تلاوتِ قرآن اور اسوہ صحابہؓ

انسانی تاریخ کے عجائب میں  سے ہے کہ ایک ایسی قوم، جو تہذیب وتمدن سے یکسر ناآشنا، جنگ وجدال اور لوٹ مارکی خوگر اور حلال و حرام کی تمیز سے بے گانہ تھی،وہ ایک دم تہذیب و شرافت اور امن و امان کی علم بردار کیسے بن گئی؟ جو جہالت کی گھٹاٹوپ تاریکیوں  میں  ٹامک ٹوئیاں ماررہی تھی، وہ اچانک علم کی شمعیں  کیوں  کر جلانے لگی؟ جس کے افراد ایک دوسرے کے اس قدر خون کے پیاسے رہتے تھے کہ صدیوں  کی معرکہ آرائیوں  سے ان کی دشمنی کی شدت میں  کمی نہ آتی تھی، وہ چشم زدن میں  کیسے باہم شیرو شکر اور بھائی بھائی بن گئے۔ حتیٰ کہ ایک دوسرے پر اپنی جان، مال، جائیداد، گھر بار اور دوسری قیمتی اور محبوب چیزیں  نچھاور کرنے لگے؟ جن کی نجی زندگیاں بے حیائی، آوارگی، عریانیت اور فحاشی میں  غرق رہتی تھیں ، وہ کیسے عفت و پاکیزگی کا اعلیٰ نمونہ پیش کرنے لگے؟ تجزیہ کرنے والے جو بھی تجزیہ کریں  اور اسباب و علل تلاش کرنے والے جو بھی توجیہات کریں ، لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان کے اندر یہ بنیادی تبدیلی قرآن کریم کی بہ دولت واقع ہوئی تھی۔ قرآن ہی تھا جس نے یکسر ان کی کایاپلٹ دی تھی، ان کو ذلّت و نکبت کی کھائی سے عزت و عظمت کے بامِ عروج پر پہنچادیاتھا۔ انھیں  جہالت کی تاریکیوں  سے علم کی روشنی میں  لے آیاتھا اور وحشت وبربریت کے خوگر ان کے مزاج کو بدل کر انھیں  تہذیب و شایستگی کاامام بنادیاتھا۔ لیکن جوں  جوں  قرآن کریم سے ان کا تعلق کم زور ہوتاگیا، وہ مصارف زندگی سے دور ہٹتے گئے، دوسری قومیں  ان پر شیر ہوگئیں  اور ذلّت وبے توقیری ان کا مقدر بن گئی۔شاعر مشرق علامہ اقبال نے مرض کی صحیح تشخیص کی ہے    ؎

وہ زمانے میں  معزز تھے مسلماں  ہوکر

اور تم خوار ہوئے تارکِ قرآں  ہوکر

صحابۂ کرام کی زندگیا ں قرآن کریم سے اثرپزیری اور اس کے ساتھ میدانِ عمل میں  اترنے کااولین نمونہ ہیں ۔ اس بات کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ ان کا قرآن سے کیسا تعلق تھا؟ قرآنی آیات نازل ہوتی تھیں  اور وہ انھیں  سنتے تھے تو ان پر کیااثر ہوتاتھا؟ ان کی تلاوت کرنے اور انھیں  یاد کرنے کا، ان کاکیا معمول تھا؟ اس کے احکام و تعلیمات سے انھوں نے کس طرح اپنی زندگیوں  کو آراستہ کیاتھا؟ اس کاپیغام دوسروں  تک پہنچانے کے لیے انھوں نے کتنی جدوجہد کی تھی ؟ اور اس کا حکم نافذ کرنے اور اس کااقتدار قائم کرنے کے لیے انھوں نے کیا قربانیاں  دی تھیں ؟

 اس مضمون میں  صحابۂ کرام کے تلاوت قرآن کے معمولات پر روشنی ڈالی جارہی ہے۔ قرآن کریم سے ان کے تعلق کے دیگر پہلوئوں  پر ان شاء اللہ آیندہ اظہار خیال کیاجائے گا۔

قرآن کریم سے تعلق کا اوّلین اظہار اس کی تلاوت سے ہوتاہے۔ صحابہ کرام اس کے غایت درجہ مشتاق رہتے تھے۔ وہ اپنے شب وروزکے زیادہ تر اوقات اس کی تلاوت میں  گزارتے تھے۔ اس کے لیے انھوں نے قرآن مجید کو مختلف ٹکڑوں  (احزاب) میں  تقسیم کررکھاتھا۔

اوس نامی ایک تابعی بیان کرتے ہیں  کہ: میں  نے متعدد صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے دریافت کیاکہ آپ لوگوں  نے قرآن کو مختلف ٹکڑوں  میں  تقسیم کررکھاہے۔ اس اعتبار سے ایک ٹکڑے میں  کتنی سورتیں  ہوتی ہیں ؟ انہوں نے جواب دیا: تین، پانچ، سات، نو، گیارہ اور اخیر کی تمام چھوٹی سورتیں  ایک ٹکڑے میں  شامل تھیں ۔(سنن ابی دائود، ابواب شہر رمضان، باب تخریب القرآن، 1393)

صحابہ ٔ کرام کے غایت شوق کایہ عالم تھاکہ وہ کم سے کم وقت میں  پورا قرآن مجیدپڑھ لینا چاہتے تھے۔ اس معاملے میں  غلو سے روکنے اور اعتدال کی روش پر قائم رکھنے کے لیے آں  حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بعض پابندیاں  عائد کردی تھیں ۔ حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاصؓ نے ایک موقعے پر دریافت کیا: اے اللہ کے رسول! میں  قرآن کو کتنے دنوں  میں  ختم کروں ؟ فرمایا: ایک مہینے میں ۔ انھوں نے عرض کیا: مجھ میں  اس سے زیادہ کی طاقت ہے۔ فرمایا: بیس دن میں  ختم کرلو۔ انھوں نے اسی طرح اور بھی کم دنوں  میں  ختم کرلینے پر اپنی قدرت ظاہر کی تو آں  حضرت صلی اللہ علیہ وسم نے ان کی رعایت سے پندرہ دن، پھر دس دن، پھر سات دن میں  ختم کرنے کی اجازت دی، ساتھ ہی یہ بھی فرمایا: اِقْرأ فِی سَبْعٍ وَّلَا تَزِیْدَنَّ عَلٰی ذٰلِکَ

’سات دن میں  پورا قرآن پڑھ لو، اس سے کم میں  ہرگز ختم نہ کرو۔‘ (سنن ابی دائود، کتاب شہر رمضان، باب فی کم یقرأ القرآن،1388، صحیح بخاری:5052،5054، صحیح مسلم:1159)

بعض روایتوں  میں  ہے کہ ان کے اصرار پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں  تین دنوں  میں  قرآن ختم کرنے کی اجازت دے دی۔ لیکن جب انھوں نے عرض کیاکہ وہ اس سے بھی کم وقت میں  پورا قرآن پڑھ سکتے ہیں  تو آپؐ نے ایسا کرنے سے منع کیا اور فرمایا: لَایَفْقَہُ مَنْ قَرَاُہ‘ فِی اَقَلٍّ مِّنْ ثَلَاثٍ

’جو شخص تین دنوں  سے کم وقت میں  قرآن ختم کرے گا، وہ ٹھیک طریقے سے اسے سمجھ نہیں  سکتا۔‘ (بخاری، مسلم، ابودائود، حوالہ بالا- امام نوویؒ نے متعدد صحابہ، تابعین اور بعد کے دور کے بزرگوں  کے نام تحریر کیے ہیں ، جو ایک دن میں  قرآن ختم کرلیتے تھے، بل کہ ان میں  سے بعض ایک دن میں  دو قرآن ختم کرلیتے تھے (ملاحظہ کیجیے: نووی، ابوزکریا یحییٰ بن شرف، التبیان فی آداب حملۃ القرآن، تحقیق و ترویج: عبدالقادر الأرنؤوط، دمشق، سنۃ طبع درج نہیں ، ص:46-49) لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ناپسندیدگی کی وجہ سے ایسا کرنا غیرمسنون معلوم ہوتاہے)

تلاوت قرآن کاایک ادب یہ ہے کہ اس کو بہت جلدی جلدی نہ پڑھاجائے کہ محسوس ہوکہ سرکابوجھ اتارا جارہاہے۔ بل کہ ٹھہر ٹھہر کر پڑھاجائے۔ ام المومنین حضرت ام سلمہؓ بیان کرتی ہیں  کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قرأت قرآن میں  ایک ایک حرف صاف سنائی دیتاتھا۔

(سنن ابی دائود، کتاب الصلاۃ، باب استحباب الترتیل فی القرأۃ، کتاب قیام اللیل، باب ذکر صلاۃ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم باللیل، 1229، مسند احمد، 4/294،300، علامہ البانی نے اسے ضعیف قراردیا ہے)

یہی معاملہ صحابہ کرام کابھی تھا۔ ایک موقعے پر حضرت عبداللہ بن عباسؓ نے فرمایا: ’میں  ترتیل کے ساتھ صرف ایک سورہ پڑھوں ، یہ میرے نزدیک اس سے زیادہ بہتر ہے کہ (بغیر ترتیل کے) پورا قرآن پڑھ لوں ۔‘ (نووی، التبیان، ص:70)

ایک مرتبہ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کے سامنے ایک شخص نے کہا: میں  مفصل سورتیں  (سورہ الحجرات جو 26ویں  پارے میں  ہے،سے سورۂ ناس تک) ایک رکعت میں  پڑھ لیتا ہوں ۔ انھوں نے جواب دیا: ہَذّاًکَھَذِّ الشعر (اس کا مطلب یہ ہے کہ تم قرآن کو اشعار کی طرح جلدی جلدی پڑھ لیتے ہو)۔(صحیح بخاری، کتاب فضائل القرآن، باب الترتیل فی القرأۃ، 5043، صحیح مسلم:822)

اس موقعے پر انھوں نے مزید فرمایا: ’کچھ لوگ قرآن اس طرح پڑھتے ہیں  کہ وہ ان کے حلق سے نیچے نہیں  اترتا۔ حالاں  کہ قرآن مجیدجب دل میں  اترجائے اور اس میں  جاگزیں  ہوجائے تب نفع دیتاہے۔‘ (صحیح مسلم، کتاب کتاب صلاۃ المسافرین، باب ترتیل القرأۃواجتناب الھذ،:822)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن کریم کو خوش الحانی کے ساتھ پڑھنے کا حکم دیاہے۔ آپؐ کا ارشاد ہے: زَیّنُوا القُراٰنَ بِاَصْوَاتِکُمْ

’قرآن کو اپنی آوازوں  سے زینت دو‘(سنن ابی دائود، کتاب الصلاۃ، باب استحباب ترتیل القرآن فی القرأۃ، 1486، سنن نسائی، 1015، سنن ابن ماجۃ، 1342)

دوسری حدیث میں  ہے کہ آپؐ نے فرمایا: مَنْ لَّمْ یَتَغَنَّ بِالقُرآنِ فَلَیْسَ مِنّاَ

’جس شخص نے قرآن کو خوش الحانی سے نہیں  پڑھا، وہ ہم میں سے نہیں  ہیں ‘ (سنن ابی دائود:1469،1470، سن ابن ماجہ، کتاب اقامۃ الصلاۃ، باب فی حسن الصوت بالقرآن، 1337، مسند احمد،1/172،175،179)

اسی بناپر صحابۂ کرام بہت خوش الحانی کے ساتھ قرآن کی تلاوت کیاکرتے تھے۔ جس سے سننے والوں  پر محویت طاری ہوجاتی تھی۔ حضرت ابوبکرؓ کے حالات میں  بیان کیاگیاہے کہ انھوں نے اپنے گھر کے باہر نماز کے لیے ایک جگہ خاص کررکھی تھی، جہاں  بیٹھ کر قرآن مجیدکی تلاوت کیا کرتے تھے۔ ان کی آواز سن کر مشرکین مکہ کی عورتیں  اور بچّے اکٹھے ہوجاتے تھے اور بڑے غورو انہماک سے قرآن مجیدسنتے تھے۔ یہ دیکھ کر مشرکین اس اندیشے میں  مبتلا ہوگئے کہ کہیں  قرآن ان پر اپنا اثر نہ دکھانے لگے اور وہ ایمان نہ لے آئیں ۔ چنانچہ انھوں نے مکہ کے بااثر سردار ابن الدغنّہ (جس نے حضرت ابوبکرؓ کو ’جوار‘ دے رکھی تھی) سے شکایت کی۔ اس نے انھیں  اس سے روکناچاہا تو انھوں نے اس کی جوار واپس کردی۔ (ابن ہشام، المیسرۃ النبویۃ، دارالمعرفۃ بیروت،2009ء، 1/366-356)

خوش الحانی سے قرآن مجید کی تلاوت کرنے میں  متعدد صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کو شہرت حاصل تھی۔ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں  تشریف لے گئے۔ دیکھاکہ ایک شخص بہت خوش الحانی سے قرآن مجیدکی تلاوت کررہاہے۔ دریافت فرمایاَ یہ کون ہے؟ لوگوں  نے ان کا نام عبداللہ بن قیسؓ بتایا۔ آپؐ نے فرمایا: اُعْطِیَ مِزْمَاراً مِّنْ مَزَامِیْرِ آلِ داؤد

’انھیں  نغمہ دائودی عطا کیاگیاہے‘(سنن ابن ماجہ، کتاب الصلاۃ، باب فی حسن الصوت بالقرآن، 1341)

مشہور صحابیٔ رسول حضرت ابوموسیٰ اشعریؓ ہی کااصل نام عبداللہ بن قیسؓ تھا۔ ایک دوسری روایت میں  ہے کہ ان سے ایک مرتبہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لَورأیْتَنِی وَاَنَا اَسْتَمِعُ لِقِرأتِکَ البَارِحَۃَ، لَقَدْاُوتِیْتَ مِزْمَاراً مِّنْ مَزَامِیْرِ آل داؤدَ

’میں  نے گزشتہ رات تمھاری قرأت سنی۔ بہت متاثر ہوا۔ تمھیں  نغمہ دائودی عطاکیاگیاہے‘ (صحیح بخاری، کتاب فضائل القرآن، باب حسن الصوت بالقرأۃ للقرآن، 5048، صحیح مسلم، کتاب صلاۃ المسافرین، باب استحباب تحسین الصوت بالقرآن، 793)

ابوعثمان نہدی بیان کرتے ہیں کہ:’ میں  نے چنگ وبربط کی آواز کو بھی ابوموسیٰ اشعریؓ کی خوش الحانی قرأت سے بہتر نہیں  پایا۔ (ابن حجرعسقلانی، الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ، دارالمعرفۃ بیروت،2004ء 2/1112، تذکرہ حضرت عبداللہ بن قیس ابوموسیٰ اشعریؓ)

یہ صرف حضرت ابوموسیٰ اشعری ؓ ہی کی خصوصیت نہ تھی، بل کہ ان کے پورے قبیلے کا امتیازی وصف تھا۔ ایک غزوے کے لیے سفر کے دوران صحابۂ کرام نے ایک جگہ پڑائو ڈالا۔ اگلے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’اگرچہ میں  نے دن میں  نہیں  دیکھاتھا کہ اشعریوں  نے کس جگہ اپنے خیمے لگائے ہیں ، لیکن رات میں  ان کی قرآن خوانی سن کر مجھے ان کی جائے قیام کا پتا چل گیاتھا‘۔(صحیح بخاری، 4232، صحیح مسلم، کتاب فضائل الصحابۃ، باب من فضائل الاشعر یین،2499)

حضرت ابوموسیٰ اشعریؓ کی خوش الحانی کی وجہ سے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم ان سے قرآن سننے کی فرمایش کیاکرتے تھے۔ روایات میں  آتاہے کہ وہ حضرت عمر بن الخطابؓ کی خدمت میں حاضر ہوتے تھے تو حضرت عمرؓ ان سے فرماتے تھے: ہمیں  اللہ کا شوق دلائو، وہ فوراً قرأت شروع کردیتے۔ (ابن حجر عسقلانی، الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ، حوالہ بالا)

ان کی قرأت کو امہات المومنین بھی نہایت شوق سے سنتی تھیں ۔ (ابن سعد، الطبقات الکبریٰ، دارالفکر بیروت، 1994ء، تذکرہ ابی موسیٰ الاشعری، 2/11)

تبصرے بند ہیں۔