تجارت کے چند اہم اسلامی اصول (آخری قسط)

ڈاکٹر محمد واسع ظفر

21۔ فروخت کی ہویٔ چیز واپس لینا :

تجارت میں کبھی کبھی ایسی صورت بھی پیش آتی ہے کہ بیع کا معاملہ ہونے کے بعد خریدار سامان یاقیمت سے مطمئن نہیں ہونے کی وجہ سے یا کسی اور مصلحت کی وجہ سے پشیمانی میں مبتلا ہوجاتا ہے اور خریدی ہویٔ چیز کو واپس کرنا چاہتا ہے یا کبھی فروخت کرنے والا افسوس کرنے لگتا ہے کہ میں نے اتنے کم قیمت پریہ سامان کیوں فروخت کردیا اور اسے واپس لینا چاہتا ہے تو ایسی صورت میں فریقین کو چاہیے کہ باہمی رضامندی سے اس معاملہ کو ختم کردیں یعنی تاجر بکاہوا سامان واپس لے لے یا خریدار خریدا ہوا سامان واپس کردے۔ اسے شریعت کی اصطلاح میں اقالہ کہتے ہیں۔ اگرچہ ایسا کرنافریقین پر واجب نہیں ہے لیکن اس کا ثواب بہت زیادہ ہے کیوں کہ ایسا کرنا احسان میں داخل ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’مَن أَقَالَ مُسْلِمًا أَقَالَہُ اللّٰہُ عَثْرَتَہُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ‘‘  یعنی جو شخص اپنے کسی مسلمان بھایٔ کے ساتھ اقالہ کا معاملہ کرے (یعنی اس کی بیچی ہوئی یا خریدی ہویٔ چیز کی واپسی پر راضی ہوجائے) تو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کے گناہ بخش دے گا۔ (سنن ابن ماجہ، کتاب التجارات، بابُ الْاِقَالَۃِ، رقم ۲۱۹۹، بروایت ابوہریرہؓ)۔ ایک روایت میں ہے کہ نبی کریم ؐ نے فرمایاکہ جو شخص کسی بیع کو فسخ کردے اور یہ تصور کرلے کہ میں نے بیع کی ہی نہیں تو اللہ تعالیٰ اس کے گناہوں کو ایسا جانتا ہے گویا اس نے گناہ کئے ہی نہیں۔ (کیمیای سعادت، ۲۸۲)۔

اس لئے مسلمان تاجروں کو چاہیے کہ ان فضیلتوں کے پیش نظر اس طرح کے معاملات میں احسان کی روش ہی اختیار کریں۔ بعض مسلم تجار غیروں کی نقل میں اپنی دکان میں ’’بکا ہوا سامان واپس نہیں ہوگا ‘‘ کا بورڈ لگادیتے ہیں گویا وہ علی الاعلان یہ کہہ رہے ہیں کہ اس سنت کی ان کے یہاں کویٔ جگہ نہیں ! یہ نہایت افسوس کی بات ہے۔ انہیں مذکورہ روایات پر غور کرنا چاہیے اورایسے کسی موقع کو ہاتھ سے نہیں جانے دینا چاہیے کیوں کہ ہر شخص گناہوں کی بخشش کا محتاج ہے۔

22۔ کسی دو شخص کے تجارتی معاملہ میں دخل اندازی سے احتراز کرنا:

یہ بھی اسلامی تعلیمات کا حصہ ہے کہ کسی دو شخص کے جائز تجارتی معاملے میں تیسرے کو مداخلت نہیں کرنی چاہیے۔ مداخلت کی ایک صورت یہ ہے کہ قیمت بڑھا کر اس چیز کو خریدنے کا اظہار کرے جس کا معاملہ زیر غور ہے، اس میں خریدار کے نقصان کا امکان ہے۔ دوسری صورت یہ ہے کہ خریدار سے یہ کہے کہ بالکل یہی چیز یا اس سے بہتر میں آپ کو اس سے کم قیمت پر فراہم کرسکتا ہوں اگر آپ اس معاملہ کو فسخ کردیں، اس صورت میں بیچنے والے کے نقصان کا امکان ہے۔ یہ دونوں ہی صورتیں درست نہیں اور اگر مقصد خود خریدنا یا بیچنا نہ ہوصرف معاملہ کو بگاڑنا ہوتو یہ اور بھی برا فعل ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’لَا یَبِیْعُ بَعْضُکُمْ عَلٰی بَیْعِ بَعْضٍ‘‘۔ یعنی ’’تم میں سے کوئی شخص کسی دوسرے کی بیع پر بیع نہ کرے‘‘۔ (صحیح بخاری، کتاب البیوع، بابُ النَّھْيِ عَنْ تَلَقِّي الرُّکْبَانِ، رقم ۲۱۶۵)۔ حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ آپؐ نے ارشاد فرمایا: ’’لَا یَسُمِ الْمُسْلِمُ عَلٰی سَوْمِ أَخِیْہِ‘‘۔ یعنی ’’ کوئی مسلمان اپنے بھائی کے سودے پر سودابازی نہ کرے‘‘۔ (صحیح مسلم، کتاب البیوع، بابُ تَحْرِیْم بَیْعِ الرَّجُلِ عَلٰی بَیْعِ أَخِیْہِ)۔ اس سلسلے میں ایک اور روایت ابوہریرہؓ کی ہے کہ آپؐ نے فرمایا: ’’لَا یَبْتَاعُ الْمَرْئُ عَلٰی بَیْعِ أَخِیْہِ، وَلَا تَنَاجَشُوا‘‘۔ یعنی ’’ کوئی شخص اپنے کسی (مسلمان) بھائی کے مول پرمول نہ کرے اور نہ ہی نجش کرے‘‘۔ (صحیح بخاری، کتاب البیوع، بابٌ لَا یَبِیْعُ حَاضِرٌ لِبَادٍ بِالسَّمْسَرَۃِ، رقم ۲۱۶۰)۔

’’نجش‘‘ اسی عمل کو کہتے ہیں کہ دو شخصوں کے بیچ کوئی تجارتی معاملہ طے پارہا ہو اور تیسرا شخص آکر اس چیز کی بے جا تعریف کرنے لگے جس کا معاملہ زیر بحث ہویا اس کی زیادہ قیمت لگادے اور اس کا مقصد خریدنا نہ ہو بلکہ اس خریدار کو گمراہ کرنا اور دھوکہ میں ڈالنا ہو تاکہ وہ اس چیز کی خریداری کی طرف راغب ہوجائے یا زیادہ قیمت دینے کو تیار ہوجائے۔ ایسا کرنے والے کو عرف عام میں دلال کہتے ہیں جو اصل میں تاجر کے لئے ہی کام کر رہے ہوتے ہیں۔ اس طرح کی دلالی کیسے درست ہوسکتی ہے جب کہ اس میں اصل خریدار کو فریب دینے کی سازش کی جاتی ہے۔ اس لئے مذکورہ بالا احادیث کی بنیاد پر علماء نے کسی دو شخص کے مابین جائز تجارتی معاملے میں مداخلت کی ذکر کردہ ہر صورت کو ناجائز اور حرام قرار دیا ہے۔ ہاں اگرکسی معاملے میں کوئی شرعی قباحت ہو مثلاً کوئی شخص کسی کو غبن یا چوری کا مال بیچ رہا ہو یا کسی اور قسم کا دھوکا دے رہا ہو تو اس صورت میں مداخلت کرکے معاملے کو فسخ کرادینا اور ایک مسلمان کو نقصان سے بچانا جائز ہے۔

 23۔ اللّٰہ کی یاد سے غافل نہ ہونا:

 ایک مسلمان تاجر کو چاہیے کہ تجارت کی مشغولیوں میں اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی یاد اور اس کے حقوق کی ادائی سے غافل نہ ہو۔ صحابہ کرامؓ کی یہی صفت تھی۔ صحابہ تجارت کیا کرتے تھے مگر جب اللہ تعالیٰ کا کو ئی فرض آن پڑتا تو کوئی تجارت اور خرید و فروخت اللہ کی یاد سے ان کو غافل نہ کرتی یہاں تک کہ وہ اللہ کا حق ادا کرتے۔ اس بات کی تعریف اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے قرآن کریم میں بھی فرمائی۔ فرمایا: {رِجَالٌ لَّا تُلْھِیْھِمْ تِجَارَۃٌ وَّ لَا بَیْعٌ عَنْ ذِکْرِاللّٰہِ وَ اِقَامَ الصَّلٰوۃِ وَ اِیْتَآئِ الزَّکٰوۃِ۔ ۔ ۔ ۔ الآیۃ} یعنی ’’ایسے لوگ جنہیں تجارت اور خرید و فروخت اللہ کے ذکر سے اور نماز کے قائم کرنے اورزکوٰۃ ادا کرنے سے غافل نہیں کرتی‘‘۔ (النور:۳۷)۔ آج ہم لوگ نماز جیسے اہم فریضہ کی ادائی میں بھی اپنی تجارت کا حرج سمجھتے ہیں پھر اللہ تعالیٰ کی مدد کیسے شامل حال ہوسکتی ہے جب کہ اس نے اپنی یاد کے لئے خصوصی طور پر اسے قائم کرنے کا حکم فرمایا ہے ( حالانکہ ساری ہی عبادات اس کی یاد کے لئے ہیں )۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: {وَ اَقِمِ الصَّلٰوۃَ لِذِکْرِی}۔ (ترجمہ): ’’اور مجھے یاد رکھنے کے لئے نماز قائم کرو‘‘۔ (طٰہٰ:۲۰)۔ اس حکم سے تقرب الٰہی کے حصول میں نماز کی اہمیت کا پتہ چلتا ہے۔ اس لئے اس سے غفلت برتنا انتہائی خسارے کا سودا ہے۔ دوسری بات یہ بھی ہے کہ اللہ رب العزت نے نماز کی وجہ سے رزق میں کسی قسم کے نقصان نہ ہونے کی ضمانت لی ہے بلکہ اس کے اہتمام پر رزق کا وعدہ بھی کیا ہے۔ ارشاد ربانی ہے: {وَاْمُرْ اَھْلَکَ بِالصَّلٰوۃِ وَاصْطَبِرْ عَلَیْھَا لَانَسْئَلُکَ رِزْقًا نَحْنُ نَرْزُقُکَ وَالْعَاقِبَۃُ لِلتَّقْوٰی}۔ (ترجمہ): ’’اور اپنے گھر والوں کو نماز کا حکم دو اور خود بھی اس پر ثابت قدم رہو، ہم تم سے رزق نہیں چاہتے، رزق تو ہم تمہیں دیں گے اور بہترین انجام تو پرہیزگاری ہی کا ہے‘‘۔ (طٰہٰ:۱۳۲)۔ اس لئے بھی نماز کا اہتمام ضروری ہے اور جمعہ کی اذان کے بعد خرید و فروخت کو چھوڑ کر نماز کے لئے دوڑ جانے (یعنی بلاتاخیر جانے) کا خصوصی حکم سورۃ الجمعۃ کی آیت نمبر ۹ میں موجود ہے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ کے عائد کردہ دوسرے فرائض و ارکان دین بھی ہیں جن سے تجارت کے سبب غفلت برتنا دنیوی و اخروی زیاں کا موجب ہے۔

ان سب کے اہتمام کے ساتھ اگر خالی اوقات میں قرآن کی تلاوت کی جائے یا کوئی ذکر مسنونہ زبان پر ہمہ وقت جاری رہے تواور بھی برکت اور تقرب الٰہی کا ذریعہ ہوگا۔ سورۃ الجمعۃ کی آیت نمبر ۹ جس میں جمعہ کی اذان کے ہوتے ہی خرید و فروخت بند کرنے کی ہدایت دی گئی ہے اس کے فوراً بعد ہی یہ ہدایت بھی موجود ہے کہ جب نماز سے فارغ ہوجاؤ تو زمین میں پھیل جاؤ اور اللہ کا فضل (روزی) تلاش کرو نیز اللہ تعالیٰ کو بکثرت یاد کرو تاکہ تم فلاح کو پہنچو۔ آیت اس طرح ہے: {فَاِذَا قُضِیَتِ الصَّلٰوۃُ فَانْتَشِرُوا فِی الْاَرْضِ وَابْتَغُوا مِنْ فَضْلِ اللّٰہِ وَاذْکُرُوا اللّٰہَ کَثِیْرًا لَّعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ}۔ (ترجمہ): ’’جب نماز پوری ہوچکے تو تم زمین میں منتشر جاؤ اور اللہ کا فضل تلاش کرو اور اللہ کو کثرت سے یاد کرو تاکہ تمہیں فلاح نصیب ہو ‘‘۔ (الجمعۃ: ۱۰)۔ اس آیت میں بھی گویا یہ تلقین کی گئی ہے کہ حصول رزق کی سعی تمہیں اللہ تعالیٰ کی یاد سے غافل نہ کرے بلکہ ساری تگ و دو کے ساتھ کثرت سے اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا ذکر ہی تمہیں فلاح و کامیابی سے ہمکنار کرسکتا ہے۔

یہاں یہ رقم کردینا بھی مناسب معلوم ہوتا ہے کہ چند کلمات ایسے ہیں جن کا پڑھنا بازار کے اندر کافی فضیلت رکھتا ہے ؛ حضرت عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جو شخص بازار میں داخل ہوکر یہ کہے: ’’لَا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہُ لَاشَرِیْکَ لَہُ، لَہُ الْمُلْکُ وَلَہُ الْحَمْدُ یُحْیِي وَ یُمِیْتُ وَ ھُوَ حَیٌّ لَّا یَمُوْتُ بِیَدِہِ الْخَیْرُ، وَہُوَ عَلٰی کُلِّ شَیْ ئٍ قَدِیْرٌ‘‘تو اللہ تعالیٰ اس کے لئے دس لاکھ نیکیاں لکھتا ہے اور دس لاکھ برائیاں اس کی مٹادیتا ہے اور دس لاکھ درجے اس کے بلند کردیتا ہے۔ (سنن ترمذی، کتاب الدعوات، بابُ مَایَقُوْلُ إِذَا دَخَلَ السُّوْقَ، رقم ۳۴۲۸ )۔ امام ترمذیؒ نے اسی مضمون کی دوسری روایت بھی نقل کی ہے جس کے اخیر میں یہ ہے کہ اس کے لئے جنت میں ایک گھر بنادیا جاتا ہے۔ (حوالہ سابق، رقم ۳۴۲۹)۔ اس لئے تاجروں کو چاہیے کہ ان کلمات کا ضرور اہتمام کریں کہ اس میں نہ ہی کوئی مشقت ہے اور نہ ہی وقت فارغ کرنے کی ضرورت۔ اور ان سب کا حاصل یہ ہے کہ ہر وقت اللہ رب العزت کا استحضار رہے اور کسی معاملے میں بھی اس کے حکم کی خلاف ورزی نہ ہو۔

یہ ہیں تجارت کے چند اہم اسلامی اصول۔ اگر ان کی رعایت کرتے ہوئے تجارت کی جائے گی تو بلاشبہ وہ تجارت دنیوی و اخروی اعتبار سے بڑی نفع بخش ثابت ہوگی لیکن ان کا اہتمام وہی لوگ کرسکتے ہیں جنہیں اللہ عز و جل کے وعدوں اور اس کے رسولؐ کی خبروں پر کامل یقین ہو۔ جو لوگ اللہ تعالیٰ کے وعدوں اور اس کے رسول ؐکی خبروں کے تئیں شکوک و شبہات میں مبتلا ہوں یا جنہیں شرعی احکام کی تعمیل میں تجارت کا نقصان نظر آتا ہو تو ظاہر ہے ان سے ان اصولوں کی پاسداری کی توقع نہیں کی جاسکتی۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے وہ تمام مسلمانوں کو ان کے تمام معاملات میں اپنے احکام اور اپنے حبیبؐ کی سنتوں کو اپنانے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین! (ختم شد)

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔