی کوشش کریں ورنہ بچوں اور بچیوں میں بغاوت کا عنصر پیدا ہو جاتا ہے جس کے باعث وہ اپنے ہی پیارے گھر اور گھر والوں کو نفرت کی نگاہ سے دیکھنا شروع کرتے ہیں اور نتیجتاً اپنے اس مسکن کو خیر باد کہہ دیتا ہے جس میں اس کی بچپن کی بہاریں گرزی اور لڑکپن و جوانی کا شباب اٹکھیلیاں کرتا رہا تھا۔
یہ دیکھنا ہو گا کہ ہم اپنے بچوں کی تربیت کیسی کر رہے ہیں ؟ اگر تربیت اچھی کر رہے ہیں تو یہی اولاد آنکھوں کی ٹھنڈک ہے اور اگر ہم تربیت میں غفلت برت رہے ہیں یا انہیں وقت نہیں دے پا رہے تو ہماری یہ نسل بگڑ جائے گی۔ پھر انہیں نافرمان ہونے کے طعنے دینا اپنی غلطیوں کو پر پردہ ڈالنے کے مترادف ہو گا۔ جس پربا ضمیر لوگوں کا ضمیر ملامت کیے بغیر نہیں رہے گا۔ اس لیے بچوں کو سدھارنے سے پہلے خود کو سدھاریں۔اپنے گھروں کو’’ دارالامان‘‘ بنائیے تاکہ آپ کی اولا گھروں سے نکل کر کسی ’’دارالامان‘‘ کو نہ تلاشتی پھرے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔