نظام شریعت کا ناقابل تقسیم ہونا

تحریر: مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ… ترتیب: عبدالعزیز

یہ پورا نقشۂ زندگی ایک ہی نقشۂ زندگی ہے اور اس کا ایک مجموعی مزاج ہے جو تقسیم ہوکر قائم نہیں رہ سکتا۔ اس کی وحدت کچھ اسی طرح کی ہے جیسی خود انسان کے وجود کی وحدت ہے۔ آپ جس چیز کو انسان کہتے ہیں وہ آدمی کا سالم وجود ہے نہ کہ انسانی جسم کے الگ الگ کئے ہوئے ٹکڑوں کا مجموعہ۔ ایک کٹی ہوئی ٹانگ کو آپ کا ½ انسا ن ¼ انسان نہیں کہہ سکتے، نہ یہ کٹی ہوئی ٹانگ ان خدمات میں سے کوئی خدمت انجام دے سکتی ہے جو زندہ اور سالم جسم کا ایک عضو ہونے کی صورت میں وہ انجام دیا کرتی ہے۔ نہ اس ٹانگ کو کسی اور جانور کے جسم میں لگاکر آپ یہ توقع کرسکتے ہیںکہ اس جانور میں ایک ٹانگ کے بقدر انسانیت پیدا ہوجائے گی؛ اور نہ انسانی جسم کے ہاتھ، پاؤں، آنکھ، ناک وغیرہ الگ الگ لے کر آپ ان کے حسن یا ان کے فائدے کے متعلق کوئی رائے قائم کرسکتے ہیں، جب تک کہ پورے زندہ جسم میں ان کے تناسب اور ان کے عمل کو نہ دیکھیں۔ ٹھیک یہی حال شریعت کے نقشۂ زندگی کا بھی ہے۔
اسلام اس پورے نقشہ کا نام ہے نہ کہ اس کے جدا جدا ٹکڑوں کا۔ اس کے اجزا کو پارہ پارہ کرکے نہ تو ان کے بارے میں جداگانہ رائے زنی کرنا درست ہوسکتا ہے، نہ مجموعہ سے الگ ہوکر اس کا کوئی جز وہ کام کرسکتا ہے جو وہ صرف اپنے مجموعہ ہی میں رہ کر کیا کرتا ہے۔ نہ کسی دوسرے نظام زندگی میں اس کے کسی جز یا ان اجزا کو پیوست کرکے کوئی مفید نتیجہ حاصل کیا جاسکتا ہے۔ شارع نے یہ نقشہ اس لئے بنایا ہے کہ یہ پورا کا پورا ایک ساتھ قائم ہو، نہ اس لئے کہ آپ حسب منشا اس کے کسی جز کو جب چاہیں لے کر قائم کردیں، بغیر اس کے کہ دوسرے اجزا اس کے ساتھ ہوں۔ اس کا ہر جز دوسرے اجزا کے ساتھ اس طرح جڑا ہوا ہے کہ ان کے ساتھ مل کر ہی کام کرسکتا ہے اور آپ کی اس خوبی کے متعلق صحیح رائے صرف اسی وقت قائم کرسکتے ہیں جبکہ پورے نظام اسلامی کے تناسب اور عمل میں اس کام کو کرتے ہوئے دیکھیں۔
آج شریعت کے بعض احکام کے متعلق جو غلط فہمیاں لوگوں میں پائی جاتی ہیں ان میں سے اکثر کی وجہ یہی ہے کہ پورے اسلام پر مجموعی نگاہ ڈالے بغیر اس کے کسی ایک جز کو نکال لیا جاتا ہے اور پھر یا تو اسے موجودہ غیر اسلامی نظام زندگی کے اندر رکھ کر رائے قائم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے یا پھر بجائے خود اسی جز کو ایک مستقل چیز سمجھ کر اس کے حسن و قبح کا فیصلہ کیا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر اسلامی قانون فوجداری کی بعض دفعات پر آج کے لوگ بہت ناک بھوں چڑھاتے ہیں لیکن انھیں یہ معلوم نہیں ہے کہ جس نقشۂ زندگی میں یہ قانونی دفعات رکھی گئی ہیں اس کے اندر ان کے ساتھ ایک نظام معیشت، ایک نظام معاشرت، ایک نظام حکومت اور ایک نظام تعلیم و تربیت بھی ہے جو اگر ساتھ ساتھ پوری اجتماعی زندگی میں کام نہ کر رہا ہو تو ان تعزیری دفعات کو قانون کی کتاب سے نکال کر عدالت کے کمرے میں جاری کر دینا خود اس نقشۂ زندگی کے بھی خلاف ہے۔
بلا شبہ اسلامی قانون چوری پر ہاتھ کاٹنے کی سزا دیتا ہے مگر یہ حکم ہر سوسائٹی میں جاری ہونے کیلئے نہیں دیا گیا ہے بلکہ اسے اسلام کی اس سوسائٹی میں ہونے کیلئے نہیں دیا گیا ہے بلکہ اسے اسلام کی اس سوسائٹی میں جاری کرنا مقصود تھا جس کے مالداروں سے زکوٰۃ لی جارہی ہو، جس کا بیت المال ہر حاجت مند کی امداد کیلئے کھلا ہو، جس کی ہر بستی پر مسافروں کی تین دن ضیافت لازم کی گئی ہو، جس کے نظام شریعت میں سب لوگوں کیلئے بالکل یکساں حقوق اور برابر کے مواقع ہوں، جس کے معاشی نظام میں طبقوں کی اجارہ داری کیلئے کوئی جگہ نہ ہو اور جائز کسب معاش کے دروازے سب کیلئے کھلے ہوں، جس کے نظام تعلیم و تربیت نے ملک کے عام افراد میں خدا کا خوف اور اس کی رضا کا شوق پیدا کر دیا ہو، جس کے اخلاقی ماحول میں فیاضی، مصیبت زدوں کی دستگیری، حاجتمندوں کی اعانت اور گرتوں کو سہارا دینے کا عام چرچا ہو، اور جس کے بچے بچے کو یہ سبق دیا گیا ہو کہ تو مومن نہیں ہے اگر تیرا ہمسایہ بھوکا ہو اور تو خود پیٹ بھر کر کھانا کھا بیٹھے۔ یہ حکم آپ کی موجودہ سوسائٹی کیلئے نہیں دیا گیا تھا جس میں کوئی شخص کسی کو قرض بھی سود کے بغیر نہیں دیتا، جس میں بیت المال کی جگہ بینک اور انشورنس کمپنی ہے جس میں حاجت مند کیلئے مدد کو بڑھنے والے ہاتھ کی جگہ دھتکار اور پھٹکار ہے جس کا اخلاقی نقطۂ نظر یہ ہے کہ ایک شخص کی کمائی میں دوسروں کا کوئی حصہ نہیں بلکہ ہر شخص اپنی کفالت کا خود ذمہ دار ہے، جس کا معاشرتی نظام بعض خاص طبقوں کو مخصوص امتیازی حقوق دیتا ہے، جس کا معاشی نظام چند خوش نصیب اور چالاک لوگوں کو ہر طرف سے دولت سمیٹ لینے کا موقع دیتا ہے اور جس کا سیاسی نظام اپنے قوانین کے ذریعے سے ان کے مفاد کی حفاظت کرتا ہے۔ ایسی سوسائٹی میں چور کا ہاتھ کاٹنا تو کیا معنی شاید اکثر حالات میں تو اس کو سرے سے کوئی سزا دینا ہی درست نہیں ہے؛ کیونکہ اس قسم کی سوسائٹی میں چوری کو جرم قرار دینا در اصل یہ معنی رکھتا ہے کہ خود غرض اور حرام خور لوگوں کے مال کی حفاظت پیش نظر ہے۔ برعکس اس کے اسلام وہ سوسائٹی پیدا کرتا ہے جس میں کسی شخص کیلئے چوری پر مجبور ہونے کا کوئی موقع نہ رہے، ہر ضرورت مند انسان کی جائز ضروریات پوری کرنے کیلئے لوگ خود ہی رضاکارانہ طور پر آمادہ ہوں اور حکومت کی طرف سے بھی اس کی دست گیری کا پورا انتظام ہو، پھر جو شخص اس کے باوجود چوری کرے اس کیلئے اسلامی قانون ہاتھ کاٹنے کی عبرت ناک سزا تجویز کرتا ہے، کیونکہ ایسا شخص ایک شریف، عادل اور فیاض سوسائٹی میں رہنے کے قابل نہیں ہے۔
اسی طرح اسلامی قانون تعزیرات زنا پر سو کوڑے مارتا ہے اور شادی شدہ زنا کار کو سنگ سار کر دیتا ہے، مگر یہ کس سوسائٹی میں؟ اس میں جس کے پورے نظام تمدن کو شہوت انگیز اسباب سے خالی کیا گیا ہو، جس میں …عورتوں اور مردوں کی مخلوط معاشرت نہ ہو، جس میں بنی سنوری عورتوں کا منظر عام پر آنا بند ہو، جس میں نکاح کو نہایت آسان کر دیا گیا ہو، جس میں نیکی اور تقویٰ اور پاکیزگی اخلاق کا عام چرچا ہو اور جس کے ماحول میں خدا کی یاد ہر وقت تازہ ہوتی رہتی ہو۔ یہ حکم اس گندی سوسائٹی کیلئے نہیں ہے جس میں ہر طرف جنسی جذبات کو بھڑکانے کے اسباب پھیلے ہوئے ہیں۔ گلی گلی اور گھر گھر فحش گیت بج رہے ہیں۔ جگہ جگہ فلم اسٹاروں کی تصویریں لٹکی ہوئی ہیں۔ شہر شہر اور قصبے قصبے سنیما درسِ عشق دے رہے ہیں۔ نہایت گندا لٹریچر آزادی کے ساتھ شائع ہورہا ہے۔ بنی سنوری خواتین کھلے بندوں پھر رہی ہیں، زندگی کے ہر شعبے میں جنسی اختلاط کے مواقع بڑھ رہے ہیں اور نظام معاشرت نے اپنے بیہودہ رواجوں سے نکاح کو نہایت مشکل بنا دیا ہے۔ ظاہر ہے کہ ایسی سوسائٹی میں تو زنا کرنے والے کو سزا دینے کے بجائے زنا سے پرہیز کرنے والے کو انعام یا کم از کم خان بہادری کا خطاب ملنا چاہئے۔
شریعت کا قانونی حصہ: اس بحث سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ جدید اصطلاح کے مطابق شریعت کے جس حصہ کو ہم قانون کے لفظ سے تعبیر کرتے ہیں وہ زندگی کی ایک مکمل اور جامع اسکیم کا ایک جز ہے۔ یہ جز بجائے خود کوئی مستقل چیز نہیں ہے کہ کل سے الگ کرکے اسے سمجھایا جاسکے یا جاری کیا جاسکے۔ اگر ایسا کیا بھی جائے تو یہ اسلامی قانون کا اجرا نہ ہوگا، نہ اس سے وہ نتائج حاصل ہوسکیں گے جو اسلام کے پیش نظر ہیں اور نہ یہ حرکت خود شارع کی منشا کے مطابق ہوگی۔ شارع کی اصل منشا اپنی پوری اسکیم کو اجتماعی زندگی میں جاری کرنا ہے اور اس اسکیم کے مجموعی عمل در آمد ہی میں اسلامی قانون کا اجرا صحیح طور پر ہوسکتا ہے۔ شریعت کی یہ اسکیم عملی لحاظ سے کئی حصوں پر مشتمل ہے۔ اس کے بعض حصے ایسے ہیں جن کو نافذ کرنا ہر مومن کا اپنا کام ہے۔ کوئی خارجی طاقت ان کو نافذ نہیں کراسکتی۔ بعض اور حصے ایسے ہیں جنھیں اسلام اور تزکیہ نفس اور تربیت اخلاق اور تعلیم و تدریس کے پروگرام سے نافذ کراتا ہے۔ بعض دوسرے حصوں کو جاری کرنے کیلئے وہ رائے عامہ کی طاقت استعمال کرتا ہے۔ بعض اور حصوں کو وہ مسلم سوسائٹی کے اصلاح یافتہ رواجوں کی شکل میں نافذ کرتا ہے اور ان سب کے ساتھ ایک بہت بڑا حصہ ہے جسے نافذ کرنے کیلئے وہ تقاضا کرتا ہے کہ مسلم سوسائٹی اپنے اندر سیاسی اقتدار پیدا کرے، کیونکہ وہ اقتدار کے بغیر نافذ نہیں ہوسکتا۔ یہ سیاسی اقتدار اس غرض کیلئے درکار ہے کہ شریعت کے تجویز کردہ نظام زندگی کی حفاظت کرے، اس کو بگڑنے سے روکے۔ اس کی منشا کے مطابق بھلائیوں کی نشو و نما اور برائیوں کے استیصال کا انتظام کرے اور اس کے ان احکام کو نافذ کرے جن کی تنفیذ کیلئے ایک نظام عدالت کا ہونا ضروری ہے۔
یہی آخری حصہ وہ چیز ہے جسے ہم اسلامی قانون کے نام سے یاد کرتے ہیں، اگر چہ ایک لحاظ سے پوری شریعت ہی قانون ہے کیونکہ وہ رعیت پر حاکم کا مقرر کیا ہوا مجموعہ احکام ہے لیکن چونکہ اصلاح میں ’’قانون‘‘ کا اطلاق ان احکام پر ہوتا ہے جو سیاسی اقتدار کے ذریعے سے نافذ کئے جائیں۔ اس لئے ہم شریعت کے صرف اس حصہ کو ’’قانونِ اسلام‘‘ قرار دیتے ہیں جسے نافذ کرنے کیلئے وہ خود اپنے اصول و مزاج کے مطابق ایک سیاسی اقتدار کی تشکیل چاہتی ہے۔

تبصرے بند ہیں۔