صوفیانہ زندگی کا ایک ورق

قرآن و سنت سے ہم آہنگی: تصوف اسلام کے جمالی پہلو کا ترجمان ہے اور اس کے ذریعے بعض اوقات اسلام کی شانِ جمال کا بھرپور ظہور ہوا ہے، اس کا تابناک اور روشن حصہ وہ ہے جو قرآن و سنت سے ماخوذ یا ہم آہنگ ہے، اللہ تعالیٰ نے قرآن میں صادقین، قانتین، مخلصین، محسنین، عابدین، خاشعین، متوکلین، صابرین، اولیاء، ابرار وغیرہ ناموں سے اپنے نیک اور صالح بندوں کا ذکر کیا ہے۔ صدق، اخلاص، احسان، عبادت، خشوع و خضوع، فقر، توکل، صبر، شکر چونکہ صوفیا کی صفات ہیں ، اس لئے یہ کہنا درست ہے کہ صوفیہ معنوی طور پر ان میں شامل ہیں ۔ اسی طرح قرآن میں توبہ، انابت، اخلاص، صبر، شکر، رضاء، توکل، قرب، خوف ، رجاء، مشاہدہ، یقین وغیرہ کی تعریف آئی ہے، یہی چیزیں تصوف میں احوال یا مقامات کہلاتی ہیں ، علاوہ ازیں قرآن میں دنیوی زندگی کو لہو و لعب اور دھوکے کی پونجی کہا گیا ہے، یہ چیز تصوف کی اساس ہے اور قرآن حکیم میں اخلاق حسنہ پر خاص زور دیا گیا ہے اور یہ سب کو معلوم ہے کہ تصوف حسن اخلاق کا دوسرا نام ہے۔

 احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں بھی صدیقین، صالحین اور دوسرے ناموں سے مردانِ خدا کی تعریف کی گئی ہے، اس کے علاوہ ارشادات نبویؐ میں صدق، اخلاص، فقر، توکل اور صبر جیسے قلبی اور روحانی اعمال کی تاکید آئی ہے، نیز سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں اخلاق عالیہ کو ممتاز مقام حاصل رہا ہے، خود رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ جس طرح تمام مسلمانوں کیلئے اسوۂ حسنہ ہے اسی طرح صوفیہ کیلئے بھی سرچشمۂ ہدایت ہے اور امر واقعہ یہ ہے کہ ائمہ تصوف نے اپنے اعمال یا احوال و مقامات کیلئے سنت رسولؐ سے دلیل فراہم کرنے کی کامیاب کوشش کی ہے۔ تصوف کی متعدد کتابوں میں صحیحین کی حدیث جبرئیل کو سلوک کی اساس مانا گیا ہے۔ اس حدیث میں اسلام، ایمان اور احسان کو دل نشیں اور موثر انداز میں سمجھایا گیا ہے۔ حدیث جبرئیل میں احسان کے متعلق فرمایا گیا ہے کہ احسان یہ ہے کہ تم اللہ تعالیٰ کی عبادت اس طرح کرو گویا تم اسے دیکھ رہے ہو، اگر تم اسے نہیں دیکھتے ہو تو کم از کم یہ سمجھ لو کہ وہ تمہیں دیکھ رہا ہے۔

عبادات میں سے ایمان، نماز، روزہ، زکوٰۃ، حج اور دوسری عبادات کے متعلق صوفیہ کا نقطۂ نگاہ وہی ہے جو امت کے سواد اعظم کا ہے لیکن صوفیہ کو دوسرے لوگوں پر اس لحاظ سے ایک گونہ برتری حاصل ہے کہ انھوں نے ارکانِ اسلام اور احکام شریعت کے متعلق بعض ایسے لطیف اشارات اور دقیق نکات بیان کئے ہیں جو نگاہ ظاہر بین کی حدود سے باہر ہیں ۔

 اخلاق و آداب اور احوال و مقامات کے باب میں صوفیہ نے جو نکتہ آفرینی کی ہے وہ اسلامی نظام اخلاق کا انمول سرمایہ ہے۔ امراض قلب کی نشاندہی اور ان کے علاج کیلئے صوفیہ نے جو نسخے تجویز کئے ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ ارباب باطن کتنی باریک بینی سے انسان کی باطنی بیماریوں کا سراغ لگاتے تھے اور وہ انسانی نفسیات کے کتنے بڑے رازدان تھے۔

 عبادات اور ذکر و اذکار پر مداومت کا عمل بھی قرآن و سنت سے ماخوذ ہے، خانقاہی زندگی کیلئے ارباب سلوک کی خاطر جو دس آداب مقرر کئے گئے ہیں ان میں سے ہر ادب قرآن کی ایک ایک آیت سے ماخوذ ہے اور ہر ادب کیلئے قرآن کی متعلقہ آیت نقل بھی کی گئی ہے۔

 خورد و نوش، رہن سہن اور سفر و حضر کے سلسلے میں صوفیہ کے یہاں خاص آداب کا بہت بڑا حصہ براہ راست قرآن و سنت سے لیا گیا ہے۔

  قرآن اور صوفیہ: دوسرے علوم اسلامیہ کی طرح تصوف میں بھی قرآن کو مرجع اول کا مقام حاصل ہے، تصوف کی کتابوں میں ہر بحث کے شروع میں قرآنی آیات سے استدلال کیا گیا ہے۔ مطالعہ تصوف کے دوران قرآن سے صوفیہ کا کثرت استدلال قاری کے دل کو موہ لیتا ہے۔ صوفیہ کا طرز استدلال اس فہم پر مبنی ہوتا ہے جو تلاوتِ قرآن کے دوران اللہ تعالیٰ صوفی کو عطا کرتا ہے، چنانچہ فہم قرآن کے باب میں صوفیہ نے جو نکتہ آفرینی کی ہے ان سے تفسیر کی ضخیم کتابیں خالی ہیں ۔ صوفیہ کے اخذ کردہ لطائف کا روشن پہلو یہ ہے کہ ان سے دل و دماغ منور ہوتے ہیں ، فکر و نظر کو جلا ملتی ہے اور ایمان و یقین تازہ ہوجاتے ہیں ۔

  صوفیہ کے یہاں قرآن کے ہر حرف میں یہاں ایک جہاں معنی پوشیدہ ہے جس کا احاطہ کرنا انسان کے بس کی بات نہیں ۔ شیخ سہل بن عبداللہ تستریؒ کہتے ہیں کہ اگر ہر حرف کیلئے بندے کو ایک ہزار فہم عطا کئے جائیں تب بھی اس کی رسائی کتاب الٰہی کی ایک آیت کے اس فہم کی حد تک نہیں ہوسکتی جو اللہ تعالیٰ نے اس میں رکھا ہے کیونکہ قرآن اس کا کلام ہے اور اس کا کلام اس کی صفت ہے، جس طرح اللہ تعالیٰ لاانتہا ہے اسی طرح اس کے کلام کے مفاہیم کی بھی کوئی انتہا نہیں ہے، جب اللہ تعالیٰ اپنے دوستوں کے دلوں کو فہم قرآن کیلئے کھول دیتا ہے تو وہ حسب توفیق مفہوم اخذ کرلیتے ہیں ، نیز اللہ تعالیٰ غیر مخلوق ہے، لوگوں کے فہم قرآن کی حد کو نہیں پہنچ سکتے کیونکہ وہ محدث مخلوق ہیں ۔

 اہل تصوف کے نزدیک حضور قلب کے ساتھ قرآن سننا شرط ہے۔ مشہور صوفی شیخ ابو سعید الخزار کہتے ہیں کہ قرآن سننے کے تین درجے ہیں ۔ پہلا درجہ یہ ہے کہ سننے والا یہ خیال کرے کہ وہ اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سن رہا ہے۔ دوسرا درجہ یہ ہے کہ سننے والا اسے حضرت جبرئیل علیہ السلام سے سن رہا ہے اور وہ (حضرت جبرئیلؑ) نبی کریمؐ کو سنا رہے ہیں ۔ قرآن کی سماعت کا تیسرا درجہ یہ ہے کہ سننے والا گویا اسے حق تعالیٰ سے سن رہا ہے۔شیخ موصوف نے قرآن کی سماعت کے درجات خود قرآنی آیات سے اخذ کئے ہیں ۔

 صوفیہ کا کہنا ہے کہ قرآن کی تلاوت کے دوران تدبر اور تفکر قرآن فہمی کیلئے بنیادی شرط ہے اور تدبر صرف حضور قلب کے ساتھ ممکن ہے، پھر قلب کیلئے قلب سلیم ہونا بھی لازمی ہے۔ اہل تصوف کے یہاں قلب سلیم سے مراد وہ قلب ہے جس میں اللہ تعالیٰ کے سوا اور کوئی چیز نہ ہو۔

 شیخ علی ہجویری کے بیان کے مطابق انسانوں اور جنوں میں سے تمام مومن قرآن سننے کے مامور اور کافر مکلف ہیں ، ان کے بقول قرآن کے معجزات میں سے ایک معجزہ یہ ہے کہ قرآن سننے اور پڑھنے سے انسان کی طبیعت کبھی نہیں اکتاتی کیونکہ اس میں اس قدر رقت عظیم ہے کہ قریش چھپ چھپ کر راتوں کو اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قرأت سنتے ، جب آپؐ نماز میں ہوتے۔

 تدبر و تفکر کے واقعات کتب تصوف میں بکثرت منقول ہیں ، شیخ ہجویری کا بیان ہے کہ میں نے ایک بزرگ کو دیکھا جو ’’ضرب اللہ مثلا مملوکا لا یقدر علیٰ شئٍی‘‘ کی آیت پڑھتے تھے اور روتے جاتے تھے ، اسی اثناء میں انھوں نے نعرہ لگایا اور بے ہوش ہوگئے۔ میں نے خیال کیا کہ ان کی روح پرواز کر گئی، جب ہوش میں آئے تو انھوں نے میرے سوال کرنے پر کہا کہ گیارہ سال سے اس جگہ پہنچا ہوں ، یہاں سے آگے نہیں بڑھ پاتا ہوں ۔

  قرآن میں صوفیہ کے تدبر و تفکر کا یہ عالم تھا کہ برسہا برس ختم قرآن میں لگ جاتے تھے، شیخ ابوالعباس بن عطاء چار سال میں سورۂ انفال تک پہنچے، حالانکہ اس سے پہلے ایک دن رات میں دوبار قرآن ختم کرتے تھے۔

 صوفیہ نے قرآن میں غور و فکر اور تدبر و تفکر کرکے اس سے ایسے اشارات اخذ کئے ہیں جو بعض اوقات فکر انگیز اور ایمان افروز ہوتے ہیں ۔ علم تفسیر کے ماہرین نے صوفیہ کی تفاسیر کے بارے میں اگر چہ مختلف موقف اختیار کیا ہے لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ ان اشارات کے اندر یاران نکتہ دان کیلئے صلائے عام ہے۔

 قرآن اور مقام رسولؐ: صحیح احادیث میں مسلمانوں کو منع کیا گیا ہے کہ انبیاء علیہم السلام میں سے بعض کو بعض پر فضیلت نہ دی جائے لیکن اللہ تعالیٰ نے قرآن میں ’’رحمۃٌ للعالمین‘‘ کہہ کر خود آپؐ کا مقام و مرتبہ بیان فرمایا ہے، تصوف میں محبت رسول صلی اللہ علیہ وسلم ایک ایسی چیز ہیں جو صوفی کے تخیل کو رفعت اور اس کے تصور کو پاکیزگی عطا کرتی ہے، صوفیہ کے یہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا افضل المخلوقات ہونا قرآن کریم سے ثابت ہے اور قرآن کی متعدد آیات سے دوسرے انبیاء پر آپؐ کی فضیلت پر استدلال کیا گیا ہے، مثلاً اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کا ذکر کرتے وقت پہلے ان کی لغزش کا ذکر کیا اور فرمایا:

    وَعَصٰی اٰدَم رَبَّہٗ فَغَویٰ ’’اور حکم ٹالا آدم نے اپنے رب کا پھر راہ سے بہکا‘‘(سورہ طٰہٰ:121)۔

  اس کے بعد ان کے توبہ کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا: ثُمَّ اجْتَبٰہُ رَبّہٗ فَتابَ عَلَیْہِ وَہَدیٰ ’’پھر نواز دیا اس کو اس کے رب نے پھر متوجہ ہوا اس پر اور راہ پر لایا‘‘(سورہ طٰہٰ: 122)۔

  اسی طرح حضرت داؤد علیہ السلام کے بارے میں ان کی لغزش کا پہلے اور مغفرت کا بعد میں بیان فرمایا اور ان کیلئے ’’فَغَفَرْنَا لَہ‘‘کے الفاظ استعمال کئے، نیز حضرت سلیمان علیہ السلام کے متعلق فرمایا:

  ’’اور ہم نے جانچا سلیمان کو اور ڈال دیا اس کے تخت پر ایک ڈھیر پھر وہ رجوع ہوا اور بولا اے میرے رب؛ مجھے معاف کر‘‘(سورہ ص:34-35)۔

’’عَفَا اللّٰہُ عَنْکَ لِمَ اَذِنَتْ لَہُمْ‘‘ (اللہ بخشے تم کو، کیوں دی تم نے ان کو اجازت)…(سورۃ التوبہ:43)۔

   بعض صوفیہ کا کہنا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے عفو کے ذکر سے آپؐ کو مانوس کیا تا کہ آپؐ متوحش نہ ہوں ، نیز اللہ تعالیٰ نے آپؐ کے بارے میں یہ بھی فرمایا:

 ’’تاکہ معاف کرے تجھ کو اللہ جو آگے ہوچکیں تمہاری لغزشیں اور جو پیچھے رہیں ‘‘(سورہ الفتح:2)۔

  اس آیت میں بھی اللہ تعالیٰ نے ’’ذنب‘‘ سے پہلے مغفرت کا ذکر فرمایا ، جس سے لگتا ہے کہ یہ خصوصیت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیلئے خاص ہے۔

 اہل تصوف نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی افضلیت کی ایک دلیل یہ دی ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے دعا مانگی:

 ’’لاَتَخْزنی یَوْمَ یُبْعَثُوْن‘‘ (اور رسوا نہ کر مجھے جس دن سب جی اٹھیں ‘‘(سورہ الشعراء:87)۔

  لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق ارشاد فرمایا:

  ’’یہ وہ دن ہوگا جب اللہ اپنے نبیؐ کو اور ان کے ساتھی ایمان والوں کو رسوا نہیں کرے گا‘‘ (سورہ طٰہٰ:25-26)۔

  گویا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بغیر سوال و دعا کے وہ چیز عطا فرمائی جس کیلئے حضرت ابراہیمؑ نے دعا مانگی تھی۔ اسی طرح حضرت موسیٰؑ پر نبی کریمؐ کی افضلیت ثابت کرتے ہوئے صوفیہ کہتے ہیں کہ حضرت موسیٰؑ نے دعا کی:

 ’’رَبِّ اشْرَحْ لِیْ صَدْرِیْ وَ یَسِّرْلِیْ اَمْرِیْ‘‘ (کیا ہم نے تمہارا سینہ نہیں کھول دیا؟) … (سورہ نشرح:(6-1۔

  صوفیہ نے اس طرح کے اشارات بکثرت اخذ کئے ہیں جو ان کے عشق رسول کی دلیل ہیں ۔

  اربابِ باطن نے قرآن سے اخلاق و آداب کا ایک پورا سلسلہ لیا ہے، استقامت بندگی، دنیا سے بیزاری، فقر، توکل، اخلاص وغیرہ کے بارے میں ان کا کہنا ہے کہ یہ تمام احوال قرآن سے ماخوذ ہیں ۔ (جاری)

تحریر: ڈاکٹر غلام قادر لون … ترتیب: عبدالعزیز

تبصرے بند ہیں۔