سادگی بنام تصنّع

ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی

رستم کا دربار زبردست طریقے سے سجایا جا رہا تھا۔ دور تک خوب صورت قالینیں بچھائی گئی تھیں۔  زرق برق جھاڑ فانوس سجائے گئے تھے۔  مرکزی جگہ قیمتی پردے لٹکائے گئے تھے ۔ رستم کے لیے اونچا تخت بچھایا گیا تھا اور اسے خوب آراستہ کیا گیا تھا۔ یہ آرائش و زیبائش یوں تو معمول کا حصہ تھی کہ رستم ایران کا سپہ سالارِ اعظم تھا۔  لیکن آج اتنی زبردست تیّاری کی وجہ یہ تھی کہ اسلامی خلافت کا سفیر رستم سے ملنے کے لیے آنے والا تھا اور اس پر دربار کا رعب اور دہشت طاری کرنا مقصود تھا۔

حضرت رِبعی بن عامر رضی اللہ عنہ اپنے گھوڑے پر سوار اس جگہ پہنچے جہاں دربار سجا ہوا تھا۔ لباس بہت معمولی۔  لیکن چہرے پر تمکنت اور وقار۔ کمر میں تلوار حمائل اور ہاتھ میں نیزہ ۔ گھوڑے سے اتر کر انھوں نے اس کی لگام ایک جگہ باندھی اور نیزہ ٹیکتے ہوئے آگے بڑھے۔  جس سے کئی جگہ قالین میں سوراخ ہوگئے۔ درباری محافظ شاہی آداب سکھانے کے لئے آگے بڑھے۔  لیکن انھوں نے صاف کہہ دیا کہ مجھے کچھ سکھانے کی ضرورت نہیں۔ یہ ناممکن تھا کہ رستم تختِ سپہ سالاری پر جلوہ افروز رہے اور حضرت رِبعی اس کے سامنے دست بستہ کھڑے ہوکر عرضِ مُدّعا کریں۔  سو رستم تخت سے اترا۔  دونوں برابر سطح پر بیٹھے اور ان میں گفتگو ہوئی۔

تاریخ نے محفوظ کیا ہے کہ ایران کے سپہ سالارِ اعظم اور لشکرِ اسلام کے نمائندے میں کیا باتیں ہوئیں ؟ اسی طرح یہ بھی محفوظ ہے کہ اس ملاقات کے کیا اثرات ظاہر ہوئے؟ اور کس طرح اسلام کا سیلِ رواں ایران جیسی عظیم شہنشاہیت کو خس و خاشاک کی طرح بہا لے گیا اور رستم جیسے جہاں دیدہ اور زیرک سپہ سالار کے لیے اس پر روک لگانا ممکن نہ رہا۔ اس وقت اس کی تفصیل میں جانے کا موقع نہیں ہے۔ اس وقت یہ نکتہ پیش کرنا مقصود ہے کہ اس تاریخی لمحے میں سادگی کو تصنّع پر فتح حاصل ہو گئی تھی اور اسی لمحے ایران کا مستقبل لکھا جا چکا تھا۔ رستم اور اس کے درباریوں نے زبردست ڈیکوریشن کرکے سفیرِ اسلام کو مرعوب کرنا چاہا تھا۔  لیکن واقعہ یہ ہے کہ رستم۔  اس کے مصاحبین۔  درباری۔  معاون سپہ سالار۔  بلکہ ایک ایک فوجی سفیرِ اسلام کی سادگی سے مرعوب۔  اس کی صاف گوئی سے دہشت زدہ اور اس کے بھر پور اعتماد کا قتیل ہوگیا تھا۔

افسوس کہ صدرِ اوّل کے ان مسلمانوں کے جانشینوں نے سادگی کے بجائے تصنّع کو نمونہ بنایا اور اسے اپنانے کی پوری کوشش کی۔ مسلم حکومتیں ہوں یا مسلم ادارے۔  مسلم تنظیمیں ہوں یا مسلم تعلیم گاہیں۔  ان کے سربراہوں نے ظاہری چمک دمک پر پوری توجہ دی۔  بڑی بڑی عمارتوں کی تعمیر۔  خوب صورت ترین فرنیچر۔  چمچماتی ہوئی میزیں اور کرسیاں۔  کمروں کا زبردست ڈیکوریشن۔  دبیز اور قیمتی پردے۔  یہی کچھ ان کا مطمحِ نظر بن کر رہ گیا۔ یہ ہوس اتنی آگے بڑھی کہ اگر ایک حکم راں کے بعد دوسرا حکم راں۔  ایک سربراہ کے بعد دوسرا سربراہ۔  ایک امیر کے بعد دوسرا امیر اور ایک ناظم کے بعد دوسرا ناظم آتا ہے تو وہ اپنا دفتر اپنی پسند سے ڈیکوریٹ کرنا چاہتا ہے۔ اس کے لیے نئی میزیں۔  نئی کرسیاں۔  نئے فرنیچر۔  نئے پردے اور ضروریات کی دوسری نئی چیزیں فراہم کی جاتی ہیں۔

ان بے چاروں کو نہیں معلوم کہ تصنّع نے کبھی سادگی پر غلبہ نہیں پایا ہے۔ افراد اور قوموں کو فکری صلابت۔  عزم محکم۔  مضبوط قوّت ارادی۔  پیہم عمل اور خدمت و نافعیت کے ذریعے ہی زیر کیا جاسکتا ہے۔ ظاہری ٹیپ ٹاپ کے ذریعے انھیں مرعوب کیا جا سکتا ہے نہ انھیں اپنا ہم خیال  بنایا جا سکتا ہے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے تو اسے قیامت کی نشانی بتایا ہے کہ لوگ اونچی اونچی عمارتیں بنانے میں ایک دوسرے سے مقابلہ کرنے لگیں گے۔

اسلامی فکر رکھنے والوں کو اگر مقابلہ ہی کرنا ہے تو تصنّع و تکلّف،  ملمّع کاری،  رنگینی اور ڈیکوریشن وغیرہ میں نہیں۔  بلکہ سادگی میں کریں۔ پہلی صورت میں ان کی کام یابی کا کوئی امکان نہیں۔  جب کہ دوسری صورت میں ان کی کام یابی یقینی ہے۔

1 تبصرہ
  1. ندیم اقبال ثاقب کہتے ہیں

    سنہری تاریخ کا قیمتی ورق

تبصرے بند ہیں۔