رمضان کا پیغام مسلمانوں کے نام

کامران غنی صبا

   مسلمانو!  تمہارے گناہ آلودہ جسم پر رحمت، مغفرت اور آگ سے نجات کا مرہم رکھنے، تمہیں صفتِ تقویٰ سے متصف کرنے، تمہاری ایمانی تربیت کرنے اور تمہیں اللہ کے مقرب ترین بندوں کی صف میں کھڑا کرنے کے لیے میں ایک بار پھر تمہارا مہمان بننے والا ہوں۔ میں نے اکثر دیکھا ہے کہ تمہارے گھر جب کوئی بڑا مہمان آنے والا ہوتا ہے تو تم خوشی سے جھوم اٹھتے ہو۔ اس کے استقبال کی تیاری کرتے ہو۔ اپنے گھر کو سجاتے اور سنوارتے ہو۔ میں تمہارے لیے رحمت، مغفرت اور آگ سے نجات کی نوید لے کر آ رہا ہوں۔ کیا تم میرا استقبال نہیں کرو گے؟  دیکھو اللہ تو ستار اور غفار ہے۔ اس نے تمہارے گناہوں پر پردہ ڈال رکھا ہے تو میں کون ہوتا ہوں اسے آشکار کرنے والا۔ لیکن ذرا کبھی اپنے دل میں اتر کر دیکھو۔ کیا تمہارے اعمال اولیائے عظام، صحابہ کرام اور انبیاء علیھم السلام سے بھی آگے بڑھ گئے ہیں جو تمہاری آنکھیں کبھی تر نہیں ہوتیں۔ وہ پاک نفوس تو عبادت و ریاضت کی کثرت اور خلق خدا کی ہمہ وقت خدمت کے باوجود خوف و خشیت سے لرزتی رہتی تھیں۔ تم نے حضرت ابوبکرصدیق ؓ کے متعلق نہیں سنا کہ وہ کہا کرتے تھے کہ کاش میں کوئی درخت ہوتا اور کاٹ ڈالا جاتااور لوگ اس کا پھل کھاتے۔ عمر ابن الخطابؓ جیسے مضبوط اور بارعب صحابی سورۃ الطور کی تلاوت کرتے ہوئے جب اس آیت پر پہنچتے ہیں ’’ان عذاب ربک لواقع‘‘ (بے شک تیرے رب کا عذاب واقع ہونے والا ہے)، تو اس قدر روتے ہیں کہ شدتِ گریہ سے بیمار پڑ جاتے ہیں اور لوگ عیادت کے لیے آنا شروع ہو جاتے ہیں۔ ابودرداء ؓ کہا کرتے تھے کہ مجھے سب سے زیادہ اس بات کا ڈر ہے کہ قیامت کے دن مجھے یہ نہ کہہ دیا جائے کہ ائے ابودرداء یہ تو بتا کہ تونے جو علم سیکھا تھا اس پر عمل کتنا کیا؟‘‘

        یہ تو صرف چند مثالیں ہیں ورنہ تاریخ ایسی مثالوں سے بھری پڑی ہے۔ یہ وہ عظیم شخصیات تھیں جن کے ایمان کی قسمیں کھائی جا سکتی ہیں۔ اس کے باوجود انہیں ہر وقت اللہ کی رضا مطلوب تھی۔ کبھی موقع نکال کر ان کی سیرت کا مطالعہ کرو۔ اگر تم عام دنوں میں ان کی عبادت کا اندازہ کر لو تو تمہیں رمضان کی اپنی عبادت پر شرم محسوس ہونے لگے۔ عبادات اور خدمت خلق کی کثرت کے باوجود رسول اللہ ﷺ اور ان کے اصحاب بے صبری سے رمضان کا انتظار کیا کرتے تھے اور رمضان کا مہینہ قریب آتے ہی اللہ تعالیٰ سے خاص طور پر یہ دعا مانگا کرتے کہ اللہ انہیں رمضان تک صحیح سلامت پہنچا دے۔

        اب ذرا تم اپنے اعمال اور اپنے روز مرہ کے معمولات کا جائزہ لو۔ تمہاری عبادات سوزِ دروں سے خالی، تمہارے معاملات غیر متاثر کن۔ تمہارے ایام سوشل میڈیا پر غیر ضروری مباحث میں گزرتے ہیں۔ جنگ و جدل اور اختلاف تمہارا شیوہ۔ ذرا تھنڈے دل سے سوچو کیا یہی شیوۂ مسلمانی ہے؟

        آئو ! اس بار عہد کرو کہ تم میری رفاقت کا بھر پور فائدہ اٹھائو گے۔ میری آمد کا مقصد تمہاری تربیت ہے۔ تمہارے نفس کا تزکیہ ہے اور تمہیں متقی بناناہے۔ تم نے ضرور دیکھا ہوگا کہ ایک فوجی سخت ترین تربیت سے گزر کر فوجی بنتا ہے تب وہ حالات کے جبر و ستم کے سامنے ڈٹ کر کھڑا ہوتا ہے۔ دشمن اسے آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھ سکتا۔ تم بھی اسلام کے ایک سپاہی ہو۔ شیطان اور سرکش نفس تمہارے دشمن ہیں۔ انہیں شکست دینے کے لیے تمہاری تربیت ضروری ہے۔ میں تمہاری تربیت کے لیے آیا ہوں۔ میری رفاقت کا فائدہ اٹھا لو۔ ایک مہینے کے لیے تمام غیر ضروری کاموں سے کنارہ کش ہو جائو۔ سوشل میڈیا پر وقت گزاری کے بجائے قرآن کے تراجم و تفاسیر کے مطالعہ لیے وقت نکالو۔ اپنے پیارے رسول ﷺ، صحابہ کرامؓ اوراولیائے عظامؒ کی سیرت کا مطالعہ کرو۔ ان کی زندگی میں اتر کر دیکھو کہ آخر وہ کون سی خصوصیات تھیں جنہوں نے انہیں اللہ اور اس کے بندوں کے درمیان محبوب بنا دیا تھا۔ آخر کیا بات تھی کہ ٹوٹی ہوئی چٹائیوں پر سونے والوں اور سوکھی روٹی کھانے والوں کے سامنے بادشاہانِ وقت بھی سرجھکائے باادب کھڑے ہوتے تھے۔ یقینا اللہ پر کامل ایمان اور رسولﷺ سے سچی محبت نے انہیں اس مقام پر فائز کیا تھا۔ وہ قول و عمل کے شہنشاہ تھے۔ تمہارے پاس دولت ہے۔ اونچی اونچی عمارتیں ہیں۔ عیش و عشرت کے سارے سامان ہیں لیکن تمہارے دل ایمان کی چنگاری سے خالی ہو رہے ہیں، تمہارے قول و فعل میں تضاد ہے۔ اسی لیے دنیا والوں کے دلوں سے تمہاری عظمت ختم ہوتی جارہی ہے اور اللہ کی نصرت بھی تم سے منھ چھپانے لگی ہے۔

        اب بھی وقت ہے۔ اللہ کی رحمت تمہیں آواز دے رہی ہے۔ ’’لا تقنطوا من رحمۃ اللہ۔ ‘‘اس نے پھر تمہیں ایک موقع دیا ہے۔ وہ چاہتا تو حالتِ گناہ میں تمہاری روح قبض کر سکتا تھا۔ تم ذلیل و خوار ہو کر اس کے سامنے حاضر ہوتے لیکن اس کی رحمت اس کے غضب پر بھاری ہے۔ اس نے مجھے تمہارے نفس کی اصلاح کی ذمہ داری دی ہے۔ دیکھو ! میرے ساتھ ساتھ اللہ کی رحمت و مغفرت بھی تمہارے گھر مہمان بن کر آ رہی ہے۔ اٹھو! اس کا استقبال کرو۔ آئو میرے گلے لگ جائو۔ میں تمہیں متقی بنا دوں گا۔ میں تمہارے دلوں سے ساری غلاظتیں نکال دوں گا۔ تمہارے سینوں کو حرص و طمع سے پاک کر دوں گا۔ غفلت کی نیند سے بیدار ہو جائو۔ مجھے ڈر ہے کہ کہیں میں آکر واپس چلا جائوں اور تم خواب غفلت میں ہی نہ پڑے رہ جائو۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ بدنصیبی تمہارا مقدر ٹھہرے:

’’بدنصیب ہے وہ شخص جو رمضان کا مہینہ پائے اور پورا مہینہ گزر جائے لیکن اسے اپنی مغفرت کرالینے کی توفیق نہ ہو۔ ‘‘(ترمذی)

تبصرے بند ہیں۔