خوں آشام ’شام‘ کا ذمہ دار کون؟
محمد حسن
شام کے مخدوش حالات کو لے کر ساری دنیا خاموش ہے اور سارا عالم تماشہ بینی میں لگا ہوا ہے۔ انسانیت پرست اور انسانی حققوق کے تحفظ کا ڈنکا پیٹنے والے بجائے انسدادی اقدامات کرنے کےخود تماشائیوں کے صف میں کھڑے دیکھے جارہے ہیں۔
چند دنوں پہلے جو امن عالم اور آفاقی چین وشانتی کی بیگل بجاتے ہر چوراہے پر کھڑےنظر آتے تھے، آج وہ غیر مرئی ہوگئے ہیں، اور ان کی زبان سل ہوگئی ہے، اور حد تو یہ ہے کہ اب وہ بھی داؤ سادھنے میں لگے ہوئے ہیں، خواہ، ان کو اپنے اقتدار کا خوف اندر سے ما رے جا رہا ہو یا انسانیت نوازی سے انہیں نفرت اس بات سے پیدا ہونے لگی ہو کہ وہ خود ایک دن اسی کا شکا ر ہوجائیں گے۔
اس مسئلے میں جہاں پڑوسی ممالک کا انسانیت کے ناطے یہ فرض بنتا تھا کہ وہ اس نسل کشی کی بڑھتی ہوا کو روکیں اور شامیوں کی زندگی میں نئی کرن نکلنے کا موقع دے کر عرصہ دراز سے اس بادِ بربادی کی سمت کو موڑیں او ر انہیں لقمئہ اجل بننے سے بچائیں، وہیں خاص طور سے عالم اسلام کی بھی یہ ذمہ داری بنتی تھی کہ قتل انسانی کی اس سازش میں دخل اندازی کرکے معصوم جانوں کو بچا کر دنیا کو یہ پیغام دیں کہ مذہب اسلام امن و شانتی اور صلح و آشتی کا درس دیتا ہے اور یہ ثابت کریں کہ ہم اس محمد عربی کے پیرورکار ہیں جس کے رب نے ایک انسان کے قتل کو ساری دنیا کے انسانوں کا قتل اور ایک جان کی حفاظت کو سارے عالم کے جانوں کی حفاظت بتایا ہے، لیکن انہیں تو اپنے خواب گاہوں میں آرام سے فرصت نہیں، بھلا وہ اسلام اور مسلمانوں کی فکر کیا کریں! ابھی بھی وقت ہے۔
اگر پڑوسی ممالک داؤ سادھنے کے بجائے اس طویل فتنے کو ختم کرنے کی کوشش کریں اور عالم اسلام اس کے تئیں اپنی بیداری کا اظہار کریں تو کل ہی سارے مسائل ختم ہوسکتے ہیں اور شامیوں کو چشمئہ صاف و شفاف سے سیراب ہونے کا موقع حاصل ہوسکتا ہے۔

(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
تبصرے بند ہیں۔