مسلمانوں کی پس ماندگی کی وجوہات

تعارف و تبصرہ:  وصیل خان  

نام کتاب: مسلمانوں کی پس ماندگی کی وجوہات

مصنف :کیپٹن زین العابدین خان

قیمت :  130؍ روپئے

 صفحات  :  117

ملنے کے پتے :   ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس فون: 23216162-۔ مکتبہ جامعہ لمٹیڈ ممبئی فون نمبر022-23774857۔ کتاب دارممبئی، فون :09869321477۔ امرین بک ایجنسی احمدآباد فون :  08401010786حسامی بک ڈپو، حیدرآباد، فون :  040-66806285۔ دانش محل لکھنؤ فون : 0522-2626724

کیپٹن زین العابدین ایک کہنہ مشق ادیب ہیں اور اب تک مختلف موضوعات پر ان کی متعدد کتابیں منظر عام پر آچکی ہیں۔ ادب سے گہری دلچسپی نے فوجی ماحول میں بھی ان کا رشتہ ادب سےٹوٹنے نہیں دیا، ورنہ فوجی قواعد و ضوابط او ر ادب ندی کے دو پاٹ کی مانندباہم متضاد ہی رہے ہیں۔، فوجی ڈسپلن اور نظم و ضبط ان کی زندگی پر اس طرح اثر انداز رہا کہ موصوف کی کوئی بھی تحریر خواہ وہ ناولٹ کی شکل میں ہو یا افسانوں اور سفرناموں کی صورت میں، فوجی رکھ رکھاؤ اور کھرا پن ہر جگہ صاف نظر آتا ہے، جس نے ان کی تحریروںمیںصداقت اور صاف گوئی کا رنگ نمایاں کردیا ہے جہاں ریاکاری اور مکرو فریب کا گزرنہیں، ورنہ مادیت اور صارفیت کے اس گھٹن زدہ ماحول میں جس نے زندگی کے بیشترشعبوں میں اپنا تسلط جمالیا ہے، یہاں تک کہ ہمارے شعراو ادبا کی اچھی خاصی تعداد بھی اس کی فسوںکاریوں سے خود کو محفوظ نہ رکھ سکی اور ان کی تحریروں میں زندگی کی وہ معنی خیز چمک دمک باقی نہ رہی جو ادب کا اصل الاصل تقاضاتھا۔ نتیجتا ً آج ادب کا ایک بڑا فیصدمادیت اور صارفیت کی زد میں آکر اپنی وہ شگفتگی کھوچکا ہےجوکبھی انسانی معاشرہ کیلئے باد بہاری کا نقیب ہوا کرتا تھا۔ ادیب کوئی آسمانی مخلوق نہیں ہوتا اس کی بھی نشوونما اسی زمین پرپروان چڑھتی ہے، وہ عام انسانوں سے ذرا مختلف ہوتا ہے اور اپنے آس پاس کے حالات کا جائزہ بڑی گہرائی سے کرتا ہے اور پھر اپنے احساسات کو انسانی اور معاشرتی مفاد کی غرض سے اس طرح ضابطہ ٔ تحریر میں لاتا ہے کہ اس سے تہذیب و ثقافت اور معاشرت کو زیادہ سے زیادہ فائدہ پہنچ سکے۔

’ مسلمانوں کی پسماندگی کی وجوہات ‘موصوف کی تازہ کتاب ہے جس میں انہوں نے موجودہ حالات کے تناظر میں مختلف شعبہ حیات میں مسلمانوں کی زبوں حالی کا سیر حاصل محاکمہ کیا ہے، ان کے مطابق موجودہ حالات کے ذمہ دار مسلمان خود ہیں اور پستی کے اس گہرے غار سے باہر نکلنے کیلئے انہیں ذاتی طور پر فکر مندی کا مظاہرہ کرتے ہوئےشدید محنت کی ضرورت ہے یہ صحیح ہے کہ ان کے ساتھ تعصب اور تنگ نظری کا معاملہ کیا جارہا ہے لیکن سب کچھ اسی کو سبب مان کر اغیار کو مورد الزام ٹھہراکر خاموش نہیں بیٹھ جانا چاہیئے بلکہ اپنی خامیوں اور کوتاہیوں پر غور کرتے ہوئے ان تدارکی اقدامات کی ترکیب آزمانی چاہیئے تاکہ وہ اس تنگ نظری اور متعصبانہ ماحول سے خود کو آزاد کرسکیں۔ کتاب کل اٹھارہ مضامین پر مشتمل ہے موضوعات ضرور مختلف ہیں لیکن سب کا ماحصل مسلمانوں کی پسماندگی ہی ہے اس لحاظ سے سبھی مضامین کا درد مشترک ہے۔ جس کا اظہار موصوف نے بڑی بے خوفی کے ساتھ کیا ہے جو اس بات کا ثبوت ہے کہ مسلمانوں کی پس ماندگی کا انہیں بے حد دکھ ہے اور وہ دکھ خالص ہے اور محض جذباتیت سے مملو نہیں۔ کہیں کہیں انہوں نے اپنے کرب کے اظہار یئے میں وہ حدیں بھی توڑ دی ہیں جو ادب کی دیرینہ روایات رہی ہیں یعنی جو کچھ کہا جائے وہ واضح تو ہو لیکن اشارے کنائے میں تاکہ ادبی لطافت بھی قائم رہے اور بات بھی کہہ دی جائے۔ جذباتی روسے مغلوب ہو کر بعض اوقات انسان وہ بات بھی کہہ جاتا ہے جو اس کے حق میں مفید ہونے کے بجائے نقصان کا سبب بن جاتی ہے یہی سبب ہے کہ حکماء اس تعلق سے اعتدال کی راہ اپنانے کا مشورہ دیتے ہیں۔ ایک اقتباس دیکھیں۔

’’ آج انگریز اور یہودی عمل میں اتنا آگے ہوئے۔ ہزاروں ٹن لوہے کو بطور جہاز آسمان میں اڑادیا۔ آج موبائل پر دنیا کے کسی کونے میں بیٹھے آدمی سے بات کرسکتے ہیں یہ علم سائنس کا کمال ہے۔ آج دنیا میں سب سے زیادہ نوبل پرائز لینے والے یہودی ہیں، انہوں نے دن رات محنت کی، عمل او رعلم کی طرف بڑھے اور کامیابی نےان کے قدم چوم لئے۔ اس کتاب کے اخیر میں آپ دیکھیں گے کہ علم سائنس، علم حساب اور علم نجوم کے ماہر مسلمان تھے۔ ان سے ہی علم الجبرا اور سائنس کا وجود قائم ہوا لیکن آج مدرسوں سے انگریزی، حساب اور سائنس غائب ہے اور فرقہ پرستی قائم ہے۔ ‘‘

مصنف کا یہ تجزیہ نہ صرف درست ہے بلکہ حقیقت حال کا آئینہ دار بھی ہےانہوں نے جو کچھ لکھا ہے اس کےحرف حرف سے امت مسلمہ کے تئیں ان کا خلوص بھی صاف نظر آرہا ہے ظاہر ہے اس فکر اور اخلاص سے اختلاف رائے کون کرسکتا ہے۔ لیکن اقتباس کا آخری جملہ ’ اور فرقہ پرستی قائم ہے ‘ یہاں ضـرور اختلاف کیا جاسکتا ہے۔ ہمیں یہ تسلیم کہ دینی مدارس میں جدید علوم شامل نصاب نہیں اور یہ بھی تسلیم کہ ان مدارس کے فارغین طلباء جدید دنیا کی قیادت نہیں کرسکتے کیونکہ انہوں نے ان علوم کا مطالعہ ہی نہیں کیا جو آج عام طور سے معاشرے میں رائج ہیں لیکن یہ بہر حال یہ کسی بھی طرح درست نہیں کہ ان مدارس میں فرقہ پرستی کی تعلیم دی جاتی ہے۔ اس کے برعکس وہاں انسان کامل بننے کی تعلیم دی جاتی ہے جوکسی کالج اور یونیورسٹی میں نہیں دی جاتی جہاں صرف اور صرف حیوان کاسب ( کمانے والےحیوان ) کی تخلیق کی جاتی ہے۔ ڈاکٹر، انجینئر اور دیگر ممتاز عہدوں پر منتخب ہونے والے افراد کی خود غرضی بے رحمی اور رشوت خوری کا مشاہدہ کرنے کے بعد یہ بات اچھی طرح سے سمجھ میں آجاتی ہے کہ یہ عصری ادارے اور تعلیم گاہیں محض حیوان کاسب بنانےکے ورکشاپ ہیں اور کچھ نہیں۔

مصنف کے قلم سے دانستہ یا غیر دانستہ اس طرح کے متعدد جملوں کی موجودگی تھوڑی دیر کیلئے ہی سہی ایک انقباض کی کیفیت پیدا کردیتی ہے اس کے علاوہ کتاب کی تیاری میں جس اہتمام کی ضرورت تھی اس کا بھی معقول نظم موجود نہیں کن جملوں کی نشاندہی کی جائےکیونکہ پوری کتاب اغلاط اور موہوم جملوں اور ترکیبوں سے بھری ہوئی ہے، یہاں تک کہ سرورق پر کتاب کے عنوان میں بھی گرامر کی غلطی ہے۔ اس جانب مصنف کو بھرپور توجہ کی ضرورت تھی دوران مطالعہ بارہا یہ بھی احساس ہوا کہ شاید غلطی سے رف مسودہ پریس بھیج دیا گیا اور وہاں سے کتاب چھپ کر مارکیٹ میںپہنچ گئی۔ مقصد اور ضرورت کے اعتبار سے مصنف نےیقینی طورپر ایک اہم ترین موضوع کا انتخاب کیا تھا لیکن ذرا سی غفلت نے کتاب کو چیستاں بنادیا، اگر اس جانب بھر پور توجہ مبذول کی گئی ہوتی تو اس کتاب کا رنگ ہی کچھ اور ہوتا۔

تبصرے بند ہیں۔