بن تِرے ہے کٹھن گزارا بھی

 افتخار راغبؔ

بن تِرے ہے کٹھن گزارا بھی

ہے کہاں اور کوئی چارا بھی

کیا کیا جائے تم ہی بتلاؤ

دل تو لگتا نہیں ہمارا بھی

میرے جیسا ہی گردشوں میں ہے

میری تقدیر کا ستارا بھی

جان میں جان ڈال دیتا ہے

ایک بے جان سا سہارا بھی

آرزویں پنپتی رہتی ہیں

چلتا رہتا ہے دل پہ آرا بھی

اپنے لب کو نہ دیجیے زحمت

ہے بہت آپ کا اشارا بھی

یار پردیس کی کمائی سے

فائدہ ہے تو ہے خسارا بھی

تبصرے بند ہیں۔