ٹی وی دیکھنا چھوڑ دیں، اخبار پڑھنا چھوڑ دیں !

مدثر احمد

ہندی کے ایک صحافی رویش کمار نے کچھ دن قبل اپنے انٹرویو میں ایک اپیل کی تھی کہ لوگ اب ٹی وی دیکھنا چھوڑدیں خاص کر نیوز چینلس دیکھنا چھوڑدیں، انکے اس بیان کے پیچھے ایک حقیقت ہے۔ جس طرح سے رویش کمار نے ناظرین کو ہدایت دی ہے کہ وہ ٹی وی دیکھنا چھوڑ دیں، اسی طرح سے میں پرنٹ میڈیا سے جڑے ہونے کے سبب یہ کہنا چاہونگا کہ لوگ اخبارات پڑھنا چھوڑ دیں۔

الیکٹرانک میڈیا ہو یا پر نٹ میڈیا دونوں ہی آج سماج کے حقیقی آئینے کے دکھانے کا کام نہیں کررہے ہیں۔ الیکٹرانک میڈیا کسی مخصوص نظریا ت کی تشہیر کررہا ہے تو پرنٹ میڈیا بھی اپنی ذمہ داریوں کو نبھانے میں ناکام ہواہے۔ ہندی، انگریزی اور دوسری زبانوں کے اخبارات کو چھوڑئے، خود ہماری مادری زبان اردو میں شائع ہونے والے اردو اخبارات صحافت کا حق ادا نہیں کررہے ہیں جس کی وجہ سے قارئین کی سوچ بھی مفلوج ہوچکی ہے۔ ہم دیکھ رہے ہیں کہ آج اردو اخبارات کسی خاص شخصیت یا خاص پارٹی کی تشہیر کے پرچے بن چکے ہیں اور ملت، قوم و ملکی مسائل پر تبصرے کرنے سے گریز کرتے ہیں۔ اگر کسی قلم کار نے بے باکی سے کسی پر تنقید کردی تو وہ مضمون شائع نہیں کیا جاتاہے اور شائع ہوتا بھی ہے تو ایڈیٹر اپنی پوری صلاحیتوں کا استعمال کرتے ہوئے تنقیدی جملوں کو ہٹادیتاہے اور اس مضمون کو برائلر مرغی کی طرح بنا دیتاہے۔ ملک کے موجودہ حالات کاجائزہ لیں۔ ان حالات میں مسلمان کس طرح سے اپنی سماجی ذمہ داریوں کو نبھا رہے ہیں اس پر نظریں دوڑائیں۔ سیاسی، سماجی، ملی، معاشی اور تعلیمی اعتبار سے مسلمان رسواء ہورہے ہیں۔ ہر طرف لاچارگی کا رونارویا جارہاہے مگر ان حالات سے ملت کو ابھارنے کی جو اردو میڈیا کی تھی وہ بھی اب ناکارہ بنتے جارہے ہیں۔

 سوال یہ ہوتاہے کہ جو لوگ اخبارات کو کسی خاص شخص کی شخصیت کو ابھارنے، کسی پارٹی کی ترجمانی کرنے اور اشتہارات کے ذریعے سے پیسے کمانے کے لئے چلاتے ہیں وہ اپنے پرچے کو کس لحاظ سے اخبار کا نام دیتے ہیں۔ اخبار تو صحافت کی تختی ہوتی ہے اور اسی تختی کو کچھ لوگوں نے بدنام کررکھا ہے۔ دوسری اخبارات کی طرح ہمارے اخبارات بھی اب مکمل کاپی پیسٹ اخبارات ہوچکے ہیں، ان اخبارات کا مقصد صحافت کرنا نہیں بلکہ تجارت کرنا ہوتا ہے۔ ہم نے تو کچھ ایسے ایڈیٹرس بھی دیکھے ہیں جنہیں ایڈیٹنگ تو دور کی بات ہے اردو پڑھنا بھی نہیں آتا۔ ایسے لوگوں کی وجہ سے بھی اخبارات اپنا وقار کھوتے جارہے ہیں۔ رویش کمار نے ایک ٹی وی چینل کے صحافی ہونے کے ناطے خود ہی یہ کہاہے کہ لوگ ٹی وی دیکھنا چھوڑدیں، انکی یہ صلاح اس تمام ٹی وی چینلوں کے لئے نہیں تھی بلکہ ایسے چینلوں کے لئے تھی جو کسی خاص جماعت، کسی خاص شخصیت کے لئے کام کررہے ہیں۔ ایسے چینلوں کو دیکھنے سے بھلے آپ کو کوئی فائدہ نہ ملے لیکن آپ کی سوچ میں انتشار پیدا ہوگا، آپ کی فکر متاثر ہوگی، آپ کے خیالات میں منفی نظریات حاوی ہونگے اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ جتنے لوگ ایسے چینلس دیکھیں گے ان چینلوں کی ٹی آر پی بھی بڑھنے لگے گی جس سے انکی آمدنی میں اضافہ ہوگا، آپ کے دیکھنے سے ملنے والے فائدے کو وہ آپ کے خلاف ہی، آپ کی سوچ میں زہر گھولنے کے لئے ہی استعمال کرینگے۔

بالکل اسی طرح، پرنٹ میڈیا میں بھی ایسے کئی اخبارات ہیں جو محض نام کے لئے جاری ہوتے ہیں، ان اخبارات کا کوئی مخصوص موقف نہیں ہوتااور نہ ہی انہیں قومی و ملی مسائل سے کوئی لینا دینا ہوتا ہے، ایسے میں آپ ایسے اخبارات خریدتے ہیں تو اس سے وہ اخبارات متاثر ہونگے جو واقعی میں قومی وملی مسائل پر لکھتے ہیں۔ مثال کے طورپر سنگھ پریوار کے ایسے کئی اخبارات ہیں جو ملک و ملت کے خلاف زہر اگلتے ہیں، ان اخبارات کو مسلمان بھی خریدتے ہیں، انکی خریداری سے جو منافع ملتاہے وہی منافع مسلمانوں کے خلاف انجام دیے جانے والے منصوبوں پر خرچ کیا جاتاہے۔ اسی طرح سے اردو کے کچھ اخبارات ہیں جن کا منشاء حقیقی ترجمانی کرنے والے اخبارات کو کمزور کرنا ہوتاہے۔ اس لئے ہم قارئین سے گذارش کرتے ہیں کہ ایسے ٹی وی چینل جو مسلمانوں و سیکولرز م کے دشمن ہیں انہیں ہرگز نہ دیکھیں اور ایسے اخبارات جو کسی خاص شخص کی پرستش کرتے ہوں، کسی خاص پارٹی کی ترجمانی کرتے ہوں انہیں بھی نہ خریدیںبھلے وہ اردو اخبارات ہی کیوں نہ ہوں!

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔