ماہِ رمضان اور اس کے تقاضے

مفتی رفیع الدین حنیف قاسمی

رمضان المبارک جو کہ در اصل نیکیوں کا موسم بہار ہے، اس کی آمد آمد ہے، یہ اللہ عزوجل کا خاص فضل وکرم ہے کہ اس نے سال میں کچھ راتیں اور کچھ ایام ایسے فضیلت کے نصیب فرمائے ہیں جس کی صحیح قدر دانی اور اس میں اللہ عزوجل کی جانب صحیح توجہ سے انسان سے گذشتہ ایام میں جو کچھ کمی کوتاہیاں اور قصور ہوئے ہیں، ان کی تلافی کرسکتا ہے، اس لئے اس ماہِ مبارک کا تقاضا یہ ہے کہ خصوصا مادی مصروفیات اورزیادہ دنیاوی انہماک سے علاحدہ ہو کر اپنے مولاسے لولگائے، اور حتی الامکان اس ماہِ مبارک کو عبادت وریاضت، تلاوت قرآن، عبادتوں اور نوافل میں گذارے۔

اس لئے کہ رمضان صرف روزہ، اور تراویح کانام نہیں ہے، بلکہ اس کا صحیح اور حقیقی فائدہ تو یہ ہے کہ اس مہینے میں اپنے آپ کو مکمل یکسو کر کے نفلی عبادات میں مصروف رکھاجائے، اپنی مادی مصروفیات کو ذرا کم کر کے، مادی غذاؤں سے تھوڑا سے جان چھڑا کر روحانی غذا کا جسم کے لئے سامان کیا جائے، تاکہ انسانی کی جسمانی سفر کی رفتا جو تیز ہوچکی تھی اب روحانی سفر کی مقدار کو تیز کر کے دونوں کو نقطہ اعتدال پر لایا جاسکے۔

۱۔ا س لئے ہر شخص کو چاہئے کہ رمضان المبارک میں اپنی مادی مصروفیات کو کچھ کچھ کم کر کے روحانی مصروفیات اور اعمال وعبادات میں اپنے آپ کو مصروف رکھنے کی کوشش کرے، غیر ضروری کاموں، یا جن کاموں کو کچھ موخر کیا جاسکتا ہو ان کو موخر کر کے اپنی اخروی زندگی کا سامان کیا جائے، اپنے آپ کو نفلی عبادتوں، ذکر اور دعا اور تلاوت وغیرہ میں مصروف عمل رکھے۔چونکہ احادیث مبارکہ میں اس ماہِ مبارک میں ایک نیکی کا ثواب فرض کے برابر اور ہر فرض کا ستر فرضوں کے برابر قرار دیا گیا، ’’ فمن تطوع فیہ بخصلۃ من الخیرکان کمن ادی فریضۃ فیما سواہ، ومن أدی فیہ فریضۃ کان کمن أدی سبعین فریضۃ ‘‘(مسند الحارث، باب فی فضل شہر رمضان، حدیث: ۳۲۱)

۲۔ رمضان المبارک کے مہینہ میں انسان روزے کی وجہ سے عام حالات میں جو چیزیں اس کے لئے حلال ہیں وہ اللہ عزوجل کی بندگی اوراس کے احکام کے آگے سرنگوں ہو کر ترک کردیتا ہے، لیکن یہ نہایت افسوس کا مقام ہے کہ انسان اللہ عزوجل کی بندگی اوراس کے روزے کے لئے حلال امور تو چھوڑے دے ؛ لیکن جو امور عام حالات میں بھی حرام ہیں ان کا دھڑلے سے دن بھر، رات بھر مرتکب ہوتا رہے۔ لہٰذا کھانا پینا تو ترک کیا جاتا ہے، لیکن غیبت، جھوٹ، دل شکنی، رشوت ستانی، دھوکہ دہی، ہراسانی وغیرہ یہ امور جو ہر حال میں حرام ہیں، یہ ترک نہیں کئے جاتے تو ایسا روزہ انسان کو کتنا روحانی ترقی کا مستحق بناسکتا ہے؟

اس لئے خصوصا رمضان المبارک میں آنکھ ناک، کان اور دیگر اعضاؤں کے گناہوں سے خصوصا اجتناب ہو، حالت روزہ میں اللہ عزوجل کے احکام کی تابعداری میں کھانے پینے کے ترک کا مقصود بھی یہی ہے کہ انسان ہر موقع اور محل اور ہر حالت میں اللہ عزوجل کے احکامات پر عمل پیرا ہونے کی اس کے اندر اور خو آجائے۔ اسی لئے اس مہینہ کو ’’شہر الصبر‘‘ صبر وضبط اور اپنے عام دنوں کی خواور عادت پر بند لگانے کا مہینہ بھی قرار دیا گیا۔

۳۔ رمضان المبارک کو ’’مواساۃکا مہینہ ‘‘ قرار دیا گیا ہے، اس میں غریبوں کی غم خواری، ان کی دلجوئی اور ان کی ضروریات کی تکمیل کا اہتمام خصوصا ہو، زکاۃ، صدقات اور پاس پڑوسی اور غریبوں کا خوب خیال کیا جائے، ہر مسلمان کا اس مہینے میں یہ خصوصی وصف ہوناچاہئے، اسی لئے اس مہنے کو ’’مواساۃ کا مہینہ ‘‘  کا مہینہ کہاکہکہ اس مہینہ میں غریبوں کی خوب امداد واعانت کی جائے، ان پر فراخی کی کوشش کی جائے، اسی لئے اس ماہِ مبار ک میں افطار کرانے کی اہمیت وفضیلت کو بیان کیا گیا :

اسی لئے فرمایا اس مہینہ میں مومن کا رزق بڑھ جاتا ہے، ایک تو من جانب اللہ مومن کے لئے کشادگی رزق کا یہ مہینہ سبب بنتا ہے، دوسری اس لئے کہ یہ مہینہ چونکہ مساوات وغم خواری اور غریبوں اور ناداروں کی دیکھ بھال اور نگہداشت کا مہینہ ہے، اس طرح اس عطا وجود سخاوت کے اس وصف کے حامل مہینہ میں مومن کا رزق یوں کر بڑھا دیا جاتا ہے اور فرمایا جو شخص رمضان میں روزہ دار کو افطار کراتا ہے تو یہ اس کو جہنم سے خلاصی اور گناہوں سے مغفرت کا پروانہ بنتاہے، حسب استطاعت ایک گھونٹ دودھ، یا ایک کھجور یا لسی پلانے پر بھی اسی طرح کا وعدہ اللہ عزوجل نے فرمایا ہے، اور فرمایا جو شخص روزہ دار کو پیٹ بھر کھانا کھلاتا ہے تو یہ اس کے لئے گناہوں کی مغفرت کا باعث ہے اور اس کو  اس کے عوضروزہ محشر حوض کوثر سے ایسا شراب پلایا جائے گا جس کے بعد اسے جنت میں جانے تک پیاس نہ لگی گی۔(مسند الحارث، باب فی فضل شہر رمضان، حدیث: ۳۲۱)

۴۔ اور ایک روایت میں اس ماہِ مبارک کو صلح وصفائی کا مہینہ قرار دیا گیا، اس لئے فرمایا گیا کہ بے جا جھگڑوں اور گالی گلوچ سے اس مہینہ میں احتراز کرے، اس حوالہ سے نبی کریم ﷺ کا ارشادگرامی ہے کہ : ’’ اگر تم میں سے کوئی شخص روزہ ہو تو نہ وہ گالی گلوچ کرے اور اس جہالت پنے کا مرتکب ہو، ، اگر کوئی شخص اس سے لڑائی کرنا چاہے یا اس کو برا بھلا کہے تو یوں کہے کہ : میں روزہ سے ہوں، میں روزہ سے ہوں۔ (موطا امام مالک:جامع الصیام، حدیث: ۳۲۳)

۵۔ اس مہینہ کے اول حصہ کو رحمت خداوندی کے نزول کا مہینہ قرار دیا، اور درمیان کو بخش اور مغفرت کا حصہ اور اخیر حصہ کو جہنم سے نجات اور آگ سے خلاصی کا کی وجہ قرار دیا۔ ’’وہو شھر اولہ رحمۃ، واوسطہ مغفرۃ، وآخرہ عتق من النار ‘‘۔ اس لئے اس کے ہر ہر لمحہ کو قیمتی جانے، اس کی رحمتوں کی سوغات، مغفرتوں کے تمغات، اور جہنم سے خلاصی اور نجات کے اعزازات وانعامات کا نیکیوں کے ذریعہ مستحق بنائے۔

خلاصہ یہ کہ ہر وقت یہ پیش نگاہ رہے کہ رمضان صرف یہ سحری اور افطار کا نام نہیں، بلکہ دراصل رمضان کا مہینہ سال کے دیگر مہینوں کے مقابل ایک خصوصی تربیت اور ٹریننگ کا موقع ہے، اس تربیتی کورس سے ہر مسلمان کو سال میں ایک دفعہ گذارکر اس کو کندن بنایا جاتا ہے، اس کے خالق ومالک کے ساتھ اس کی وابستگی اور تعلق بڑھایاجاتا ہے، وہ ریاضت اور مجاہدہ اور رجوع إلی اللہ کے ذریعے اپنے کو اوصاف رذیلہ سے پرہیز کا عادی بنایا جاتا ہے، اور اعلی اوصاف واخلاق کو اپنے اندر پیدا کراتا ہے۔

اس لئے رمضان المبارک کے مبارک مہینے سے سرسری اور روایتی انداز میں گذرنا نہیں ہے ؛ بلکہ اس کے ہر لمحہ کو قیمتی ازقیمتی بنانا ہے، اور فرائض، نوافل، روزہ تراویح اور دیگر عبادات، اذکار واورادمیں اپنے آپ کو مصروف رکھ کر ہمہ تن اللہ عزوجل سے لو لگانا ہے، دنیا اوراس مادی مصروفیات سے کٹ کر اس ماہ میں ماہ عبادت وریاضت کے ذریعے زندگی اور جسم کا روحانی سامان کرنا ہے۔

تبصرے بند ہیں۔