تعمیر کردار اور اساتذہ

علامہ اقبالؒ کے نظریۂ تعلیم کی روشنی میں
ترتیب: عبدالعزیز
علامہ اقبالؒ کی نظر میں اسلامی نظام تعلیم تعمیر کردار اور تہذیب اخلاق کو تعلیم کا بنیادی مقصد قرار دیتا ہے اور وہ ایسے نوجوان تیار کرنا چاہتا ہے جو ایک طرف علم کی دولت سے مالا مال ہوں تو دوسری طرف اخلاق حسنہ کے جوہر سے بھی آراستہ ہوں، جن کی زندگیاں ملک و ملت اور انسانیت کی خدمت کیلئے وقف ہوں اور جو اعلیٰ مقاصد کیلئے اپنی صلاحیتوں کا بہترین استعمال کریں جو تعلیم طالب علم کو اپنے مقاصد سے روشناس نہ کرے، محاسن اخلاق سے اس کی سیرت کو آراستہ نہ کرے اور اس میں صداقت، شجاعت اور عدالت جیسے صفات عالیہ پیدا نہ کرے، وہ تعلیم نہیں بلکہ فریب محض ہے؛ چنانچہ اقبال فرماتے ہیں:
آہ اس راز سے واقف ہے نہ ملّا نہ فقیہ ۔۔۔ وحدت افکار کی بے وحدت کردار ہے خام
تعلیم میں سب سے زیادہ اہمیت بچے کے کردار کی تشکیل کی ہے۔ تعلیم جب تک اچھے کردار نہ پیدا کرے گی اپنا حقیقی مقصد حاصل نہیں کرسکتی؛ چنانچہ قرآن بیک وقت ایمان اور عمل صالح کی تلقین کرتا ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بنیادی مشن میں تعلیم کتاب و حکمت کے ساتھ تزکیہ یعنی انسانی زندگی اور روح کی تطہیر بھی شامل ہے۔ اس لئے استاد کو خود اپنی زندگی اور اپنے کردار و عمل سے طالب علم میں ایک مومنانہ زندگی اختیار کرنے کا جذبہ پیدا کرنا چاہئے اور درس گاہوں کا ماحول بھی اس کیلئے ممد و معاون ہونا چاہئے۔
اسلامی نظام تعلیم میں طلبہ کے ساتھ ساتھ ان کے تزکیہ اور اصلاح باطن کی فکر کی جاتی تھی۔ استاد صرف معلم ہی نہیں مربی بھی ہوتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ اس نظام تعلیم کے تیار کردہ افراد نے نظام حکومت کو نہایت دانش مندی اور خوش اسلوبی سے چلایا۔
روشن اس ضو سے اگر ظلمت کردار نہ ہو ۔۔۔ خود مسلماں سے ہے پوشیدہ مسلماں کا مقام
اقبالؔ کے نزدیک تعلیم میں اس وقت تک کوئی بنیادی اور عملی تبدیلی نہیں آسکتی، جب تک کہ اساتذہ کی حالت زار کو نہ بدلا جائے کیونکہ ننھے اور معصوم ذہنوں پر استاد ایک دائمی اور اَنمٹ نقش ثبت کرتا ہے۔ اس کے اعتقادات و اقدار، پرتو و کردار طلباء کیلئے نمونے کا کام دیتے ہیں، لہٰذا اساتذہ کو اس منزل تک لائے بغیر یہ ممکن نہیں کہ طلباء کو اسلامی تعلیمات و اصول کا پیکر بنایا جائے۔ اسلامی نظام تعلیم ایسے اساتذہ کو گوارا نہیں کرتا جن کی زندگیاں اسلامی تعلیمات کے خلاف ہوں؛ چنانچہ وہ اس تعلق سے فرماتے ہیں:
شیخ مکتب ہے ایک عمارت گر ۔۔۔ جس کی صنعت ہے روح انسانی
نکتۂ دل پذیر تیرے لئے ۔۔۔ کہہ گیا ہے حکیم قآنی
پیش خورشید در مکش دیوار ۔۔۔ خواہی از صحن خانہ نورانی!
اقبال موجودہ اساتذہ کے معیار سے مطمئن نہیں ہیں اور انھیں اس قابل نہیں سمجھتے کہ نوجوانوں کی تعلیم ان کے سپرد کی جائے؛ کیونکہ وہ خود بھٹکے ہوئے ہیں اور انھیں خود راہ کی خبر نہیں ہے اور جب خود انھیں اس کی خبر نہیں ہے تو وہ دوسروں کو کیونکر راستہ بتاسکیں گے۔
مقصد ہو اگر تربیت لعل بدخشاں ۔۔۔ بے سود ہے بھٹکے ہوئے خورشید کا پر تو
دنیا ہے روایات کے پھندوں میں گرفتار ۔۔۔ کیا مدرسہ، کیا مدرسہ والوں کی تگ و دو
کرسکتے تھے جو اپنے زمانے کی امامت ۔۔۔ وہ کہنہ دماغ اپنے زمانہ کے ہیں پیرو
وہ کم سواد و کم نظر شیخ مکت سے بھی نالاں ہیں جو خود نہ تعلیم کا مطلب سمجھتے ہیں اور نہ اس علم میں نظر غائر رکھتے ہیں جس کا وہ درس دیتے ہیں:
شیخ مکتب کم سواد و کم نظر ۔۔۔ از مقام اور نداد او را خبر
تربیت و کردار کے ضمن میں اقبال کے نزدیک دوسرا اہم قدم تعلیمی ماحول کی اصلاح ہے۔ مغربیت سے بھر پور، مذہب کو زندگی سے غیر متعلق قرار دینے والے شعائر اسلامی کو کوئی اہمیت نہ دینے والے، اسلام کی اخلاقی اقدار کو پس پشت ڈالنے والے اس ماحول کی تبدیلی جہاں ناچ گانے اور رقص و سرود کو کلچر قرار دیا جاتا ہے تربیت کردار کی طرف دوسرا قدم ہے۔ وہ تعلیم گاہوں میں ایسا ماحول چاہتے ہیں جو طالب علم کو اپنے دین پر فخر کرنا سکھائے، اسلام کی اخلاقی اقدار کو دنیا میں بہتر زندگی کیلئے ناگزیر قرار دے اور حریت کے جذبات کو پروان چڑھائے۔ بہ حیثیت مجموعی ماحول خوبیوں کی قدر کرنے والا اور خرابیوں کو دور کرنے والا ہو۔ اقبال صرف یہی نہیں چاہتے کہ نو خیز نسلوں کی ذہنی اور فکری تربیت کا انتظام ان کے نصب العین کے مطابق ہو بلکہ ان کے ساتھ ساتھ ان کی اخلاقی او ر عملی تربیت بھی ہو۔ یہ ضرورت اس وجہ سے اور بھی شدید ہوگئی ہے کہ ہمارے ملک میں مدت ہائے دراز کے انحطاط کی وجہ سے اخلاقی اور اجتماعی تربیت کا نظام باقی نہیں رہا ہے، جس کا نتیجہ یہ ہے کہ تعلیم یافتہ آدمیوں کی تو بہتات ہے لیکن تربیت یافتہ آدمیوں کا قحط ہے۔ ہمارے تعلیم یافتہ حضرات بھی پاکیزہ اخلاق اور نظم و ضبط کی بنیادی تربیت سے عاری ہیں۔ اس کی وجہ سے اعلیٰ درجہ کے ایسے کارکن جو کسی نصب العین کیلئے جدو جہد کرسکیں، ملنا دشوار ہے۔ درس گاہوں کے موجودہ ماحول میں وہ تعلیم و اساتذہ جو طالب علم کے کردار ڈھالنے میں بہت ہی اہم مقام رکھتے ہیں۔ ان کے فقدان صلاحیت پر اقبال یوں تنقید فرماتے ہیں:
زندگی کچھ اور شئے ہے علم ہے کچھ اور شے ۔۔۔زندگی سوزِ جگر ہے علم ہے سوزِ دماغ
علم میں دولت بھی ہے قدرت بھی ہے لذت بھی ہے ۔۔۔ ایک مشکل ہے کہ ہاتھ آتا نہیں اپنا سراغ
اہل دانش عام ہیں، کمیاب ہیں اہل نظر ۔۔۔ کیا تعجب ہے کہ خالی رہ گیا تیرا چراغ
شیخ مکتب کے طریقوں سے کشادہ دل کہاں ۔۔۔ کس طرح کبریت سے روشن ہو بجلی کا چراغ
اقبال چاہتے ہیں کہ کسی طرح مسلم نوجوانوں کے دل و دماغ اور کردار و عمل میں ایک انقلاب پیدا ہوجائے تاکہ انھیں اپنی حیات کا مقصد اور اپنی روحانی طاقتوں کا احساس ہوسکے۔
اے مسلمانانِ فغاں از فتنہ ہائے علم و فن ۔۔۔ اہرمن اندر جہاں ارزاں و یزداں دیریاب
انقلاب انقلاب اے انقلاب
واعظ اندر مسجد و فرزنداؤ در مدرسہ ۔۔۔ آں بہ پیری کود کے ایں پیر در عہد شباب
انقلاب انقلاب اے انقلاب
لیکن وہ ایسا انقلاب محض ظاہری و وقتی نہیں چاہتے بلکہ دل اور روح کا انقلاب چاہتے ہیں اور یوں بھی انقلاب کی تلقین اس وقت صحیح ہوسکتی ہے جب ایک دوسرا لائحہ عمل پیش نظر ہو۔ یہ دل و نظر کا انقلاب اقبال کے نزدیک صحیح مذہبی تعلیم میں پنہاں ہے، کیونکہ اسی سے دل و نظر کی تعلیم یعنی اخلاق کی تعمیر ہوسکتی ہے۔ موجودہ تعلیم گو نہایت اعلیٰ سہی مگر جب تک اس سے ذہنی و فکری بلندی نصیب نہ ہو اس وقت تک تعلیم کا مقصد حاصل نہیں ہوسکتا۔
مرید ہندی : چشم بینا سے ہے جاری جوئے خوں ۔۔۔ علم حاضر سے ہے دیں زار و زبوں
پیر رومی : علم را برتن زنی مارے بود ۔۔۔ علم را بر دل زنی یارے بود
مرید ہندی: پڑھ لئے میں نے علوم شرق و غرب ۔۔۔ روح میں باقی ہے اب تک درد و کرب
پیر رومی: دست ہر نا اہل بیمارت کند ۔۔۔ سوئے مادر آ کہ تیمارت کند
مرید ہندی : علم و حکمت کا ملے کیوں کر سراغ ۔۔۔کس طرح ہاتھ آئے سوزِ درد و داغ
پیر رومی: علم و حکمت زاید از نان حلال ۔۔۔ عشق و رقت آید از نان حلال
یہاں مرید ہندی سے مراد اقبال خود ہیں اور پیر رومی سے مراد مولانا جلال الدین رومی ہیں، جن کو اقبال اپنا معنوی اور روحانی استاد تسلیم کرتے ہیں۔ اس مکالمے کی شکل میں علم و حکمت کے لطیف نکات بیان کئے گئے ہیں جو موجودہ تعلیمی زبوں حالی کو بدل سکتے ہیں۔
اقبال کے مدرہ اور اہل مدرسہ یا مروّجہ نظام تعلیم پر طنز و تنقید کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ وہ علم و فن یا اساتذہ و تعلیم کی اہمیت و افادیت کو محسوس نہیں کرتے یا ان کی تخفیف کرتے ہیں۔ اس کے برخلاف وہ خود اپنے زمانے کے بہت بڑے عالم تھے اور شراب علم کی لذت کشاں کشاں ان کو مشرق سے مغرب تک لے گئی۔
چلی ہے لے کے وطن کے نگار خانہ سے ۔۔۔ شراب علم کی لذت کشاں کشاں مجھ کو !
اقبال سے بڑھ کر علم کا شیدائی کون ہوگا۔ تعلیم ان کے نزدیک ملت کے جملہ امراض کی دوا اور خون فاسد کیلئے کارگر نشتر ہے، اس کے حصول کیلئے سفر و حضر کی صعوبتوں کی پروا نہ کرنی چاہئے۔ اساتذہ بھی ان کی نظر میں قوم کے معمار ہیں۔ ایسے معمار جن کی رہنمائی سے روح انسانی منور رہتی ہے لیکن جب اقبال یہ دیکھتے ہیں کہ اساتذہ کی بے بصری تعلیم کے اصل مقصود کو فراموش کرتی جارہی ہے اور ان کا تقلیدی ذہن مدرسے کے صحن میں دیوار کھینچ کر خورشید علم کو طلباء کی نظروں سے اوجھل کئے دے رہا ہے تو اس صورت حال کو وہ ملت کی زبوں بختی و مجرمانہ غفلت سے تعبیر کرتے ہیں۔
اس دور میں تعلیم ہے امراض ملت کی دوا ۔۔۔ ہے خون فاسد کے لئے تعلیم مثل نیشتر
رہبر کے ایما سے ہوا تعلیم کا سودا مجھے ۔۔۔ واجب ہے صحرا گرد پر تعمیل فرمانِ خضر
لیکن نگاہ نکتہ بیں دیکھے زبوں بختی مری ۔۔۔ رفتم کہ خار زار پاکشم محمل نہاں شد از نظر

تبصرے بند ہیں۔