خودکشی کے بڑھتے واقعات: اسباب و سد باب

عبدالرشیدطلحہ نعمانیؔ

زندگی خدا کی جانب سے عطا کردہ ایک قیمتی امانت ہے ،جس کے تحفظ کی کوشش ہر انسان پرلازم وضروری ہے۔ غورکیاجائے تو انسان کو دنیا میں آنے کے لیے نہایت دشوارگزار اور صبر آزما مراحل سے گزرنا پڑتا ہے ،ہربچہ نو ماہ مادر شکم میں بہ تدریج ارتقاء کے بعد، ایک خاص وقت میں ولادت کے کٹھن دور سے ہوکر دنیائے رنگ و بو میں آنکھیں کھولتا ہے ، اس وقت اس نوزائیدہ بچے پر کیا گزرتی ہے اس کا احساس وہ خود ہی کرسکتاہے ؛ مگرزبان سے تکلیف کا اظہار نہیں کرسکتا،اسی طرح اس کی ماں جس آزمائش سے دوچار ہوتی ہے اس کا ذکربھی قرآن مجید نے کیا ہے کہ : اس کی ماں نے اس کو پیٹ میں رکھا اورتکلیف سے جنا (احقاف)پھر پیدائش کے بعد سے لے کر بچہ کے ہوش سنبھالنے تک اس کی مکمل حفاظت کی جاتی ہے ،اگر بچہ کو ہلکی سی بھی گزند پہونچتی ہے تو ماں تڑپ اٹھتی ہے اوراس کی بے چینی اسے سکون سے رہنے نہیں دیتی۔ اس سے معلوم ہوا کہ بظاہر بچہ کی دیکھ بھال اوراس کی حفاظت والدین کرتے ہیں،مگر درحقیقت اس کی ساری نگہداشت کا ایک قدرتی نظام ہے ؛جوازل سے چلاآرہاہے۔ پتہ چلاکہ انسان کی جان کا مالک وہ خدا ئے عزوجل ہے ؛جس نے اس کو پیدا کیا اور وہی اس کی جان ختم کرنے کا اختیار بھی رکھتا ہے۔ اگر کوئی اس کے عطا کردہ وجود میں خلل ڈالتا ہے یا اس کو ہلاک کرنے کی ناپاک کوشش کرتا ہے تو وہ عند اللہ مجرم اور خائن شمارکیاجاتاہے۔

خود کشی کیاہے ؟ 

خود کشی،بزدلی اور کم ہمتی کی دلیل ہے ،یہ کمزور ومایوس لوگوں کے لیے زندگی کے مسائل و مشکلات، آزمائشوں اور ذمہ داریوں سے راہِ فرار اختیار کرنے کا ایک غیر اسلامی ،غیر اخلاقی اور غیر قانونی طریقہ ہے ، بد قسمتی سے اس وقت پوری دنیا کے محروم القسمت لوگوں میں اپنی ذمہ داریوں سے بے اعتنائی اور ایمان سے محرومی یا کمزوری کے باعث خود کشی کا رجحان آئے دن بڑھتا جارہاہے ، مغربی ممالک میں تو اخلاقی اور سماجی نظام کے انتشار کے سبب خود کشی کے واقعات کا تناسب اتنا بڑھ گیا ہے کہ اب یہ آواز اٹھائی جارہی ہے کہ خود کشی انسان کا نجی حق تسلیم کیا جائے۔

چناں چہ عالمی ادارہ صحت (WHO) کے اعدادوشمار کے مطابق دنیا میں ہر سال دس لاکھ انسان خودکشی کرتے ہیں،خودکشی کی یہ شرح ایک لاکھ افراد میں 16 فی صد بنتی ہے ، اس حساب سے دنیا میں ہر 40 سیکنڈز بعد ایک شخص خودکشی کرتا ہے ، دنیا کی کل اموات میں خودکشی کے باعث ہونے والی اموات کی شرح ایک عشاریہ آٹھ فی صد ہے۔ ایک سروے کے اس شرح میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔ صرف بھارت اور چین میں پوری دنیا کی خودکشیوں کی 30 فی صد اموات واقع ہورہی ہیں جوکہ بڑی ہولناک شرح ہے۔

زندگی اور اس کے مسائل کے بارے میں اسلام کا نقطہء نظر موجودہ مغربی اور ہندووانہ نقطہ نظر سے بنیادی طور پر مختلف ہے ،وہ اس دعویٰ ہی کو تسلیم نہیں کرتا کہ انسان اس دنیا میں کسی بھی چیز کا حتی کہ اپنی ذات کا مطلق مالک ہے اور وہ اس میں اپنی آزاد مرضی سے تصرف کرسکتا ہے۔ اس کے نزدیک یہ پوری دنیا اللہ تعالیٰ کی پیدا کردہ ہے اور وہ اسے چلارہا ہے ؛ اس لیے وہی اس کا حقیقی مالک بھی ہے۔ اس دنیا میں انسان خود سے نہیں آیا ہے بلکہ اللہ تعالیٰ نے اس کو وجود بخشا ہے اور اسی نے اس کے لیے سامان زیست فراہم کیا ہے۔ اس لیے وہی اس کی ذات پر مالکانہ اقتدار بھی رکھتا ہے۔ انسان اپنی ذات یا اپنے کسی اقدام کے بارے میں کوئی آزادانہ فیصلہ نہیں کرسکتا، ورنہ اس کی حیثیت اس مجرم کی ہوگی جو دوسرے کی چیزوں کو اپنی مرضی سے استعمال کرے اور ان کے بارے میں فیصلے صادر کرتا پھرے ؛لہذا انسان کو یہ فیصلہ کرنے کا حق ہی نہیں ہے کہ اسے کب تک دنیا میں رہنا ہے اور کب یہاں سے کوچ کرنا ہے ، جس نے زندگی دی ہے وہی فیصلہ کرے گا کہ زندگی کب واپس لی جائے گی۔

کلام الہی میں خود کشی ممانعت :

اللہ کے نزدیک کسی انسان کی جان کتنی محترم ہے اوراس کا اس دنیا میں وجود کتنا ضروری ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ زمانہ جاہلیت میں لوگ تنگ دستی کے خوف سے اپنی اولاد کو قتل کردیتے تھے تاکہ وہ ان کی پرورش کے بوجھ سے آزاد رہیں؛مگر اسلام نے نہ صرف اس کی مخالفت کی بلکہ اس فعل کو حرام قرار دیا اور فرمایا:”اورنہ قتل کرو اپنی اولاد کو مفلسی کے ڈر سے ہم ہی روزی دیتے ہیں ان کو اور تم کو بھی، بے شک ان کا مارنا بڑی خطا ہے‘‘(بنی اسرائیل:۳۱)

ایک اور مقام پر اسی بات کو اس طرح بیان کیاگیا ہے :”اور اپنی اولادوں کو مال میں کمی کے خوف سے قتل نہ کرو۔ ہم ان کو بھی رزق دیتے ہیں اور تم کو بھی ‘‘(انعام:۱۵)

دونوں آیتوں میں الگ الگ دولوگوں کو خطاب کیاگیا ہے۔ ایک وہ ہیں جو فی الحال مفلس تو نہیں ہیں مگر ڈرتے ہیں کہ جب عیال زیادہ ہوں گے تو کہاں سے ان کو کیا کھلائیں گے ؛ جب کہ دوسرے طبقہ کو عیال سے پہلے ہی اپنی روٹی کی فکر دامن گیر ہوگئی ہے ؛ اس لیے ایک جگہ خشیۃ املاق اور دوسری جگہ من املاق کے ذریعہ خبردار کیاگیا کہ تم کو رزق کے بارے میں فکرمند ہونے کی ضرورت نہیں ہے ہم ان کو بھی رزق دیں گے اور تم کو بھی۔

اسی طرح صراحتاََ ایک مقام پرخود کشی سے منع کرتے ہوئے فرمایا”تم اپنے آپ کو قتل نہ کرو” (النساء: ۲۹)دوسری جگہ فرمایا:تم اپنے آپ کو ہلاکت میں مت ڈالو(البقرۃ :۱۹۵)

اس طرح کے اور بہت سے احکام قرآن مجید میں موجود ہیں جن سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتاہے کہ انسان کو اس بات کااختیار ہی نہیں ہے کہ کب اپنی جان لے ،ہاں انسان کے ذمہ ہے کہ وہ اس کی حفاظت کرے اوراس میں کوئی تصرف نہ کرے۔

احادیث رسول میں خود کشی کی مذمت :

رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود کشی کرنے والے کے تعلق سے وعید کے بیان میں جو انداز اختیار کیا ہے وہ نہایت سخت تہدید پر مشتمل ہے ، فرمایا:’’جس نے گلا گھونٹ کر اپنے آپ کو مار ڈالا، وہ دوزخ میں بھی گلاگھونٹے گا، اور جس نے نیزہ مار کر اپنے آپ کو ہلاک کیا اسے دوزخ میں بھی اسی طرح اپنے آپ کونیزہ مارنے کا عذاب دیا جائے گا۔ ‘‘(کنزالعمال) یعنی خود کشی کی بناء پرمصائب و مشکلات سے چھٹکارا نہیں ملے گا؛بلکہ دنیا میں جس چیز سے اورجس انداز سے خودکشی کرے گا آخرت میں اسی انداز کا عذاب دیا جائے گا۔

اسی طرح حضرت جابررضی اللہ عنہ نے فرمایاکہ حضرت طفیل بن عمر ودوسی ؓ کے ساتھ ان کی قوم کے ایک اور شخص نے بھی مدینہ طیبہ ہجرت کی، یہاں یہ دوسرے شخص بیمار پڑ گئے ،تکلیف کی شدت کے باعث ان سے صبر نہ ہو سکا اورانہوں نے ایک ہتھیار سے اپنی انگلیوں کے جوڑ کاٹ لیے ، رگیں کٹ گئیں اور خون اتنا بہہ گیا کہ انتقال ہو گیا ،حضرت طفیل ؓ نے بعد میں ان کو خواب میں دیکھا کہ ایمان پر خاتمہ او رہجرت کی وجہ سے بہتر حالت میں ہیں؛ مگر ان کے ہاتھ ڈھکے ہوئے ہیں، حضرت طفیل رضی اللہ عنہ نے ان کو خواب میں پوچھا کہ’’ آپ کے رب نے آپ کے ساتھ کیا معاملہ کیا ؟‘‘ ان صاحب نے کہا :’’اللہ تعالیٰ نے ایمان اور ہجرت کی برکت سے مجھے معاف کر دیا، مغفرت تو ہوگئی، لیکن میرے ہاتھوں کے بارے میں فرمایا گیا کہ’’ جس چیز کو تم نے خود بگاڑ لیا ہے میں اسے درست نہیں کرتا ‘‘حضرت طفیلؓ نے یہ خواب حضور صلی اللہ علیہ و سلم سے بیان کیا، توآپ صلی اللہ علیہ و سلم نے دعا فرمائی :’’یا الٰہی! ان کے ہاتھوں کو بھی معاف فرما۔‘‘ (مسلم، مشکوٰۃ )

اس سے معلوم ہوا کہ خود کشی کرنا اگر چہ سنگین جرم اور بہت ہی سخت گناہ و عذاب کا باعث ہے ،لیکن خود کشی کرنے والے کا خاتمہ ایمان پر ہو تو اس کی معافی اور بخشش ہو جائے گی اور خود کشی کرنے والے کے لیے دعائِ مغفرت و ایصال ثواب بھی کرنا چاہیے ، بلکہ وہ اس کا بہت زیادہ محتاج ہوتا ہے۔

خودکشی کے اسباب اور ان کا تدارک :

یہ سچ ہے کہ زندگی کے سفر میں کبھی ایسے موڑ بھی آتے ہیں جب انسان امید اور نا امیدی کے دوراہے پر آکھڑا ہوتا ہے ؛کیوں کہ زندگی کے نشیب وفرازمیں جہاں خوشی ومسرت کے نغمے ہیں وہیں غم وماتم کے فسانے بھی،جہاں فرحت وسرورکے لمحے ہیں وہیں رنج والم کے صدمے بھی، جہاں راحتوں کی سوغات ہے وہیں غموں کی برسات بھی،جہاں فراخی وخوش حالی کے اسباب ہیں وہیں غربت وافلاس کے حالات بھی غرضیکہ زندگی کا فلسفہ پھول اورکانٹے دھوپ اورچھاؤں سے عبارت ہے۔ ایسے موقعوں پر کامیاب شخص وہ ہے جو ہمت وحوصلے کے ساتھ ان حالات کا ڈٹ کر مقابلہ کرے اور دل ہارنے کے بجائے پامردی و استقلال کا ثبوت پیش کرے۔

غورکیاجائے تو مسلمانوں میںخود کشی کی بڑھتی ہوئی شرح کے اسباب میں ایک اہم و بنیادی سبب اسلام اور اسلامی تعلیمات سے دوری ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو آزمائش میں دال کر ان کے گناہوں کو مٹاتا ہے اور درجات کو بلند کرتا ہے۔ جو لوگ آزمائش میں پورا اترتے ہیں وہ اللہ کی رحمتوں کے سائے میں آجاتے ہیں اور جو ناکام ہو جاتے ہیں وہ خود کشی کو راہِ نجات سمجھتے ہیں اور نہ صرف یہ کہ اپنا دنیاوی نقصان کرتے ہیں بلکہ اپنی آخرت بھی تباہ و برباد کر لیتے ہیں۔ انسان کو اللہ پر مکمل بھروسہ ہونا چاہئیے اور یہ بات بھی یاد رکھنی چاہئیے کہ سب تکلیفوں اور مصیبتوں کو ختم کرنے والی صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ہے۔ صبر کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس قبیح فعل کو انجام نہیں دینا چاہئیے اور اسلامی تعلیمات پر عمل کرتے ہوئے تمام مشکلات کا ڈٹ کر مقابلہ کرنا چاہئیے۔

ویسے توخودکشی کے مختلف اسباب وعلل ہوسکتے ہیں؛جن میں چند یہ ہیں:(1)معاشی مشکلات(3)رشتوں کی ناچاقی واختلافات(4)ظلم و بدسلوکی (5)تشدد وبے راہ روی(6)حقوق کی پامالی (7)جہیز اور ناجائز مطالبات کا رواج- وغیرہ

ادھر پچھلے کچھ عرصے سے ” بلو وہیل نامی” ایک گیم نے جودہشت و اودھم مچارکھی ہے وہ اب عالم آشکاراہوچکی ہے ،کہاجاتاہے کہ یہ ایک نفسیاتی کھیل ہے جو کھیلنے والے کو پچاس دن کے لئے خود کو اذیت ناک صورتحال سے دوچار رکھنے کا چیلنج دیتا ہے ؛جس کا انجام کھیلنے والے کی موت کی شکل میں ظاہرہوتا ہے جو جیتنے کے لئے نہایت ضروری ہے۔ اطلاعات کے مطابق یہ کھیل دنیا بھر میں تاحال ڈھائی سوسے زائد لڑکے اور لڑکیوں کی جان لے چکا ہے۔

وقت کی فوری ضرورت ہے کہ ان محرکات اور اسباب کا سدباب کرنے کے لیے حتی الوسع اجتماعی وانفرادی کوششیں کی جائیں،دیکھاجائے کہ کیاچیز لوگوں کو اس اقدام پر مجبور کرتی ہے ؟؟۔

اس میں مالی مشکلات بھی شامل ہیں قرض کی پریشانیاں بھی،امراض و عوارض کی بہتات بھی داخل ہے نفسیاتی الجھن ورسوائیاں بھی ،کسی کی بے حسی ولاپرواہی اس کی وجہ ہے تو کسی کی بے وفائی وبے التفاتی وغیرہ۔ ہم مانتے ہیں کہ حالات کے ستائے افراد ہی خودکشی کی طرف زیادہ مائل ہوتے ہیں؛لیکن!یہ زندہ حقیقت ہے کہ اس کا واحد حل "صبر”اور "قوت برداشت” ہے۔ اور سب سے عظیم قوت صبر والوں کے ساتھ اللہ کی مدد ہے۔ ایسے انعام سے منھ موڑ کر جہنمی عمل کو گلے لگانا کتنی کم ظرفی اور کیسی محرومی کی بات ہے۔ اس رُخ سے بھی معاشرے کے مرد و خواتین کو غور کرنا چاہیے۔ ہم آخرت پر ایمان رکھتے ہیں، صبر وشکر والوں کے لیے انعاماتِ خسروانہ کی بشارتیں موجود ہیں۔ آخرت کی فلاح سے منھ موڑ لینا خلافِ عقل بات ہے ؛اس لیے خدارا! کسی بھی قدم کو اٹھانے سے پہلے یہ غور کر لیں کہ اس میں آخرت کا نفع ہے یا نقصان، اور اللہ و رسول کی رضاہے یا ناراضی۔

المختصر: یہ زندگی اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت اور ہمارا پورا وجوداسی کی امانت ہے ،اورممکنہ حد تک اس کی حفاظت کرنا ہماری ذمہ داری اور اسلامی، فطری، اخلاقی اور انسانی فریضہ ہے ،فقہی نقطۂ نظر سے بھی دیکھاجائے تو یہ انسانی جان ربِ کریم کی عطا کی ہوئی ایک ایسی امانت ہے جس کاتحفظ بہر صورت لازم اورضروری ہے ،مصائب و مشکلات کی اندھیریاں ہوں یا مجبوریوں اور ناامیدوں کی تاریکیاں، اس عظیم امانت الٰہی کو خود کشی کے ذریعہ لمحوں میں ضائع کر دینا نہ تو اسلام میں جائز ہے ، نہ انسانیت کی نظر میں مستحسن ہے ،اسی لیے ایسے کسی بھی عمل کی اسلام میں اجازت نہیں جوبے مقصد ہو، صحت یا زندگی کے لیے مضرت رساں ہو اور انسانی وجود اور زندگی کو خطرہ میں ڈال سکتا ہو، بلکہ جان بچانے کے لیے بوقت ضرورت اور بقدرِ ضرورت ایسی چیزوں کے استعمال کی بھی اجازت دی گئی ہے جو اصلاً ناجائز اور حرام ہیں۔

پھر انسان کے لیے من جانب اللہ اس کے جسم و جان کی حفاظت کے لیے جو اسباب مہیا ہیں ان کی مثال کسی مخلوق میں نہیں ملتی، اس کے باوجود اگر کوئی اپنے آپ کوہلاک کرتاہے تو یہ ایسا جرم ہے جو دنیا اور عقبیٰ دونوں میں مجرم کو محروم کردیتا ہے اورکہیں کا نہیں رہنے دیتا۔

اب تو گھبرا کے یہ کہتے ہیں کہ مر جائیں گے

 مر کے بھی چین نہ پایا تو کدھر جائیں گے

تبصرے بند ہیں۔