نوٹ بندی اور مسلمانوں کا رول

ڈاکٹر اعجاز علی
( سابق ایم پی)

وزیر اعظم ہند نریندر مودی کے نوٹ بندی کے فیصلے نے سارے ملک میں بھونچال لا دیا ہے۔ جہاں دیکھونوٹ پرہی بحث چلتی سنائی دے رہی ہے۔ پارلیامنٹ بھی اس ایشو پر ٹھپ چل رہا ہے۔ میڈیا بھی 8؍ نومبر سے اسے مسالہ کی طرح استعمال کر رہا ہے۔ صرف مسلم سماج ہی اس پرخاموش ہے۔ اُسے سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ کرے تو کیا کرے۔ مخا لفت کرے یا حمایت کرے۔ وزیر اعظم ہند کی طرف سے جو تقریریں سامنے آرہی ہیں اس سے ظاہر ہو رہاہے کہ کرپشن اور کالا دھن سے ملک کو نجات دینے کے لئے انہوں نے یہ قدم اُٹھایا ہے تاکہ ملک سے،مہنگائی، غریبی، تعلیم کی کمی اور بے روزگاری دور ہو۔ ان کی باتوں میں دم ہے۔ آزادی کے70سال بعد بھی ملک میں بھوک مری، بے روزگاری اور مہنگائی کا بول بالا ہونا تشویشناک ہے کیونکہ یہی ملک کو سول وار کی طرف لے جاتا ہے۔ اس بدحالی کی جڑمیں بد عنوانی ہے جو کینسر کی مانند ہے اور اس نے اقتصادی نابرابری کو اتنی مضبوطی دے دی ہے کہ ساری بنیادی مسائل کنٹرول سے باہر دکھائی دیتا ہے، مسلمان نابرابری مخالف مہم کاحمایتی رہتا ہے تاکہ ملک و سماج کو بد حالیوں سے کیسے نجات ملے۔ اگر نوٹ بندی ان مسائل کا حل بن کر سامنے آئے تو مسلمان اس کا ساتھ دینا ضرور پسند کرے گا لیکن اسے تذبذب ہوتی ہے جب وہ دیکھتا ہے کہ اس کا کمانڈ تو مودی سنبھالے ہوا ہے جس کا ساتھ وہ دے تو کیسے دے۔ مسلمانوں کی یہ تذبذب سو فیصد جائزہے لیکن ایسی حالات میں ہی حکمت کا سہارا لیناچاہئے۔ میری ذاتی رائے ہے کہ مسلمانوں کو نوٹ بندی مہم کا ساتھ حکمت کے تحت دینا چاہئے چاہئے کیونکہ مودی نے نوٹ بندی کے نام پر جو لاٹھی اٹھائی ہے اس کی چوٹ بنیا، مارواڑی، بیورو کریٹس برہمن(مندروں کے مہنت) اور ٹھاکروں پر ہی پڑے گا اور سنگھ پریوار ہل جائے گاکیونکہ پیسہ تو انہیں طبقات کے پاس ہے۔اس حکمت میں حُب علی نہیں بلکہ بعض معاو یہ ہی ہے کہ کیونکہ یہی وہ طبقات ہیں جو دنگے ، فساد میں غیر سماجی عناصر کی پیسے سے مدد کرتا ہے تاکہ وہ مسلمانوں کے ساتھ ظلم کرے۔تعجب تو اس بات کی ہے کہ مودی کی لاٹھی ان کے ہی خلاف اٹھی ہے جنہوں نے ووٹ دے کر انہیں گدی پر بیٹھایا ہے اور فخر کرتا ہے اپنا وزیر اعظم گدی پرہے۔ لاٹھی کی چوٹ کو یہ طبقات خوب محسوس کر رہا ہے لیکن ابھی بولنے سے پرہیز کرتا جبکہ اندر سے بدلے کی آگ میں جل رہاہو۔ دوسری طرف مودی بنام دیگر سیاسی جماعتوں کے بیچ چھڑی سیاسی جنگ میں جو باتیں سامنے آرہی ہیں اس سے ایسا لگتا ہے جیسے مودی اس فیصلے سے پیچھے ہٹنے والے نہیں ہیں چاہے کرسی کیوں نہ چلی جائے۔ شاید انہیں اس بات کی پوری جانکاری ہے کہ باہری ملکوں سے زیادہ کالادھن ملک کے اندر ہی ہے جو صحیح ہے۔ اسی لئے انہوں نے مہنتوں کو بھی ٹوک دیا ہے کہ مندر میں جو چڑھاواآتا ہے اسے بھی بینک میں جمع کریں۔ حالانکہ ہماری ایسی ملی تنظیموں کو بھی اس سے نقصان ہے جسے باہر سے مدد ملتی ہے لیکن بڑے مفاد میں مودی کی اس لاٹھی میں مسلمانوں کو حکمت عملی کے تحت تیل پلانے کی ضرورت ہے۔ ہم مودی کو ووٹ دینگے یا نہیں دینگے یہ بعد کی بات ہے ،پہلے اس کی لاٹھی سے ان طبقوں کو اچھے سے پٹواتولیں جنہوں نے پیسے پھینک کر دنگے، فساد کروانا اور ہمیشہ تماشہ دیکھنے کا کام کیا ہے۔ اس بات سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا ہے کہ یہ وہی طبقہ ہے جس نے پچھڑے ودلت طبقات کو پیسہ دے کر اور نشہ کھلاکر مسلمانو ں کے خلاف اکسانے اور لوٹ مار کرنے کا کام کروایاہے۔ غریبوں کے آڑ میں مسٹر مودی اگر پچھڑوں و دلتوں کو نوٹ بندی مہم سے احساس دلاتے ہیں کہ ملک میں بھوک مری و مہنگائی کی وجہ یہی وہ امیر لوگ ہیں جنہوں نے ملک کا اربوں کھربوں دھن لوٹ کر اپنے گھروں میں چھپا رکھا ہے۔ تو پھر ایسی صورتحال میں مسلمانوں کو بھی چاہئے کہ اپنے بھی جلسے جلوس میں اسی طرح کاپیغام دیں کہ غریبوں کی تھالی سے کھانا، بدن سے کپڑا اور کھلی جگہوں میں سونے والوں کا چھت یہی امیر لوگ لوٹ لئے ہیں جنہیں مودی سزا دیں۔ ملک میں دنگا فساد، نکسل واد، آتنک و اد ہونے کی جڑیں اسی امیری،غریبی کے بیچ کی کھائی میں ہے جسے جڑ سے مٹانے کی ضرورت ہے جس میں مسلمان بھی مودی سے کاندھا ملاکر چلنے کو تیار ہیں۔ مسٹر مودی کو تاریخ کی جانکاری ہے کہ دنیا میں جس لیڈر نے نوٹ بندی کی ہے اس کی کرسی چلی گئی لیکن اس کے بعد بھی اگر وہ اس لڑائی کو لڑنا چاہتے ہیں تو ہمیں ایسا نہیں لگنا چاہئے کہ اس کی ہمت کو مسلمانوں کے باضابطہ طورپر سہارے کی ضرورت ہے ۔ مجھے ایسا لگتا ہے جیسے یہ ان کا مشن ہے جسے حاصل کرنے کے لئے وہ کسی حد تک جا سکتے ہیں ۔ ایسی حالت میں جس وقت اسے یہ لگے گا مسلم سماج اس مہم سے اس کے ساتھ ہے تو پھر اتنی مضبوطی سے لاٹھی چلا سکتے ہیں کہ جس سے سنگھ پریوار بُری طرح سے گھائل ہوجائے اور اگلے پچاس برسوں تک وہ سر نہ اٹھا سکے۔ کیا آپ نے دھیان دیا ہے کہ نئے نوٹ میں لال قلعے کی تصویرکے ساتھ گاندھی جی اور ان کے چشمے کی تصویر کا ہونا سنگھ پریوار کی مرضی کے خلاف ہے ۔ لہٰذا مسلمان کا یہ عمل’’ حکمتی وار‘‘ ثابت ہوگا۔ جس سے سنگھ پریوار کی بڑھتی ہوئی ہمت ٹوٹے گی۔ کیا مسلمانوں کو ایسی حکمت سے کام نہیں لینا چاہئے جو حُب علی میں نا سہی بغض معاویہ میں ہی ہو؟

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔