جدا پارے سے ہو سکتی نہیں تقدیر سیمابی!
عظمت علی
لوگ تحصیل علم کے لئے شب وروز ایک کئے دے رہے ہیں۔ ہر ترقی کے باب میں ایک نیا در کھل رہاہے۔ مختلف اقسام کے علو م ومعارف کے قدموں میں تیزی آتی جارہی ہے۔ علم تو بس ایک ہی تھا۔لیکن لوگوں نے غیر منصفانہ طور پر علوم کو دوحصوں "دینی اوردنیوی” میں تبدیل کردیا۔ورنہ اسلام اور عقل نے تو ہر مفید علم کو اپنا نے کو عبادت و بندگی جاناہے۔ آج دنیا وی علوم کو دن دوگنی رات چوگنی ترقی کی مختلف صورتوں میں مشاہدہ کیا جاسکتاہے اور طالب علموں کی نمایاں کاوشوں کے نتائج جدید آلات و مشینری کی شکل میں بڑے ہی زور وشور سے ملاحظہ کئے جاسکتے ہیں۔ منطق، فلسفہ اور فلکیات وغیرہ صدیوں کاسفر طے کرکے یہاں تک آپہونچے ہیں۔ مگر ان کی ترقی کی رفتا ر میں کوئی کمی نہیں آئی بلکہ ہر نظریہ ترقی کا پیش خیمہ بنتا جارہاہے۔
صدیوں قبل اسلام نے ان تما م علو م کی بنیادوں کو مستحکم کیا اور ان سے جڑے رہنے کی مزید تاکید اور بعض کوعبادت سے بھی افضل قراردیا ہے۔ اگر کسی شخص کو تاریخ اسلام سے تھوڑی بہت بھی آشنائی ہے تو اس کے سامنے ہاتھ کی لکیر کی طرح یہ بات عیاں ہوجائے گی کہ اسلام نے علم کو کس منزل پر قرار دیاہے۔ صرف نظریاتی حد تک نہیں بلکہ خودا س کے رہبروں نے اس کاعملی ثبوت پیش کیا ہے۔ انہوں نے اس راہ میں مختلف علوم کی بنیاد اور بعض دیگر علوم کی اس حسن تدبیر سے تصحیح فرمائی ہے کہ لوگ آج تک بہر استفادہ ان کے در سے متمسک ہیں اور ہوتے رہیں گے۔ جب ان کے فیض عام سے لوگوں کوآشنائی ہوئی تو وہ قوم و مذہب اور رنگ و نسل کی اونچ نیچ سے ماوراء آپ سے کسب علم کے لئے جبہ سائی کو اپنے لئے فخر سمجھتے۔ آ پ کی اس علمی خیرات میں ہر خاص و عام برابر کا شریک قرار پایا۔مگر افسوس کہ بعد کے زمانوں میں مسلمانوں میں انجماد فکری آگئی۔ جب دیگر قوم نے اسے بے یار ومددگا رپایا تواس پر قبضہ جمالیا اور جھوٹادعویٰ کر بیٹھے کہ فلاں اسلام کی نہیں بلکہ ہماری ایجادہے۔ جبکہ دامنی تاریخ ہمارے مثبت دلائل سے پر ہے کہ مسلمانوں نے مختلف علوم ایجاد کئے اور عصر حاضر میں کئی زندہ علوم کا سہراانہیں کے سر بندھتاہے۔
گزشتہ صدیوں میں ا ن کااس وقت علمی دبدبہ تھاجب سارے مغربی ممالک خواب غفلت میں اوندھے منھ پڑے تھے۔ جب مغربی دنیا میں علمی گھٹاتوپ اندھیراچھایا ہواتھا،اس وقت دین اسلام غیرمعمولی علمی ترقی کے زینے طے کر چکاتھا۔نور علم بڑے ہی آب و تاب کےساتھ جلوہ فگن تھا۔تاریکی میں زندگی بسر کرنے والے مغربی لوگوں کو جب اس روشنی کی کر ن نظر آئی تو خواب غفلت سے حرکت میں آئے اور جب اسلامی ترقی کودیکھا تو کچھ دیر تلک آنکھیں ملتے رہے کہ کہیں ہم خواب تو نہیں دیکھ رہے ہیں !
بہر کیف، بیدارہوئے، علوم اسلامی کی طرف بڑھے، تاریکی سے نکل کر نور کی اس عظیم الشان دنیا کو نظارہ کیا۔ ۔۔مسلمانوں نے اپنے مذہبی زبان عربی میں کتابیں تحریر فرمائی تھیں۔ اس لئے انہوں نے پہلے اس کاترجمہ کیا اور پھر مطالعہ کرنا شروع کیا۔ جب ذراسافکر رساں ہوئی تو انہیں ہوش آیاکہ سارے علوم تو اہل اسلام کے دست قدر ت میں ہیں۔ یہی سے شیطانی فکر نے کروٹ لی اور پھر ہر ممکنہ صورت میں انہوں نے ہماری میراث پر اپنا قبضہ جماناسروع کیا۔ ۔۔
نوبت یہاں تک آپہونچی کہ آج لوگوں کےدلوں پر ان کا قبضہ ہے۔ پھر بھی مسلمان عصر حاضر میں گم سم نہیں ہیں بلکہ ترقیاتی امور میں آج بھی شامل ہیں۔ ہمارا ماضی تابناک، ان کاحال روشن اور مستقبل ہمارے استقبال میں نوید صبح لئے منتظرہے۔
گوکہ اسلام نے تحصیل علم کو خوب سراہاہے۔ گرچہ وہ دینی ہی کیوں نہ ہو۔ بس عوام الناس کی فلاح و بہبود کی شرط ہے۔ اسی وجہ سے ہادیان برحق نے مفید علم کی نشر و اشاعت میں لمحہ بھربھی دریغ نہیں کیا اور بنی نوع انسانی کوبہرہ مند کرنے میں شب وروز کوشاں رہے۔انہوں نے مختلف علم و ہدایت کے منارے اور جدید علمی راہیں محض اس لئے قائم کیں تاکہ آئندہ نسل کے لئے مشعل راہ بن سکیں۔ اہل اسلام کی ترقی کا سورج کا طلوع ہونا امید فردا کی نوید دے رہاہے اور نسیم صبح بار بار یہ پیغام پہونجاتی ہےکہ
جہاں میں اہل ایماں صورت خورشید جیتے ہیں !
تبصرے بند ہیں۔