نجیب کی گمشدگی:جے این یو کا نیا تماشا

تالیف سید

ہر مرتبہ جے این یو کے سیاسی مزاج  کو نشانہ بنا کر یہ جملہ کسنے والے اس بار بھی اپنی  پر سکون زندگی  کے مزے لوٹتے ہوئے نجیب کی گمشدگی پر صرف اتنا کہہ کر آگے بڑھ جاتے نظر آ رہے ہیں کہ یہ بھی جے این یو کا کوئی نیا تماشا ہے، لیکن کیا نجیب کی گمشدگی واقعی  اب بھی کوئی ایسا سیاسی موضوع رہ گیا ہے جس کو اچھال کر جے این کے وہ طلبہ جو کسی بھی طرح کے سیاسی معاملے میں ملوث رہتے ہیں اپنے وجود کو نمایاں کرنے کا سامان کر رہے ہیں؟ کیا اب بھی نجیب کی گمشدگی کو جے این یو کے باہر بیٹھ کر دیکھنے والے یہ سمجھ رہے ہیں کہ  جے این یو کا مزاج ہی اس طرح کا ہے کہ وہاں چھوٹی سی بات کا بتنگڑ بنایا جاتا ہے؟ ایک طالب علم کی 15 اکتوبر سے کوئی خبر نہیں ہے ۔ وہ زندہ ہے ، مر گیا ہے، کس حال میں ہے ، بھوکا ،پیاسا کہیں پڑا تڑپ رہا ہے یا روز دھیرے دھیرے مر رہا ہے۔کیا ان باتوں پر غور کرنے کے بعد بھی ایسا لگتا ہے کہ نجیب کا غائب ہونا جے این یو کے لئے کسی نئے ہنگامےکا  باعث ہے ؟جس ہنگامے سے جے این یو کے سیاسی مزاج طلبہ کو ایک نیا موضوع مل گیا ہے۔ نجیب کی ماں جے این کے صبح شام چکر لگا رہی ہے، جے این یو کے طلبہ اس کے گم ہونے کی خبر کو طرح طرح سے سرکاری محکموں تک پہنچانے کے لئے پریشان ہو رہے ہیں۔دلی کی زیادہ تر یونیورسٹیز کے طلبہ اجتماعی طور پر جلسے جلوس کر رہے ہیں  اور ان سب ہنگاموں کے درمیان سرکار اور جے این یو کا ذمہ دار عملہ صرف اس بچے کی گمشدگی پر پچاس  ہزار اور ایک لاکھ  کے انعام کی لالچ کو ہی غنیمت جانے ہوئے ہے۔ کیا نجیب کو تلاش کرنے کا یہ ہی وہ ذریعہ ہے جس سے نجیب مل سکتا ہے؟ تصور کیجئے کہ اگر نجیب کی جگہ کسی ایسے شخص کا بیٹا جو موجودہ سرکار میں کسی بہت بڑے عہدے پر بیٹھا ہے یا کابینہ کا ممبر ہے ،لا پتا ہو جاتا تو بھی سرکار کا اس کے تئیں یہ ہی رویہ ہوتا؟  کیا نجیب کی گمشدگی ہندوستان کے تمام سراغ رساں محکموں کے لئے اتنا پیچیدہ مسئلہ ہے کہ وہ اس کو حل ہی نہیں کر پائیں گے؟

 نجیب ایک عام سا طالب علم تھا لہذا اس کا غائب ہونا کوئی بات ہی نہیں ہے۔ اس کے لئے سرکار اپنے ان محکمہ برداروں کو  کیوں کر پریشان کرنے لگی جن کے لئے نجیب کو تلاش کرنے سے کسی  ایسے معاملے پر کام کرنا زیادہ ضروری ہے جس سے ان کی ہر طرح کی ترقی وابستہ ہے۔ نجیب کے لئے جو بچے صبح شام نعرے لگا رہے ہیں ،جگہ جگہ دھرنا دے رہے ہیں ، پولس کی مار کھا رہے ہیں، کئی کئی گھنٹے جیل میں گذار رہے ہیں۔ ان سے جے این یو کے باہر بیٹھے ہوئے کتنے فی صد لوگوں نے جا کر یہ پوچھا کہ ان کی مسلسل جد و جہد کا اب تک کیا حاصل آیا ہے۔ کیا نجیب کو تلاش کرنے کی ساری ذمہ داری جے این یو کے طلبہ ہی کی ہے؟ کیا نجیب ان سارے لوگوں کا بھائی ہے بیٹا ہے یا دوست ہے جو اس کے لئے دن دن بھر بھوکے پیاسے دھوپ میں دوڑ رہے ہیں اس کی ماں کو تسلی دے رہے ہیں جے این یو میں رہتے ہوئے ،وہاں کی اکیڈمک ذمہ داریوں کو نبھاتے ہوئے اپنی  ہی یونیورسٹی کے ذمہ دار  عملے سے جھڑپیں کر رہے ہیں ۔ نجیب کو تلاش کرنے کے لئے در در بھٹک رہے ہیں ۔ اگر جے این یو کے طلبہ ایسا کرنا اپنا فرض سمجھتے ہیں تو اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ اب  نجیب کو تلاش کرنے کی مہم کو زندہ رکھنے کی ساری ذمہ داری انہیں کی رہ جاتی ہے۔ اس مسئلے میں ہر ذمہ دار شہری کو جے این یو کے طلبہ کا پوری طرح ساتھ دینا چاہئےاورجس طرح  کی  بد حالی کے عالم میں پر امن طریقے سے جے این یو کے طلبہ نجیب کی تلاش میں لگے ہوئے ہیں اسی طرح دہلی اور اطراف دہلی کے عوام کو چاہئے کہ وہ بھی اس معاملے میں جے این یو کے ان طلبہ کے شانہ بہ شانہ آ کر کھڑے ہوں۔ ان کے ساتھ وہ تمام مصائب جھیلیں اور پر امن مظاہرے  سے  موجودہ حکومت کو کسی بھی طرح اس بات پر مجبور کر دیں کے وہ نجیب کو تلاش کر کے لائے۔ یہ بات ہم سب بخوبی جانتے ہیں کہ اگر دہلی  پولس اور سرکاری سراغ رساں محکمے اس کام میں دلچسپی لے لیں تو نجیب کو ڈھونڈنا اتنا بھی مشکل نہیں ہوگا۔ نجیب کی خبر دینے والے کو ایک لاکھ کیا دس لاکھ کی بھی لالچ کیوں نہ دے دی جائے جب تک دیگر موثر کن ذرایع سے اسے تلاش نہیں کیا جائے گا  اس کا کسی بھی صورت ملنا ممکن نظر نہیں آتا۔ نجیب اگر زندہ ہے تو اس کو تلاش کرنے سے اس بات کا علم ہو جائے گا کہ آخر اس پر ایسی کیا گذری کہ وہ 15 اکتوبر سے اب تک کہیں غائب رہا اور  نہ جانے کس عالم میں رہا اوراگر خدا نخواستہ وہ اس دنیا میں نہیں رہا  ہے  تو دلی پولس اور جے این یو کے ذمہ دار عملے کے لئے یہ لمحہ فکریہ ہوگا   کہ ایک طالب علم سے کسی بھی بات پرجھڑپ میں  دیگر  طلبہ میں اس حد تک  جانے کی ہمت کس طرح  پیدا ہوئی کہ وہ اس کے ساتھ اتنا کچھ کر گذریں ۔ یہ بات اپنے آپ میں بہت خطرناک ہے کہ کیا جے این یو میں ایک ایسا طبقہ  بھی پر ورش پا رہا ہے  جن کے نزدیک انسانی جان کی کوئی قیمت نہیں؟اور اگر ایسا ہے تو یہ بات نہ  جے این یو کے حال کے لئے بہتر ہے نہ مستقبل کے لئے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔