جنت میں لے جانے والا عمل

حضرت ابو برزہ اسلمی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم سے سوال کیا:” اے اللہ کے رسول الله ! مجھے کوئی ایسا عمل بتا دیجیے جو مجھے جنت میں پہنچا دے(یا کہا کہ جس سے مجھے آخرت میں فائدہ پہنچے)_ آپ ص نے جواب دیا :

” اِعزِل الأذَى عَنْ طَرِيْقِ المُسْلِمِيْنَ ". ( مسلم :2618، احمد:19791)

(مسلمانوں کے راستے سے تکلیف دہ چیز کو ہٹا دو _)

اس حدیث سے واضح ہوتا ہے کہ صحابہ کرام کے اندر دین کی باتیں جاننے کا کتنا شوق تھا ؟ وہ کس طرح اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم سے ایسی باتیں جاننے کے مشتاق رہتے تھے جن پر عمل کرکے وہ جنت الفردوس کے مستحق بن سکیں _ اسی طرح اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم اپنے جوابات سے صحابہ کی کیسی تربیت کرتے تھے؟ اور ان کے ذہنوں کو کس سانچے میں ڈھالنے کی تدبیر کرتے تھے؟

اسلام سماج میں امن و امان کو پروان چڑھاتا ہے _ وہ چاہتا ہے کہ تمام لوگ اطمینان و سکون سے رہیں _ ان کی ذات سے کسی کو کوئی تکلیف نہ پہنچے ، بلکہ وہ ایک دوسرے کو آرام پہنچانے کی کوشش کریں ، یہی نہیں بلکہ اگر کسی چیز سے ان کو اذیت پہنچ رہی ہو تو اس کو دور کرنے کی کوشش کریں _
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے اس بات کو مختلف طریقوں سے لوگوں کے ذہن نشیں کرنے کی کوشش کی ہے _ ایک مرتبہ آپ ص نے فرمایا :”انسان کے بدن کے جوڑ جوڑ پر صدقہ لازم ہے _” پھر آپ نے صدقہ کی مختلف صورتیں بتائیں ، جن میں ایک "راستے سے تکلیف دہ چیز کا ہٹانا” بھی تھا_(بخاری :2989، مسلم : 1009)

ایک مرتبہ آپ ص نے فرمایا : "میری امت کے اچھے اعمال مجھے دکھائے گئے _ ان میں سے ایک اچھا عمل ” تکلیف دہ چیز کو راستے سے ہٹانا ” تھا_(احمد :21550)

ایک حدیث میں ہے کہ آپ ص نے فرمایا :” ایک درخت ٹوٹ کر راستے میں گر پڑا ، جس سے لوگوں کو آنے جانے میں دشواری ہونے لگی _ ایک شخص نے اسے راستے سے ہٹا دیا _ اس کے نتیجے میں اسے جنت میں داخل کردیا گیا_”(ابن ماجہ :3682)

ایک موقع پر آپ ص نے فرمایا : "راستے کے کنارے ایک کانٹے دار درخت تھا، جس کی ایک شاخ راستے پر آرہی تھی ، ایک شخص نے اسے کاٹ کر الگ کر دیا، (یا فرمایا کہ وہ شاخ راستے پر پڑی ہوئی تھی، اس نے اسے ہٹا دیا_) اللہ تعالی کو اس کا یہ عمل اتنا پسند آیا کہ اس نے اسے جنت میں داخل کردیا _” ساتھ ہی آپ ص نے یہ بھی فرمایا : "حالاں کہ وہ شخص ایسا تھا کہ اس نے کبھی کوئی نیک کام نہ کیا تھا _” (ابوداؤد : 5245)

ایک طرف اسلام کی یہ تعلیمات ہیں ، جن سے اس کی حسّاسیت ظاہر ہوتی ہے، دوسری طرف بہت سے مسلمانوں کا عمل ہے _ وہ ایک دوسرے کو اذیت سے بچانا تو دور کی بات ہے، نقصان پہنچانے کی ترکیبیں سوچتے رہتے ہیں ، ان کے مال اور عزّت و آبرو کے درپے رہتے ہیں ، ان کے خون کے پیاسے نظر آتے ہیں _ کیا ان کے یہ اعمال اسلام کی نمائندگی کرتے ہیں ؟؟

اگر ہم واقعی جنت کے خواہاں ہیں تو ہمیں ضرور ایسے کام انجام دینے چاہییں ، جن سے انسانوں کو فائدہ پہنچے اور انھیں کسی تکلیف سے نجات مل جائے _ کیا خبر ، اللہ تعالٰی کو ہمارا ایسا کوئی عمل پسند آجائے اور وہ ہمارا نام بھی جنتیوں میں شامل کرلے _

تبصرے بند ہیں۔