دنیا نے جو پڑھا ہے محبت کے باب میں
شازیب شہاب
دنیا نے جو پڑھا ہے محبت کے باب میں
لکھا وہی ہے آپ نے دل کی کتاب میں
چہرہ گلاب ہونٹ کنول زلف موگرا
کیسے حسیں لگیں نہ وہ عہدِ شباب میں
دھوکا نظر کا ہے کہ طلسمِ خیال ہے
وہ دکھ رہے ہیں صاف مجھے ماہ تاب میں
فصل بہار آئی ہے کیا روپ دھار کر
رنگت اداسیوں کی ہے ہنستے گلاب میں
حدّت سے روح تک مری پل میں جھلس گئی
کیسی ہے نرم دھوپ مرے آفتاب میں
پامال ہو کبھی بھی نہ حرمت شباب کی
گر جلوہ گر ہو حسن حیا کے حجاب میں
ہے کیا مجال جسم ہو آمادۂ گناہ
جب روح بھی شریک ہو کارِ ثواب میں
میں اپنی ضد کی دھوپ کو اوڑھے ہوئے شہابؔ
بے حال ہوں تعاقبِ حسنِ سراب میں
تبصرے بند ہیں۔