حسن رہبر منفرد افسانہ نگار

ڈاکٹر منصور خوشتر

نئے سال کے پہلے دن گیارہ بجے کے قریب جب ڈاکیہ نے دستک دی توسوچا کہ دیکھوں کون سا رسالہ یا کتاب آئی ہے۔ جب ڈاکیہ نے کتاب کا پیکٹ دیا اور اس کا کوور کھولا تو سامنے میرے مخلص دوست نوجوان ناقد، شاعر جناب ڈاکٹر احسان عالم کی مرتب کتاب ’’حسن رہبر اک منفرد افسانہ نگار‘‘ سامنے تھی۔ پہلے کتاب کی اوپر سے ورق گردانی کرتے کرتے کتاب کے گیٹ اپ کو دیکھنے میں مصروف رہا لیکن جیسے ہی انتساب کا ورق پلٹا ایک خوشگوار حیرت کا احساس ہوا۔ احسان صاحب سے تقریباً روزانہ کی ملاقات یاکم از کم فون پر ایک بار ضرور بات ہوتی ہے۔ ہم احسان عالم، انور آفاقی اور ہمارے سپروائزر ایم ایل ایس ایم کالج کے صدر شعبۂ اردو ڈاکٹر آفتاب اشرف سے ایک جگہ ملاقات ہونا ضروری سا ہوگیا ہے۔ یہ مجھے پہلے سے معلوم تھا کہ ڈاکٹر احسان عالم میرے پرانے شناسائی معروف افسانہ نگار حسن رہبر کی حیات و خدمات یا ان کی افسانوی سفر پر کتاب مرتب کر رہے ہیں۔ جب کتاب کا انتساب دیکھا تو واقعی میں حیرت ہوئی کہ کتاب کا انتساب تمثیل نو کے مدیر اعلیٰ محترم ڈاکٹر امام اعظم اور اس ناچیز کے نام ہے۔ احسان عالم نے کتاب کی ترتیب سے لے کر شائع ہونے اور پھر ایجوکیشنل پبلی کیشن سے دربھنگہ کتاب آنے تک مجھے اس بات کی خبر نہیں ہونے دی کہ انتساب میرے نام ہے۔ نئے سال کے پہلے دن مجھے لگتا ہے کہ اس سے بڑا تحفہ میرے لئے اور کچھ نہیں ہوسکتا حالانکہ میں اس لائق نہیں لیکن ان کی محبت کا ہمیشہ قرض دار رہوں گا۔

حسن رہبر ایک اچھے اور معتبر افسانہ نگار ہیں۔ ان کے افسانے ہندوستان کے مختلف رسائل و جرائد میں شائع ہوتے رہے ہیں۔ اس سے قبل ان کا ایک افسانوی مجموعہ ’’آگے راستہ بند ہے‘‘ منظر عام پر آکر داد و تحسین وصول کر چکا ہے۔ پیش نظر کتاب ’’حسن رہبر ایک منفرد افسانہ نگار ‘‘ کو چھ حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ پہلے حصے میں حسن رہبر صاحب کا پیش لفظ بعنوان ’’ہوئی تاخیر تو کچھ وجہ تاخیر بھی ہے‘‘ اور دوسرا پیش لفظ کتاب کے مرتب ڈاکٹر احسان عالم کا ہے جس کا عنوان ’’مجھے بس اتنا ہی کہنا ہے‘‘ کے تحت ہے۔

بیتے لمحے۔ گذری باتیں کے تحت معروف ادیبوں اور دانشوروں مثلاً ڈاکٹر وزیر آغا، ڈاکٹر انور سدید، نیر مجید، پروفیسر حامد چھپروی، آذر ابراہیم، ڈاکٹر رضوان احمد، ڈاکٹر مناظر عاشق ہرگانوی، ڈاکٹر قمر جہاں، مشتاق احمد نوری، نظام صدیقی اور محمد سالم کے مضامین شامل اشاعت ہیں۔

اپنے تاثرات میں ڈاکٹر وزیر آغا اپنے تاثرات میں لکھتے ہیں :

’’مجھے حسن رہبر کے افسانے فنی اعتبار سے بے عیب نظر آئے ہیں۔ وہ کہانی کو اس خوبی سے پلاٹ میں متشکل کرتا ہے کہ ہر روز کے دیکھے بھالے واقعات ایک ’’انوکھے پن‘‘ کا مظاہرہ کرنے لگتے ہیں۔ روسی فارمل ازم کی تحریک کے علم برداروں کا یہ موقف تھا کہ کہانی کار اصلاً کہانی کو انوکھا بنا تا ہے یعنی Defamiliarizeکرتا ہے۔ یوں کہ وہ یکتا اور بے مثال نظر آنے لگتی ہے۔‘‘ (ص:۱۰)

ڈاکٹر انور سدید اپنے تاثرات میں لکھتے ہیں :

’’حسن رہبرؔ نے افسانے کے میڈیم سے اپنے معاشرے کا مجسمہ تراشنے کی کوشش کی ہے۔ خود حسن رہبرؔ اس عمل میں کبھی رونے لگتے ہیں اور کبھی پاگلوں کی طرح ہنسنے لگتے ہیں۔ خدا کا شکر ہے کہ انہوں نے مصلح بننے کی کوشش نہیں کی اور مجھے خوشی یہ ہے کہ انہوں نے سچے افسانہ نگار کا کردار ادا کرنے سے گریز نہیں کیا۔‘‘ (ص:۱۱)

’’موج ادب کی ہنگامہ آرائیاں ‘‘ کے تحت ڈاکٹر سید احمد قادری، پروفیسر احمد دانش، ڈاکٹر احسان عالم، انور الحسن وسطوی، بدر محمدی، بے نام گیلانی، ڈاکٹر تسنیم بلخی، ڈاکٹرخالد ناز، ڈاکٹر سید فضل رب، شمیم قاسمی، ایڈوکیٹ صفی الرحمن راعین، پروفیسر علیم اللہ حالی، ڈاکٹر قیام نیر، ڈاکٹر مجیر احمد آزاد، پروفیسر محمود نہسوی، ڈاکٹر مشتاق احمد، راقم الحروف، ڈاکٹر نوشاد عالم آزاد اور نوشاد منظر کے مضامین شامل ہیں۔ ’’تخلیقی جائزے کا فنی و جمالیاتی پہلو‘‘ عنوان کے تحت علیم صبا نویدی، ڈاکٹر مرغوب اثر فاطمی، سلمان عبدالصمد، ڈاکٹر عطا عابدی کے مضامین ہیں۔ ’’کچھ باتیں ہر بوند سمندر کی‘‘ کے تحت پروفیسر اسد الزماں، ڈاکٹر ایم اے حق اور سعید رحمانی کی تحریریں ہیں۔

کتاب کے فلیپ پر ڈاکٹر محمد مظہر (ڈیپارٹمنٹ آف میڈیسین، بھگوان مہاویر ہاسپیٹل) نے اپنے تاثرات میں حسن رہبر اور ان کے افسانوں سے متعلق بڑی اچھی باتیں پیش کی ہیں۔ وہ کہتے ہیں :

’’اس میں دو رائے نہیں کہ حسن رہبر عہد نو کے وہ ممتاز اور منفرد افسانہ نگار ہیں۔ جنہوں نے افسانوی ادب کو نہ صرف نئی دشا دی۔ بلکہ اسے وقار بخشا۔ معراج عطا کی اور عالمی پیمانے کے افسانوی ادب کے مد مقابل کھڑا کرنے کی کامیاب کوشش کی ہے۔ان کے افسانوں میں وجود ی احساس کی جھلک، ندرت فکر کی پھوٹتی کونپلیں اور ان کا انفرادی انداز بیان اجتماعیت کے اظہار کی گواہی دیتا ہے۔‘‘

مختصر طور پر اس کتاب میں شامل مضامین کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ ایک فنکار میں افسانہ نویسی کے لئے کئی طرح کی صلاحیتیں ہونی چاہئیں۔ اپنے اردگرد ہونے والے حادثات و واقعات کے مشاہدہ کی قوت جس شخص کے اندر ہوتی وہی افسانہ نگار ی میں کامیاب ہوسکتا ہے۔ افسانہ ایک شعور، ایک احساس ہے جو کسی فرد میں پیدا نہیں کیا جاسکتا ہے۔ اسے محنت سے حاصل کیا جاسکتاہے لیکن اس کے لئے یہ ضروری ہے وہ حساس ذہن و فکر کا مالک ہو۔ اردو میں بہت سے افسانے لکھے جاتے ہیں لیکن عمدہ افسانوں کی تعدا دکافی کم ہوتی ہے۔ ایک افسانہ نگار کے لئے بڑی بڑی ڈگریاں درکار نہیں ہوتیں۔ کم پڑھا لکھا انسان بھی اپنی فکری صلاحیتوں کی بنیاد پر اچھی افسانہ نگاری کر سکتا ہے۔ شرط ہے کہ افسانہ نگار کے اندر اپنے احساسات و جذبات کو نفیس طریقے سے اجاگر کرنے کی صلاحیت موجود ہو۔ایسے ہی صلاحیتوں کے مالک ایک افسانہ نگار جن کا نام حسن رہبر ہے۔ ان میں افسانہ نگاری کی تقریباً تمام تر صلاحیتیں موجودہیں۔ اس کتاب کی اشاعت پر حسن رہبر کے ساتھ ساتھ ڈاکٹر احسان عالم کا شکریہ اور مبارکباد بھی۔۲۰۸ صفحات پر مشتمل اس کتاب کی قیمت ۳۰۰ روپے ہے۔ اسے حسن رہبر، اشرف بلڈنٹ، حسین آباد، بھاگلپور اور احسان عالم گلیکسی کمپیوٹرس رحم خاں، دربھنگہ سے حاصل کیا جاسکتا ہے۔

٭٭٭

تبصرے بند ہیں۔